آپریشن رد الفساد کے ابتدائی نتائج

پشاور – پاکستانی شہریوں نے امید ظاہر کی ہے کہ آپریشن ردالفساد کی ابتدائی کامیابی اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ مہم دہشت گردی کی حالیہ لہر کا خاتمہ اور امن قائم کرے گی۔

انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق پاکستان نے اس مہم کا آغاز 22 فروری سے کیا تاکہ "دہشت گردی کے مخفی خطرے کا خاتمہ کیا جائے، ابھی تک کیے جانے والے آپریشنز کے نتائج کو مستحکم کیا جا سکے اور سرحدوں پر سیکورٹی کو مزید یقینی بنایا جا سکے”۔

ردالفساد کا آعلان چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، پنجاب کے کور کمانڈروں، پاکستان رینجرز پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سربراہان کی لاہور میں میٹنگ کے بعد کیا گیا۔

تشدد میں اضافے کا ردعمل
اس آپریشن کا آغاز حالیہ ہفتوں میں ملک بھر میں دہشت گردانہ حملوں کی تازہ لہر کے نتیجے میں ہوا جس میں دوسرے حملوں کے علاوہ لاہور میں ہونے والا خودکش دھماکہ جو کہ 13 فروری کو ہوا، پشاور اور مہمند ایجنسی میں 15 فروری کو ہونے والے خودکش حملے اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام” (داعش) کی طرف سے سیہون، سندھ میں ایک صوفی مزار پر ہونے والا حملہ شامل ہیں۔

دریں اثنا، 21 فروری کو police foiled a mass-casualty terrorist attack پولیس نے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ایک دہشت گردانہ حملہ اس وقت ناکام بنا دیا جب انہوں نے ممکنہ خودکش بمباروں کو تنگی تحصیل، چارسدہ ڈسٹرکٹ، خیبرپختونخواہ (کے پی) میں عدالت میں داخل ہونے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

پولیس کے فوری ردعمل، اس کے بعد اس سے اگلے دن ہی تنگی تحصیل کے حملوں کے مبینہ منصوبہ سازوں کی گرفتاری اور انسدادِ دہشت گردی کے حالیہ آپریشن کا آغاز، فکرمند پاکستانیوں کے لیے تسلی بخش ہے۔

عسکری اور سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیا آپریشن آپریشن ضربِ عضب (جس کا آغاز فوج نے جون 2014) کو کیا تھا کے نتائج کو ٹھوس کرے گا اور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے کو مستحکم بنائے گا۔

وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سابقہ سیکورٹی سیکریٹری، برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ آپریشن علاقے کی سیکورٹی کے لیے بہت اہم ہے، پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ چھپے ہوئے عسکریت پسند بے گناہ پاکستانیوں کی جانوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور وہ افغانستان کے لیے بھی اتنے ہی خطرناک ہیں”۔

انہوں نے اس بات پر اعتماد کا اظہار کیا کہ آپریشن اپنے حدف کو حاصل کر لے گا اور افغانستان کے ساتھ انٹیلیجنس کو سانجھا کرنے کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کے اثرات کو پاکستان بھر میں اور افغانستان میں محسوس کیا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ "آپریشن ردالفساد دہشت گردوں کے لیے شدید دھچکا ہو گا کیونکہ یہ تمام فورسز کی طرف سے ایک ہم آہنگ حملہ ہے”۔

علاوہ ازیں، انتہائی سخت سرحدی انتظام، جماعت الاحرار اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں اور ایسے غیر ملکی جنگجوؤں کا پتہ لگانے اور ان کا خاتمہ کرنے میں مدد کرے گا جو علاقائی امن کے لیے وباء بنے ہوئے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے طالبِ علم حمزہ خان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرحدی علاقے میں عسکریت پسندوں سے جنگ کرنے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے "مسام دار” کے طور پر بیان کیا۔

[pullquote]لڑائی کو پنجاب لے جانا[/pullquote]

دوسرے عسکریت پسند جنہوں نے اس سے پہلے پنجاب میں پناہ گاہیں ڈھونڈ رکھی تھیں جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور امیر ترین صوبہ ہے، اب وہاں موجود نسبتا محفوظ حالات میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔

وفاقی حکومت نے 22 فروری کو پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے پیرا ملٹری رینجرز کو ساٹھ دن کے لیے صوبے میں تعینات کرنے کی درخواست کی منظوری دی۔

اس کے نتیجہ میں تقریبا 2,000 رینجرز کو پنجاب میں تعینات کیا جائے گا تاکہ وہ پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عسکریت پسندوں کا پتہ لگانے میں مدد فراہم کر سکیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ایسے آپریشن کی طویل عرصے سے ضرورت تھی، کہا کہ "پنجاب میں رینجرز کا آپریشن عسکریت پسندوں کی نرسریوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہایت اہم ہے خصوصی طور پر ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی علاقے جہاں یہ شرپسند ایک سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں”۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پنجاب میں رینجرز کا آپریشن دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنے میں اہم محاذ ثابت ہو گا”۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے "اس میں فعال طریقے سے شامل ہوں گے” اور "ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی مکمل طور پر حمایت کریں گے”۔

اس بیان میں کہا گیا کہ "ان کوششوں میں پنجاب میں رینجرز کی طرف سے انسدادِ دہشت گردی کا آپریشن، ملک بھر میں پہلے سے ہونے والی مہمات کو جاری رکھنا اور زیادہ موثر سرحدی سیکورٹی مینجمنٹ پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے”۔

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ "نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر عمل کو جاری رکھنا اس آپریشن کی اہم علامت ہو گی”۔

وفاقی حکومت نے عسکریت پسندی کے انسداد کے این اے پی کا آغاز دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کی طرف سے کیے جانے والے قتلِ عام کے بعد کیا تھا۔

[pullquote]فوری نتائج[/pullquote]

آئی ایس پی آر کے مطابق، ردالفساد کے فوری نتائج سامنے آئے ہیں۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ فرنٹئیر کور اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے 22 فروری کو ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے خلاف بلوچستان میں ایک مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن کیا اور 23 گھریلو ساختہ بموں (آئی ای ڈیز) کو قبضے میں کیا جنہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں اور لورالائی یونیورسٹی کے طلباء کی بسوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

آئی ایس پی آر کی طرف سے 25 فروری کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق "پنجاب رینجرز نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں 200 سے زیادہ تلاشی کی مہمات سر انجام دیں جن میں کروڑ، لیہ اور راولپنڈی بھی شامل ہیں”۔ اس میں مزید کہا گیا کہ رینجرز نے مشتبہ گھروں، دکانوں اور مدرسوں کی تلاشی لی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "فائرنگ کے تبادلے میں چار دہشت گرد ہلاک ہو گئے جب کہ چھہ سو سے زیادہ ملزمان جن میں کچھ افغانی بھی شامل ہیں، کو گرفتار کیا گیا ہے”۔ گرفتار کیے جانے والے ملزمان میں جماعت الاحرار کے "سہولت کار” بھی شامل ہیں اور سیکورٹی فورسز نے انتہاپسندانہ مواد اور ہتھیار قبضے میں لیے۔

آئی ایس پی آر کے 26 فروری کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ داتا خیل، شمالی وزیرستان کے شیرانی گاوں میں کلین اپ کے ایک آپریشن کے دوران، پاکستانی افواج نے "ہتھیاروں اور گولہ بارود کے وسیع ذخیرے کو قبضے میں لیا جسے دہشت گرد پیچھے چھوڑ گئے تھے”۔

[pullquote]فیصلہ کن اور کثیر جہتی[/pullquote]

کچھ لوگوں کے مطابق، اس آپریشن میں عسکریت پسندوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے کی اہلیت ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبہ کے چیرمین پروفیسراے زیڈ ہلالی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ آپریشن ردالفساد "دہشت گردوں کے سلیپر سیلوں اور ان کے ساتھ ہی ان کے ہمدردوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرے گا”۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹارگٹڈ آپریشنز سے دہشت گردی کی مہمات کے مالی امداد کے سہاروں کو نقصان پہنچے گا۔

پشاور یونیورسٹی میں فاٹا اسٹڈیز کے ایک سیل کے سربراہ پروفیسر سید حسین شہید سہروردی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "این اے پی کو جاری رکھنا اور اس کا عملی نفاذ پاکستان میں لازمی اور دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ردالفساد دہشت گردوں کے خلاف عام شہریوں کو بچانے کے لیے "فیصلہ کن ضرب” ثابت ہو گا۔

[pullquote]ملک بھر میں اطلاق[/pullquote]

سہروردی نے کہا کہ تازہ ترین آپریشن دوسرے آپریشنز سے مختلف ہے جو قبائلی علاقوں اور صوبہ سندھ کے کچھ دوسرے حصوں میں انجام پائے کیونکہ اس میں فاٹا کے پہلے سے صاف کیے گئے علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں اور پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ان باقی حصوں کو جو عسکریت پسندوں سے پاک نہیں ہیں، نشانہ بنایا گیا ہے۔

سہروردی نے کہا کہ "یہ زیادہ موثر اور کامیاب ثابت ہو گا کیونکہ یہ شرپسندوں کو بھاگنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرے گا”۔

لاہور میں قائم این جی او شرکت گاہ کی طرف سے سوات میں قائم کیے جانے والے ویمنز ریسکیو سینٹر میں کام کرنے والی سماجی کارکن نیلم رحیم نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جب عسکریت پسندوں کا سامنا ملک بھر میں جاری حملے سے ہو گا تو "وہ بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے”۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے