علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ (حصہ دوم)

علامہ غامدی نے کہا: ”میں نے بارہا عرض کیا : جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے ،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے ،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،ہمارے ملک میں نہیں ہے ، ریاست یہ اِقدام نہیں کرسکی ، تو یہ بیانیہ کی توقعات کہاں سے رکھے ‘‘۔ علامہ صاحب کی خواہش یہ ہے :” مذہب ریاست کی ملازمت میں آجائے ، ظلِّ الٰہی کے خطبے پڑھے جائیں اور راوی ہر سُو چین لکھے ‘‘۔ہمیں بھی معلوم ہے کہ ملائشیا ، عرب ممالک ،ترکی حتیٰ کہ وسطی ایشیا میں بھی مذہب ریاست کے کنٹرول میں ہے ، توپھر سوال یہ ہے کہ القاعدہ اور داعش نے توعرب ممالک میں جنم لیا ہے ، جہاں مذہب ریاست کی ملازمت میں ہے ،خطبے دربارِ سرکار سے لکھے ہوئے آتے ہیں ،پھر یہ انہونی کیسے ہوگئی، استاد ذوق نے کہا تھا:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا، تو کدھر جائیں گے

جب امریکہ میں ہمارا مکالمہ ہوتا ہے ، تو وہ کہتے ہیں:” ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے ، ہماری دوسری آئینی ترمیم اسی بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ریاست کسی خاص مذہب کی مُرَبِّی نہیں بنے گی اور اُن کے بقول برطانیہ کے مقابلے میں امریکہ میں چرچ زیادہ آباد ہیں ۔برطانیہ میں مذہب ریاست کی سرپرستی میں ہے ،آرچ بشپ آف کنٹربری یعنی ”اُسقُفِ اعظم برطانیہ ‘‘کا تقرروزیرِ اعظم ایک طریقۂ کار سے گزرنے کے بعد کرتا ہے‘‘۔لیکن چرچ ویران ہیں ۔ یہی حال دوسرے ممالک کا ہے۔

ہماری نظر میں مذہب کو ریاست کے کنٹرول میں لینے کی خواہش نہایت سطحی ہے ۔جنابِ غامدی کے موقف میں ایک تضاد یہ ہے کہ وہ ریاست کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں اور پھر مذہب کو سیکولر ریاست کی ملازمت میںرکھنا چاہتے ہیں، یہ بیّن تضاد ہے، کیونکہ مذہب اور سیکولر ازم دو متضاد چیزیں ہیں۔ ایک فاضل کالم نگار کو مذہبی چہرے ناپسندہیں ۔جب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب برپاکرنے اسلام آباد وارد ہوئے تھے تو تھوڑے عرصے کے لیے وہ ان کی پسندیدہ شخصیت تھے ،مگر تحریک کے ناکام ہونے پر انہوں نے اُن کے قصیدے پڑھنے بھی چھوڑ دیے ۔ حال ہی میں انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے کالم لکھا ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”انتہا پسندی ،اذیت رسانی اور طاقت کے بل پراپنے نظریات دوسروں پر مسلّط کرنا ایک Mindsetہے ،اس کا غربت اور جہالت سے تعلق نہیں ہے ”

قرآن مجید نے یہی حقیقت بیان کی ہے:

”پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیااور اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ،پس اللہ کے بعد اُس کو کون ہدایت دے سکتا ہے ،تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے،(الجاثیہ:23)‘‘۔قرآنِ کریم نے یہ بھی بتایا کیا کہ مُفسِد مُصلِح کے روپ میں آتا ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ” اور جب اُن سے کہا جائے :” زمین میں فساد نہ کرو‘‘،تو وہ کہتے ہیں: ”ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ،سنو !درحقیقت یہی لوگ فسادی ہیں ،لیکن انہیں (اپنے جرم کا )شعور نہیں ہے ،(البقرہ:11-12)‘‘۔امریکہ اور اہلِ مغرب امن اور اصلاح کے نام پر ہی تو 1990میں عراق میں آئے اور تب سے اب تک عراق ،شام ،لیبیا ،یمن، مصر اور افغانستان میں کئی لاکھ انسانی جانیں تلف ہوئیں ، کئی ملکوں کو تہس نہس کیا،ہم بھی اس کا شکار رہے ،مگر امن کی منزل اب بھی کوسوں دور ہے۔

یہی بات ہم ایک عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں ،لیکن پشتو کا محاورہ ہے :”غریب مُلّا کی اذان پر کوئی کلمہ بھی نہیں پڑھتا‘‘۔لیکن یہی بات اگر ”دانشور ‘‘ کہہ دے ،تو وہ ناقابلِ تردید حجت بن جاتی ہے۔جنابِ ایاز امیر نے بطورِ مثال ہٹلر، اسٹالن ، مائوزے تنگ ،کمبوڈیا کے خیمر روگ، امریکہ کی ویت نام پر یلغار اور پھر عالمِ عرب پر امریکہ اور یورپ کی یلغار کا حوالہ دیا کہ یہ سب کچھ جہالت اور غربت کے سبب نہیں ہوا، بلکہ یہ اپنے عہد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورروشن خیال لوگ تھے اور اِن میں سے اکثر اقتدار پر متمکن تھے ۔امریکہ اور اہلِ مغرب کی اتباع میں پاکستان میں دہشت گردی کو بلا استثناء اہلِ مذہب اور دینی مدارس وجامعات کے ساتھ جوڑنے کا نقصان یہ ہوا کہ اصل مسئلہ پسِ پشت چلا گیا اور مدارس ہدف پر رکھ لیے گئے ۔ گزشتہ ربعِ صدی سے اس رُجحان کا سائنٹیفک تجزیہ اور مرض کی تشخیص کرکے اُس کا علاج تجویز کرنے کی نوبت ہی نہ آئی ۔

امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر 1990سے عالمِ عرب پر یلغار شروع کر رکھی ہے اور 2002سے افغانستان پر فوج کشی کیے ہوئے ہے ،افغانستان ،عراق ، لیبیا اور شام سمیت کون سا ملک ہے جہاں امریکہ نے اپنے مقاصد کے لیے اِن دہشت گرد تنظیموں کو استعمال نہیں کیا ۔جدید دہشت گردی سائنٹیفک طریقوں سے ہورہی ہے اور تو چھوڑیے،جو خود کش حملہ آور بارود اور بال بیرنگ پر مشتمل خود کش جیکٹ پہن کر اپنے وجود کو اُڑاتا ہے ،کیا یہ سارا سازوسامان وہ خود بناتا ہے ۔ہمارامیڈیا بھی مغرب کا مُقَلِّد اور اندھے کی لاٹھی ہے ،ان کا کوئی نمائندہ کسی پُر خطر مقام پر موجود نہیں ہوتا۔آج عالمِ عرب میں جو کچھ ہورہا ہے ،کیا ہمارے میڈیا کا ایک بھی نمائندہ وہاں موجود ہے ، سو ہمارے پاس کوئی خبر اپنی اصل شکل میں نہیں آتی ،بلکہ ہر خبر مغرب کی چھلنی سے چھَن کر آتی ہے۔ امریکہ تو بظاہر سیکولر دنیا کا امام ہے ، تو جارج بش کی زبان پرکروسیڈ کا نام کیسے آگیا ، یہ وہ جنگ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہی ، اگر ایک جگہ اس کے شعلے وقتی طور پر فروہوتے ہیں ،تو دوسری جگہ بلند ہوجاتے ہیں،اس کا سبب کیا ہے ۔علامہ غامدی صاحب کی مذہب کو ریاست کا ملازم بنانے کی خواہش بجا ،لیکن موجودہ حالات میں میری اور اُن کی زندگی میں پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ، مستقبل کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔دراصل حکومت کا کام بلا امتیاز قانون کو نافذ کرنا ہے ،اگر ہمارے وطنِ عزیز میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے اور عدل بلا امتیاز اور بلا قیمت دستیاب ہوجائے ،تو ان شاء اللہ العزیز معاشرے میں فساد بہت حد تک ختم ہوجائے گا،سو فیصد تطہیر تو کہیں بھی ممکن نہیں ہے ۔

جنابِ غامدی کا ایک موقف یہ ہے :”پہلے بارہ سال کی لازمی ریاستی تعلیم کے لیے ہماری ریاست میں کوئی بل بُوتا نہیں ہے اور اب تک نہیں کرسکی‘‘۔ہماری دانست میں عربی لفظ کی فارسی لفظ کی طرف اضافت کرکے ترکیب بنانا درست نہیں ہے ،جیسے ”وسیع البنیاد‘‘،مگر ہمارے ہاں رائج ہے،اس کی بجائے ”وسیع الاصل‘‘ہونا چاہیے، کیونکہ کسی چیز کی بنیاد کو اصل کہتے ہیں۔ مدارس کے تین فیصد بچوں کو توایک طرف رکھیں ،کیا پاکستان میں ریاست نے آج تک یہ انتظام کیا ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے اور قوم کے تمام بچوں کو ایک نصاب پر مشتمل اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے ۔پاکستان میں معیاری تعلیم تو سب سے منفعت بخش صنعت وتجارت بن چکی ہے ،جنابِ جاوید غامدی کو اس پر بات کرنی چاہیے ۔ غریب کا بچہ بالفرض ملک کا سب سے ذہین ترین ہے ،کیا یہ تعلیم خرید سکتا ہے ، جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں ، سو پہلے ازراہِ کرم اس پر بات کیجیے ۔کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ دینی مدارس میں جانے والے چند لاکھ بچے بھی کسی ورک شاپ پر کاکے اور چھوٹے بن کر استاذ کے پھینکے ہوئے سگریٹ کے کَش لگائیں اور گالیاں سن کراخلاق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔غریب والدین جو اپنے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں ملازم کے طور پر بھیجتے ہیں ،آئے دن اُن بچوں پر مظالم کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں ،کیا حکومت نے یہ لازم کیا ہے کہ اُن بچوں سے خدمت لینے والے انہیں اسکول بھی بھیج دیا کریں۔ غامدی صاحب یہ بتائیں کہ کیا لوگوں کے بچوں کو جبراً دینی مدارس میں لایا جاتا ہے یا وہ اپنی خواہش پر آتے ہیں ۔

حکومتی تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حال کیا ہے ،میں کسی دور اُفتادہ دیہات کی بات نہیں کروں گا، بلکہ جنابِ غامدی سے کہوں گا کہ وہ عروس البلاد کراچی ،جسے پاکستان کا اقتصادی کیپٹل بھی کہاجاتا ہے ،کے تعلیمی اداروں کا اپنے ادارے ”المورد‘‘ کے ذریعے اچانک دوچار بار معائنہ کرائیں ، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس خرابے میں بچوں کے مستقبل کو برباد نہ کیا جائے۔ حالانکہ عمارت بھی موجود اور رجسٹر رول پر اساتذہ کی طویل فہرست بھی نظر آئے گی،مگر کلاسیں ویران نظر آئیں گی۔

جنابِ عمران خان نے پختونخوا میں تعلیمی نظام کو ایک کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے ،انہوں نے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو بہت بہتر بنایاہے ،لیکن اُن کی جماعت میں بھی تعلیم کے تاجر موجود ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں انگلش میڈیم تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں آج بھی صوبے میںموجود ہیں۔ ہماری مسلّح افواج نے نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک معیاری تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں ، لیکن کوئی سروے کرکے بتائے کہ اُن میں فوجی جوانوں کے کتنے بچے تعلیم پارہے ہیں ، فلسفیانہ باتوں کی بجائے حقیقت پسندی اور ملک میں دستیاب وسائل اور زمینی حقائق پر مبنی تجاویز دینی چاہئیں۔زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب سید مراد علی شاہ نے بارہا وعدہ کرنے کے باوجود اتحادِ تنظیماتِ مدارس کے وفد کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے ایک مکتبِ فکر کے 94بڑے مدارس کو مشتبہ ڈکلیئرکیا، لیکن پھر ان کے ایک مرکزی رہنماکو دو گھنٹے ملاقات کا وقت دیا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا: ”مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک فہرست موجود ہے، سو میں نے کہا: جاری کردو‘‘۔یعنی یہ میڈیا کے دبائو سے نکلنے کا حربہ تھا، برسرزمینِ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سو یہ ہے اپیکس کمیٹی کے اجلاسوں کی حقیقت ،جب کہ چند دن پہلے وہ عقیدت مند بن کر انہی میں سے ایک ادارے کے سربراہ کے قدموں میں بیٹھے نظر آئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے