23 مارچ اورقائداعظم کاتصورریاست

6فروری1940کو جناح نے باضابطہ طور پروائسرائے کو مطلع کر دیا کہ مسلم لیگ لاہور میں اپنے کھلے اجلاس میں23 مارچ کو تقسیم ملک کا مطالبہ کرنے جا رہی ہے ۔آل انڈیا مسلم لیگ کے23 مارچ 1940 کے اجلاس نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ موجود وفاق کی اسکیم کو بزور طاقت مسترد کر دیا ۔اس کی قرداد میں پنجاب،سندھ،بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ سرحد کے لیے مکمل خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کے اختیارات اور دیگر صوبوں میں مساوی اختیارات کے ساتھ وفاق کا مطالبہ کیا تھا ۔مولوی فضل الحق نے کھلے اجلاس میں اس قراداد کو رکھا اور جناح نے خلیق الزمان کو اس کی تائید کرنے کے لیے کہا ۔

23مارچ 1940کی نصف شب میں اسے منظور کر لیا گیا ۔اگلی صبح ہر جگہ اخبارات نے شہ سرخیاں جمائی تھی کہ قرادادپاکستان منظور ہو گئی ۔اس سرخی نے ایک نئے ملک کے خیال کو عام کر دیا ۔سٹنیلے والبرٹ نے قائد اعظم کے بارے میں لکھا ’’بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابل ذکر انداز میں جوڑتی ہیں اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسے تو بہت کم ہی ہیں جنہیں ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو ، جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے ‘‘۔

قائد اعظم کی فکر انگیز قیادت میں 1940 سے شروع ہونے والا سفر اگست 1947 کو اختتام پذیر ہوا ۔پاکستان کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کر دی ،ماؤں اور بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانیاں دی ۔قائد نے جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا تھا کیا وہ مقاصد پورے ہو گئے ؟کیا آج اس ملک میں سب کی عزتیں ،جان و مال محفوظ ہیں ۔پاکستان کو بنے ہوئے 70 سال ہو گئے ابھی تک ہماری سمت کا تعین نہیں ہو سکا ۔اس ملک پر ’’بسکہ فعال‘‘ لیڈروں کا قبضہ رہا ۔آئین ان کے نزدیک موم کی ناک رہا ،یہاں قاتل کو باعزت بری کیا جاتا ہے ،قوم کا مال وزر لوٹنے والے کو صدر یا وزیر اعظم بنایا جاتا ہے ۔

قائد اعظم نے ہمیشہ جمہوری اصولوں کا پاس کیا ۔آپ جمہوریت کے بہت بڑے حامی تھے اور باہمی مشاورت پر کامل یقین رکھتے تھے ۔ان کے تصور جمہوریت کا ایک لازمی اور ناگزیر جزو سیکولر ازم تھا ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیکولرازم کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ۔یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ ’’لادینیت ‘‘کر کے سیکولر ازم کے نظام سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ سیکولر ازم کا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں ،یہ اصطلاح تھیو کریسی کے الٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔تھیو کریسی ایک ایسے نظام کو کہتے جس میں حکومت کلیسا کے احکام کے تابع ہوتی ہے جبکہ سیکولر ازم میں حکومت کلیسا کی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے ۔

سیکولرازم میں ریاست خود کو مذہبی مناقشات اور مسلکی اختلافات سے دور رکھتی ہے اور ایک غیر جانبدار ادارے طرزعمل اختیار کرتی ہے ،قائد اعظم کے ذہن میں پاکستان کے حوالے سے جو تصور تھا وہ ایک ایسی مملکت کا تصور تھا جس میں ریاست مذہبی اختلافات سے خود کو دور رکھتی اور ایک غیر جانبدار ادارے کی حثیت سے کام کرتی ہے ۔قائد اعظم کا پورا سیاسی کیرئیر مسلم اقلیت کے حقوق کی وکالت کی نذر ہوا،آئینی اصلاحات کے ہر موقع پر انہوں نے مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کے حصول کی بھرپور کوشش کی مگر ایک اقلیت کے حقوق کی حمایت اور مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے میں جو فرق تھا وہ قائداعظم کی سیاست میں نمایاں تھا چنانچہ عین اس زمانے میں جب کہ وہ مسلم اقلیت کے سیاسی حقوق اور اس کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کے امکان کے خلاف برسرپیکار تھے انہوں نے تحریک خلافت سے خود کو الگ رکھا ۔

جو شخص اقلیتوں کے حقوق کے لیے تمام عمر بر سرپیکار رہا وہ قیام پاکستا ن کے بعد نئی مملکت کی اقلیتوں کو بے یار ومدد گار کیسے چھوڑ سکتا تھا چنانچہ 11 اگست 1947کی اپنی تقریر میں انہوں نے ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے جو چشم کشا گفتگو کی وہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے اسی تاریخی تقریر میں آپ نے فرمایا ’’بایں ہمہ اس تقسیم میں کسی ایک مملکت یا دوسری مملکت میں اقلیتوں کا وجودناگزیر تھا اس سے مفر نہیں تھا اس کا بھی کوئی اورحل نہیں تھا ،اب ہمیں کیا کرنا ہے ؟اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کریں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں ،آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے ،دوسرا یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں ‘‘

غیر مسلم پاکستانیوں کے حوالے سے 1921 محمد منیر ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان نے ’’روزنامہ پاکستان ٹائمز‘‘میں لکھا جسے 1979 میں اپنی کتاب ’’فرام جناح تو ضیاء ‘‘ دہرایا گیا کہ تشکیل پاکستان کے وقت کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ پاکستا ن ایک اسلامی مملکت ہوگی۔

لادینیت کا کوئی تصور پاکستان کی اساس نہیں تھا ورنہ مسلم لیگ میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کا تعلق قادیانی مذہب سے تھا ،جناح نے جب پاکستان کی
کابینہ تشکیل دی تو اس میں بھی غیر مسلم شامل تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پاکستان کسی خاص مذہبی تشریح کے مطابق بنایا گیا اگر ایسا ہوتا تو علماء دیوبند کا ایک حصہ پاکستان بننے کی مخالفت کیوں کرتا؟انہیں تو ایک مسلم حکومت کے لیے بھرپور ساتھ دینا چاہیے تھا ۔پاکستان مذہبی آزادی کے نام پر بنایا گیا تھا ،پاکستان کی بنیاد مذہبی آزادی،احترام انسانیت،بھائی چارے اور امن وامان پر رکھی گئی تھی ۔دو قومی نظریے کی اساس کو تسلیم کرنا ہوگا ،
دوقومی نظریہ سے مراد وہ نہیں جو طلبہ کو درسی کتابوں میں پڑھایا یا رٹایا جاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ امن و سلامتی کا تصور لیے دلوں کو مسخر کرنا ہے ۔

جو عناصر سمجھتے ہیں کہ بزور طاقت کسی فرقے کے خلاف شدت کا کا مظاہرہ کر کے وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنائیں گے تو ایسی سوچ خلاف اسلام ہے کیونکہ حضرت محمدﷺ نے اسلام بزور طاقت نہیں پھیلایا اور اصحاب رسول ﷺ اسلامی حکومتوں یا تما م فقہ کے اماموں نے کبھی کسی فرقہ کے قتل کو جائز نہیں قرار دیا تو پھر پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت اور حملوں کا واحد مقصد اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پاکستان کی بقا ء اور سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے ،خاکم بدہن پاکستان کی بنیاد کو کمزور کر کے بنگلہ دیش کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے ،پاکستان کے بانیان اور اکابرین نے کبھی بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کی ،ایک فلاحی اوررفاحی مملکت کا بہترین تصور اسلام کے سوا کون دے سکتا ہے اور دنیا میں لافانی اصولوں پر مشتمل نظام حیات قرآن کریم سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے؟محمد علی جناح نے کبھی بھی کسی فرقہ واریت کا پرچار نہیں، موجودہ پاکستان’’جناح کا پاکستان ‘‘تو نہیں،لیکن بچے کچھے پاکستان کو جناح کے تصورات کا پاکستان ضرور بنا سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے