عمر کوٹ سندھ کا ایک شہر ہے جس کا نام سنتے ہی محبت کی لوک داستان عمر ماروی کے کردار دماغ میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ ماروی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی ہے لیکن زمین اور بابل کی محبت میں عمر کے سامنے سر نہیں جھکاتی اور بہادری اور ہمت دکھاتے ہوئے تاریخ کے لازوال کرداروں میں امر ہو جاتی ہے ۔شاہ جو رسالو میں بھی اس کا ذکر ملتاہے۔
علی حیدر کا تعلق بھی عمر کوٹ کے ایک چھوٹے سے گاوٗں عمر الدین پنجابی سے ہے۔ علی حیدر ایک غریب کسان کا بیٹا ہے ۔ وہ کسان جو ایکسیڈنٹ میں اپنا بڑا بیٹا گنوا بیٹھا۔ دوسرا بیٹا تنگٗی حالات کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ کر فیکٹری میں کام پر لگ گیا۔ چھوٹا بیٹا علی حیدر اسی کسمپرسی میں پڑھتا رہا ۔ پہلی سے لے کر انٹر تک اپنے تعلیمی اداروں میں اول پوزیشن لیتا رہا۔ انٹر کے بعد بارہ ہزار روپے کمانے والے غریب کسان کے معاشی حالات اس بات کی اجا زت نہیں دیتے تھے کہ بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوا سکتا ۔ لیکن علی کی کارکردگی دیکھ کر سوچا کہ حالات جیسے بھی ہوں اس کو پڑھانا ہے ۔ کچھ قرض لے کر بیٹے کو یونیورسٹی بھیجا ۔ تیرہ افراد کی کفالت کے ساتھ یونیورسٹی کا خرچ اٹھانا آسان نہیں تھا۔ لیکن علی حیدر کو اس کا احساس تھا۔ بلاْخر اس نے پہلے ایم بی اے اور پھر ایم اے انگلش کیا ۔
2013 میں جب اس کی عمر اکیس سال تھی وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں اِن رول ہوا ۔ قریب چوبیس ہزار امیدواروں نے اس کے لئے اپلائی کیا لیکن اسکرینگ بوجوہ منسوخ کر دی گئی۔ 2014 میں اسکرینگ کا انعقاد ہوا جس میں تقریبا تین ہزار لوگ سیلیکٹ ہوئے ۔ اس کے بعد رُولز آف بزنس کے مطابق تحریری امتحان منعقد ہوا۔ جس میں علی حیدر سمیت 664 امیدواروں کا انتخاب کر کے انہیں انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔
کہانی تھوڑی دیر کے لئے روکتے ہیں ۔ اب یہاں وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں پر عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ یا تو کام سفارش سے ہو گا یا پیسوں سے۔ ایک غریب کسان کی رسائی وزیر یا بیوروکریٹ کو تو چھوڑیں۔ ان کے کسی چوکیدار تک بھی نہیں تھی۔ وہ کہاں سے سفارش کرواتا یا پیسہ لگاتا۔ اس سمیت پورے خاندان کی نظر اپنے اس سپوت کی سخت محنت پر تھی جس کی خاطر پورے خاندان نے سالوں تک اپنا پیٹ کاٹا تھا۔ علی حیدر کو بھی اس کا سخت احساس تھا۔ اس نے امتحان کی تیاری اور تحریری امتحان میں کامیابی کے بعد اپنی ساری توانائیاں انٹرویو کی تیاری پر لگا رکھی تھیں۔
اپریل 2016 سے لے کر اگست 2016 تک سخت ترین مرحلے کے بعد 227 امیدواروں کو سیکشن آفیسر ، اسسٹنٹ کمشنر اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسرز کے عہدوں کے لئے منتخب کیا گیا ۔اور ان کی لسٹ ملنے کے بعد سندھ جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ سروسز ڈیمارٹمنٹ نے ان کو اپائٹمنٹ لیٹر جاری کر دئے۔
علی حیدر کا خاندان بہت خوش تھا۔ ایک کسان اور اس کے خاندان کو اپنی ساری زندگی کی جدوجہد کا صلہ مل گیا تھا۔ بیٹے کی کامیابی کی نوید نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ یہ صرف علی حیدر کی نہیں بلکہ ان تمام 227 خاندانوں کی کہانی ہے جو اس امتحان میں سر خرو ہوئے۔ تحقیق کے مطابق یہ سارے ایسے امیدوار تھے ۔ جن کے پاس نہ تو کوئی سفارش تھی نہ ہی رشوت دینے کو پیسہ ۔ ان کے پاس محنت تھی ، لگن تھی اور اپنے خاندان کی دعائیں تھیں۔
لیکن یہ سب خوشیاں تب ماند پڑ گئیں جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے میڈیا میں خبریں آنے کے بعد چیئرمین اور کمیشن کے ممبران کے خلاف ازخود نوٹس کے تحت سماعت شروع کر دی۔ اس دوران کمیشن کے چئیرمین سمیت متعدد ممبران مستعفی ہو گئے ۔یا ان سے استعفی لے لئے گئے۔ اس کے بعد ان ممبران کے دور میں ہونے والی تقرریوں کو زیر بحث لایا گیا ۔ اور ان کے دور میں کی گئی تین ہزار تقرریوں کو چھوڑ کر معاملے کو صرف مقابلے کے اس امتحان تک محدود کیا گیا جس میں متوسط طبقے کے افراد کامیاب قرار پائے۔ اگرچہ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک بیوروکریٹ یا سیاسی شخصیت کی اولاد اس امتحان میں کامیاب ہو جائے تاہم فرض کرتے ہیں کہ ایسے امیدوار بھی انٹرویو میں شامل تھے جو اونچے طبقے سے تھے ۔
مذکورہ بھرتیوں کی شفافیت کا اندا زہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرویوز میں اس وقت کے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے پوتے ا امید علی شاہ ، کمیشن کے ڈپٹی کنٹرولر جمعہ خان چانڈیو کے بیٹے زین العابدین ، کمیشن کے ممبر محمد جونیجو کی بیٹی صالحہ جونیجو اور آسف علی ذرداری کے قریبی دوست ضلع نواب شاہ کے چئیرمین علی اکبر کے بیٹے اعجاز جمالی کو انٹرویو میں فیل قراد دیا گیا۔ یہاں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ چونکہ بڑے لوگوں کی اولادیں انٹرویو میں فیل ہو گئیں اسلئے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے اس سارے کیس سے لا تعلقی اختیار کئے رکھی۔
عجوب رحمان جو اس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے ، اور انہوں نے اس پوزیشن کے لئے دیگر اعلی نوکریوں کو خیر آباد کہ دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں بارہا یہ تزکرہ کیا کہ سندھ حکومت جو اس مقدمے میں مدعی تھی ،وہ مقدمے کے دوران خاطر خواہ ثبوت فراہم نہیں کر سکی۔227 امیدواروں کی بیشتر تفصیلات سے پتہ جلتا ہے کہ یہ امیدوار نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قومی اور بین اللقوامی ادراوں میں اس جاب سے پہلے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔(تفصیلات موجود ہیں) کئی امیدوار ایسے بھی ہیں جنہوں نے دیگر وفاقی مقابلے کے امتحانوں میں پاس ہونے کے با وجود اپنے صوبے میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے ان آفرز کو ٹھکرا دیا۔ لیکن شاید ان کا فیصلہ غلط تھا۔
13 مارچ 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے 227 کے کئے گئے فیصلوں پر پانی پھیر دیا ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ یہ اسکریننگ ، انٹرویوز اور امتحانات منسوخ کر کے نئے سرے سے امتحان لیا جائے۔ یہ سوموٹو سندھ پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین اور ممبران کی تقرری اور اہلیت کے خلاف تھا ۔ جو استعفی دے کر چلے گئے لیکن ان کی نااہلیت کا نزلہ ان 227 خاندانوں پر آ گرا ۔ جن کا مستقبل ان نوکریوں پر منحصر تھا۔
عجوب رحمان کہتے ہیں کہ کیا اس فیصلے نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا؟ کیا چیئر مین یا کمیشن ممبران کے نااہل میں ان امیدواروں کا کوئی قصور تھا؟ ان لوگوں کو اس کی کیا سزا ملی؟ کیا ان کے دور میں ہونے والی دیگر تین ہزار تقرریاں جائز تھیں؟ تقریبا چار سال گزرنے کے بعد جب کہ یہ امیدوار اپنی عمر کے اتنا عرصہ گزار چکے ہیں ۔ اور اپنی ساری توانائیاں صرف کر چکے ہیں اتنے ذہنی تناوٗ کے بعد اس قابل ہوں گے کہ دوبارہ ان سارے مراحل کو طے کر سکیں؟ کیا اس فیصلے نے سندھ کے جوانوں میں ایک احساس محرومی پیدا نہیں کیا جب کہ دیگر صوبوں میں ایسے معاملات پر اتنا سخت فیصلہ سننے میں نہیں آیا؟ لیکن ان کی فریاد کون سنے گا ؟
ہمارے میڈیا کے پاس وینا ملک کی خلع اور طلاق ککا مسئلہ حل کرنے کے لئے فری ائیر ٹائم دستیاب ہے ۔ لیکن ان 227 امیدواروں کی آواز کون اوپر تک پہنچائے گا ۔ یہ ایک سوال ہے ۔