صوبائی وزیر تعلیم کا فکر اقبال کے منافی بیان

*دنیا کا ہر باشعور انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ علم راز حیات ہے، قوموں کی ترقی و کائنات کی درخشندگی کا راز اور نہ ختم ہونے والا عظیم سرمایہ علم ہے- علم نور ہے جو انسان کے افکار اور خیالات کو منور کردیتا ہے، اسے جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا دیتا ہے، نفع اور نقصان کا میزان اور معیار دکھاتاہے، انفرادی اور معاشرتی طرز زندگی سے واقف کرادیتا ہے،حق و باطل، حلال و حرام میں تمیز کرنے کی قوت اور صلاحیت عطا کرتا ہے- علم انسان کو حقائق تک رسائی حاصل کرنے کو ممکن بنادیتا ہے، یہ درحقیقت انسان کو نہ صرف خودشناس بناتا ہے بلکہ خدا شناسی اور نصب العین کا شعور بھی فراہم کرتا ہے، علم انسان کی زینت و زیور ہے، یہ وہ منفرد دولت ہے جو ہرتلاش کرنے والےکو مل جاتا ہے ، اس کے حصول میں نہ مال و دولت کی قید ہے اور نہ ہی چھوٹے اور بڑے کی۔ اس دولت کے حصول کے لئے نہ عمر کی قید ہے اور نہ ہی زمان ومكان کی شرط-*

*ہمارے پیارے نبی حضرت محمد( ص) نے صریح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ” علم حاصل کرو گود سے گور تک” نیز یہ بھی فرمایا "علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لیے تمہیں چین جانا ہی کیوں نہ پڑے ” خالق اکبر، دین مبین اور پیغمبر گرامی اسلام نے تو بلاتفریق روئے زمین پر موجود ہر انسان پر تعلیم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے، مگر ہمارے حقائق سے نابلد حکمرانوں نے حکم قرآن وحكم اسلام کو پس پست ڈال دیا، انہوں نے پاکستان کے غریب طبقوں کے بچوں کے تعلیمی راہ میں کانٹے بچهائے، انہیں یہ باور کرایا گیا کہ تعلیم حاصل کرنا، ڈاکٹر بننا، انجینئر بننا، سائنس دان بننا اور محقق بنناصرف ثروتمند طبقوں کے بچوں کا حق ہے- اس غلط فکر کے اثرات سے پاکستان کے دیہی علاقوں کے بچے ذیادہ متاثر ہوئے، اس ناشائستہ سوچ کی بنا پر گلگت بلتستان کے بچوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر دور میں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش جاری رہی اور اس میں روزبروز شدت پیدا ہورہی ہے- اس ہدف میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہمارے مفاد پرست حکمران اور ان کے کاسہ لیس افراد مختلف مراحل سے گزرے، سب سے پہلے گلگت بلتستان میں حسب ضرورت تعلیمی مراکز قائم کرنے سے گریز کیا ،مثلا” جہاں پانچ اسکول کی ضرورت تھی وہاں دوسکول بنوائے‛ جہاں چار کالج درکار تھے وہاں دوکالج بنانے کی اجازت دی‛ جہاں کئی یونیورسٹیاں لازم تھیں وہاں یا بالکل یونیورسٹی بنانے کی اجازت نہیں دی یا صرف ایک یونیورسٹی بنانے کا اذن دے دیاگیا۔ جیسے قراقرم یونیورسٹی- اور اب بهی گلگت بلتستان کے بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں مڈل اسکول نہیں-*

*اس مرحلے میں ان کو خاصی کامیابی نہ مل سکی، کیونکہ گلگت بلتستان کے علم دوست والدین نے اپنی مختصر جمع پونجی خرچ کرکے اپنے بچوں کو دور دراز شہروں کے کالج، مدارس اوریونیورسٹیوں میں داخل کرائے- دوسرے مرحلے میں انہوں نے تعلیمی درسگاہوں میں قابل اور باصلاحیت اساتذہ کو بھرتی کرنے کے بجائے ناقابل افراد کو بطور اساتذہ بچوں پر مسلط کردیا، لائق وقابل اور ذہین جوانوں کو پوری منصوبہ بندی سے نظر انداز کردیاگیا، نالائقوں کو تعلیمی میدانوں میں جگہ دینے کے عوض ان سے رشوت لے کر کچهہ افراد راتوں رات امیر، ثروتمند اور گاڑی،کوٹھی کے مالک ضرور بنے، مگر گلگت بلتستان کے غریبوں کے بچوں کو ناقابل جبران خسارے سے دوچار ہونا پڑے- مزید برآں مختلف حیلوں اور بہانوں سے گلگت بلتستان کے بچوں کو عصر حاضر کی تعلیم سے دور رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاگیا۔ بعنوان مثال "نصاب تعلیم کو پوری سازش کے تحت سنگین بنایا، قومی زبان اردو میں رائج کتابوں کو مکمل طور پر انگلش میں تبدیل کرکے بچوں کو پڑھنے پر مجبور کردیا ،اس کا ہدف بچوں کو پریشان کرکے تعلیم سے دور رکھنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟*

*یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے مغربی افکار سے افراط کی حد متاثر ہونے والے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارا دور ترقی یافتہ دور ہے، ہمارا زمانہ روشن فکر وروشن خیالی کا زمانہ ہےلہذا جب تک ہمارے بچے انگلش میں ماسٹر نہیں ہوتے، فرفر انگلش نہیں بولتے‛ انگریزی زبان پر مکمل تسلط حاصل نہیں کرتے، تب تک ممکن نہیں وہ روشن فکر بن جائیں اور تعلیم یافتہ کہلائیں- اس منطق کی بنیاد پر وہ پورا زور بچوں کو انگریزی سیکھانے پر لگاتے ہیں، انہیں مختلف سنٹروں میں بھیجتے ہیں، طرح طرح کے کورسس کرواتے ہیں، قابل سے قابل اساتذہ کی تلاش میں رہتے ہیں،غرض ان کی پوری توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہمارے بچے بس انگریزی زبان پر عبور حاصل کریں ولو بلغ مابلغ- ایسے والدین کی خدمت میں عرض ہے کہ بےشک انگریزی زبان پر عبور حاصل ہونا عصر حاضر کی ضروریات میں سرفہرست ہے، اپنے بچوں کو اس زبان کی تعلیم دینا لازمی بھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روشن فکر ہونا اور تعلیم یافتہ ہونا صرف اسی پر منحصر ہو۔ ایسی سوچ رکھنا عین جہالت کی علامت ہے، اسے ثابت کرنے کے لئے ٹھوس عقلی ونقلی دلیلیں بلکہ اس حقیقت کو درک کرنے کے لیے صرف ان ممالک کی جانب توجہ سے دیکھنا کافی ہوگا کہ جن کی ترقی اور پیشرفت نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، لیکن انہوں نے انگریزی زبان پر اتنی توجہ کھبی نہیں دی جتنی ہم دے رہے ہیں- آپ ایران کی مثال لیجیے؛ جو آج پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب جلب کرنے میں کامیاب ہوا ہے، یہ ملک تمام شعبہ ہائے زندگی میں خصوصا علمی، سیاسی اور فکری میدانوں میں مسلسل ترقی اور پیشرفت کی طرف رواں دواں ہے، اس ملک میں نہ صرف روشن فکر اور روشن خیال افراد اور شخصیات پائے جاتے ہیں بلکہ وہ پوری دنیا کو اپنے علم، پاکیزہ فکر وخیالات سے روشن کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں- معلوم یہ ہوا کہ روشن فکر اور روشن خیال بننے کے لئے صرف انگریزی زبان سیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے بنیادی علوم کے حصول کے ساتهہ ساتهہ اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت حاصل کرنا بھی از بس ضروری ہے- ایران کی ترقی کا راز یہی ہے کہ اس ملک کے اعلی حکام، فوج، پولیس اور شعبہ تعلیم وتحقيق کے اعلی افسران سے لے کر چپڑاسی تک تعلیم یافتہ ہونے کے ساتهہ ساتهہ تربیت یافتہ بھی ہیں- یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں حکومت کا نظام اسلامی ہے اور حکومت اسلامی کے زیر سایہ عوام عزت اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں،امن و امان کے اعتبار سے ایران آج پوری دنیا کے لئے نمونہ ہے- مختصر مدت میں ایرانی قوم کی اتنی بڑی ترقی کے رازوں میں سے ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ یہ قوم مغرب کے افکار سے مرعوب ہوکر احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے وہ اپنی احساس برتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے افتخار سے پوری تعلیم اپنی زبان میں حاصل کرتے ہیں، وہ اپنی قومی زبان پر دوسری زبانوں کو ترجیح دینا اپنی ناکامی اور توہین کے مترادف سمجھتے ہیں-*

*انہوں نے پوری غیرت سے اپنی مادری زبان فارسی کو تقویت اور اہمیت دی اور دے رہے ہیں، مدارس، اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم اپنی زبان میں دی جاتی ہے- نصاب کی ساری کتابیں فارسی میں ہیں‛ یہ لوگ انگریزی ضرورت کی مقدار تک سیکھتے ضرور ہیں،مگر ہماری طرح پوری زندگی اسی ایک زبان کے سیکھنے،سمجھنے اور یاد کرنے میں پوری عمرضائع ہرگز نہیں کرتے- یہی وجہ ہے کہ دنیا میں چھپنے والی ہر اہم کتاب کا چار ہفتوں کے اندر فارسی زبان میں ترجمہ ہو کر وہاں کی بک سٹالوں تک آجاتی ہیں۔ ہمیں اس بات سے ہرگز غافل نہیں رہنا چاہیے کہ تربیت کے بغیر حاصل ہونے والا علم نہ صرف مفید نہیں ہوسکتی بلکہ مضر بھی ہے، اس لئے کہ تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد ایک بااخلاق اور مفید شخصیت کے مالک بن کر خدمت خلق انجام دینا ہے،حق وحقیقت کی جستجو کرنا ہے اور خودشناسی،جہاں شناسی اور خدا شناسی سے بھی اپنے آپ کو مزین کرنا ہے۔ یہ سب خوبیاں جس انسان میں یکجا ہوں اس میں حق وانصاف، رحم و کرم ، حمیت وہمدردی، صدق و صفا اورمحبت ومروت کی صفات خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں‛ اگر ایک تعلیم یافتہ انسان میں یہ قدریں نہ ہوں تو اس کی ڈگریاں بے کار ہیں۔* *ظاہر ہے تربیت کے بغیر ان قدروں کا حصول ممکن نہیں. بات ہورہی تھی گلگت بلتستان کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے مفاد پرست حکمرانوں کے مختلف حیلوں اور بہانوں کی-* *میری نظر میں یہ بہت اہم موضوع ہے‛ اس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے اخیرا”*
*وہ کتابوں کی مفت تقسیم کا سبز باغ دکھا کر بڑی مدت گلگت بلتستان کے بچوں کی تعلیم کے حصول کی راہ میں مانع بنے رہے‛ بچوں کے قیمتی اوقات ضائع کروادئیے*

*چند روز قبل گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر تعلیم جناب ابراہیم ثنائی نے شگر میں سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات میں کتابیں تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری حکومت تعلیمی صورتحال کی بہتری کے لئے مغربی طرز تعلیم کو جی بی میں لانے کے لئے اقدامات کررہے ہیں اس سلسلے میں برطانیہ کینیڈا،بیلجیئم اور کوریا کی وزیر تعلیم سے ملاقات کی ہے اور ان سے اس بارے میں خصوصی گفتگو کی ہے‛ اس کی یہ باتیں جب گلگت بلستان کے اخباروں کی سرخیوں میں جب میں نے دیکھا تو میرے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ کاش! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس موقعے پر صوبائی وزیر صاحب ایسی خوشخبری اپنے مخاطبین کو سناتے کہ ہم نے بچوں کی اچھی تربیت کے لئے مختلف اسلامی اسکالرز، محققین اور متخصصين سے رابطہ کیا ہے،*
*مگر مجال ہے وہ کوئی ایسی بات کرے اس لئے کہ انہیں عوام کے بچوں کی تعلیم و تربیت سے کوئی سروکار نہیں، انہوں نے صرف وہ باتیں اور کام کرنا ہے جس سے ان کے آقا راضی ہوجائے اور اپنی دکان خوب چمکے- مصور پاکستان، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ سے پوچھیں؟ وہ مغربی طرز تعلیم سے متنفر تھے، اقبالؒ کی نگاہ میں مغربی تعلیم نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہو وہ رہنمائی کیسےکر سکتا ہے?مغربی نظام تعلیم سرتاپا بے مقصد اور لغو ہے اور قوم کے لئے زہر ِ ہلاہل ہے اس سے نوجوانوں کی تما م تر صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں اور قوم اپنی راہ سے یکسر بھٹک جاتی ہے‛مغربی نظام تعلیم کو ردکرنے کے بعد اقبالؒ اپنی قوم کے نوجوانوں کے لئے ایک ایسے نظامِ تعلیم کے خواہاں ہیں جو ان کی خودی کو پروان چڑھا سکے‛ ان کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ تربیت خودی کے اس نظام کو اقبالؒ نے ”اسرار خودی“ اور ”رموزبےخودی“ میں اچھی طرح بیان کیا ہے۔*

*مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کومادیت کا اسیر اور شکم کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح اعلیٰ مقاصد سے وہ عاری ہو جاتے ہیں۔*

*وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں*
*جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو*

*مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گفتار اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے اور مغرب کے جھوٹے معیار، نظریات اور اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے‛ اس طرح وہ اپنی فطری حریت، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور مغرب کی اندھی تقلید کی کوشش میں خرابیوں کو اپنا کر خوبیوں کو ترک کر دیتے ہیں۔*

*اقبالؒ کی نظر میں مغربی نظام تعلیم سے فارغ التحصیل عورت اس فرض سے جان چرانے لگی ہے جونئی نسل کی تخلیق اور تعلیم و تربیت کی صورت میں قدرت نے اس کے سپرد کیا تھا‛ یہ گویا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔*

*جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے*

*نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت*

*اقبالؒ نے اکبر الہ آبادی کے مزاحیہ اسلوب شعر کی تقلید سے بھی استفادہ کیا۔ ایک جگہ کہتے ہیں:*

*لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی*

*ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ*

*یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین*

*پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ*

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے