‘پاکستان ہر قسم کے افغان امن عمل سے منسلک’

اسلام آباد: مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں امن کیلئے ہر اہم عمل کے ساتھ خود کو منسلک رکھنا چاہتا ہے اور خود سے کسی بھی خاص فیصلے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

یہ موقف اس بات کا خلاصہ ہے جو وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی جانب سے قومی اسمبلی کی خارجہ امور کی کمیٹی کو افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے بریفنگ کے موقع پر کہی گئی، یہ اجلاس بند کمرے میں ہوا تھا۔

دونوں ممالک کے تعلقات رواں سال فروری میں پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے حملوں اور ان کی ذمہ داری افغانستان پر ڈالنے جانے کے بعد کشیدہ ہوگئے تھے جنھیں اب معمول پر لانے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔

بریفنگ میں شریک کچھ شرکاء کا کہنا تھا کہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی کی کمیٹی کو بتایا کہ امریکا، چین، افغانستان اور پاکستان پر مشتمل چار فریقی تعاون گروپ (کیو سی جی) اب بھی موجود ہے اور اس کو فعال کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ سال پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے چیف ملا منصور اختر کی ہلاکت کے بعد کیو سی جی عملی طور پر غیر فعال ہے۔

افغان تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ کیو سی جی کا عمل غیر مؤثر نظر آتا ہے جیسا کہ اس میں شامل تمام ممالک اس عمل کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں لے رہے، تاہم کچھ عرصے سے مذکورہ گروپ ایک مرتبہ پھر فعال ہوا ہے تاہم وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں قاصر ہے۔

دوسری جانب اس دوران پاکستان نے خود کو روس کے تحت فیصلوں کے قریب تر کرلیا۔

ابتداء میں روس، چین اور پاکستان کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات نے پہلے 6 ممالک کو متوجہ کیا اور اب اس سے 12 ممالک منسلک ہوچکے ہیں۔

ابتدا میں امریکا اس عمل کا حصہ نہیں تھا لیکن اب اس نے 12 ممالک کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا ہے، یہ اجلاس 14 اپریل کو ماسکو میں ہونے جارہا ہے جبکہ پاکستان اس اجلاس میں شریک ہوگا۔

بریفنگ کے دوران سرتاج عزیز نے خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے کردار پر زور دیا جو وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔

سرتاج عزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ ‘پاکستان، افغان عوام کی مرضی کے مطابق افغانستان کے تحت امن عمل کیلئے کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہے’۔

انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کیلئے سیاسی طور پر مذاکرات کے ذریعے کوششوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرروت ہے۔

اس حوالے سے پاکستان تذبذب کا شکار ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے ایک امریکا کی جانب سے افغان پالیسی کو حتمی شکل دیا جانا بھی ہے۔

افغانستان کی شمولیت کے حوالے سے مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ان کی ملاقات کے دوران ہونے والے فیصلے شمولیت کے حوالے سے اس بات کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی اور بارڈر مینجمنٹ کے مسائل کو حل کیا جائے۔

لندن میں ہونے والی تفہیم کے مطابق دونوں ممالک متعدد سطحوں پر رابطے کیلئے فریم ورک تیار کریں گے جس میں فوج، انٹیلی جنس، سیکیورٹی اور سایست شامل ہے۔

مذکورہ تفہیم پر عملی طور پر پیش رفت دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی کے باعث متاثر ہوئی، لیکن اس حوالے سے اہم اقدام اس وقت سامنے آیا جب پاک فوج کے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل عامر ریاض اور افغان نیشنل آرمی کے 205 کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل داود شاہ وفادار نے ہاٹ لائن پر بات چیت کی۔

دوسری جانب قومی سلامتی کے مشیر ریٹائر لیفٹننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے افغان میڈیا کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے دونوں ممالک کو مل کر ہر سطح پر کام کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کیلئے مشترکہ فریم ورک ترتیب دینا ہوگا۔

بعد ازاں قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ نے افغان مشیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال سے ملاقات کے دوران اس بات کو دہرایا کہ دونوں ممالک نے لندن معاہدے میں ہر سطح پر رابطے اور شمولیت بڑھانے فیصلہ کیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے