ہمارے فیصلے بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا کی نظروں میں پاکستان کا جو خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اس سے قطعی طور مختلف ہے۔ایک خود مختار ملک کی سالمیت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں کے بسنے والے عوام کا ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنے والے افراد اور اداردوں پر مکمل اعتماد قائم رہے۔
ہماری عدلیہ سے اعلی کوئی محکمہ پاکستان میں ہے نہ ہی عدلیہ کے کسی فیصلے کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔
اگر کسی دوسرے پڑوسی ملک کی عدالت کسی بھی ملزم کو مجرم بنا کر اس پر فرد جرم عائد کرتی ہے تو اس پر ردعمل اس ملک میں بھی پایا جاتا ہے اور پڑوسی ملک میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔۔۔۔
گزشتہ سال پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے پکڑے جانے والا بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر ” مبارک پٹیل ” اصل نام "کلبھوشن یادو "جو بدنام زمانہ انڈین خفیہ ایجینسی راء کے لئے کام کرتا تھا سے پوچھ گچھ کی تو ایسے ایسے انکشافات سامنے آئے کہ عقل دھنگ رہ گئی۔۔۔
اس کی موجودگی میں جو دہشتگردانہ کارروائیاں پاکستان میں ہوئیں، جو جانی و مالی نقصان ہوا اس کا ازالہ کون کرئے گا؟؟
جن کے پیارے جان سے گئے، ان کے لئے دنیا کی کوئی دوسری چیز ان کا نعمل البدل کسی طور نہیں ہو سکتی۔۔۔
جب آرمی کی خصوصی عدالت نے ایسے فرد پر مقدمہ چلایا اور اس نے اس بات کو مان لیا جس کا اظہار ایک فوٹیج کے ذریعے گزشتہ برس سوشل میڈیا پر کیا۔۔ اس کو تمام قانونی سہولتیں بہم پہنچانے کے بعد جب عدالت نے اسے سزائے موت سنائی تو بھارت کی جانب سے اس کا بھیانک ردعمل سامنے آیا ہے۔۔۔۔
دوسری طرف انھوں نے ایک پاکستانی ریٹائرڈ کرنل کو نیپال سے اغوا کر لیا ہے۔ اور بظاہر یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ لگ رہا ہے جس کے تحت ہمارے آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر کو اغوا کیا گیا ہے۔ کہ اس کے بدلے مجرموں کا تبادلہ کیا جائے گا اور کلبھوشن یادو کو ایک راہ ملے گی۔۔۔ کرنل کی وجہ سے انڈیا میں دھماکے ہوئے نہ ہی کوئی جانی نقصان۔۔۔۔ تو ایسے شخص کو کسی دوسرے ملک سے اغوا کر کہ راء یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان نے بھی ایران سے کلبھوشن یادو کو پکڑا تھا !!!
کلبھوشن یادو جب سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہا، راء بھی اس دوران اس آڑ میں رہی کہ کسی نہ کسی پاکستانی سکیورٹی کے ہم منصب فرد کو اپنی تحویل میں لیا جائے اور پھر جونہی پاکستان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آئے گا وہ بھی اپنا "پتا” پھینک دیں گے۔۔۔۔!!!
اور وہ اس سکرپٹ پر کامیاب ہو گئی۔۔
ایک بات تو واضح ہے کہ چند دن ہی ہوئے تھے کرنل حبیب کو نیپال گئے ہوئے کہ وہ پراسرار طور پر غائب ہوگے۔۔۔۔!!!
آرمی کورٹ کے اس سزائے موت والے فیصلے کو جس کی آرمی چیف نے توثیق بھی کر دی تھی انہی کے پاس دوبارہ نظر ثانی کے لئے بھیجا جائے گا۔
اور بعد ازاں صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل کی جا سکے گی اور اس کے بعد بلیک وانٹ جاری ہوں گے اور اس پر عمل درآمد ہو گا۔ اب یہ صدر پاکستان پر منحصر ہو گا کہ وہ یہ سزا بحال رکھتے ہیں یا پھر اسے عمر قید میں تبدیل کر دیں گے۔۔۔۔!!!
ادھر دوسری طرف انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے والے انڈین شہری کلبھوشن یادو کو بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔
یہاں ایک بات میں اپنی عقل سمجھ کے مطابق کرتا چلوں کہ بھارت سرکار کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر وہ من گڑھت دہلی بم دھماکوں میں پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کرتا چلایا آ رہا ہے، تو دوسری طرف جب اسی کے ملک کے ایک سرکاری آفیسر کو پاکستان کی سکیورٹی کے ادارے رنگے ہاتھوں پکڑتے ہیں اور میڈیا ٹرائل میں وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے تو اب وہ کون سے عوامل باقی رہ گئے ہیں جن کی بنا پر سشما سوراج ہر حد تک جا سکتی ہیں؟؟؟
ظاہری بات ہے کہ بلوچستان میں ایک دہشت گردی کی لہر اٹھی تھی جہاں تھوڑا بہت افاقہ ضرور ہوا ہے۔” میرے خیال ” کے مطابق آرمی چیف کا فیصلہ برقرار رہے گا اور اگر صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل بھی کی جائے گی تو انھیں بھی سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنانا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کو کتنا جانی و مالی نقصان پہنچا ہے دہشتگردی کے حوالے سے۔۔۔۔؟؟؟
کیونکہ جب تک اس ٹھوس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو گا اس وقت تک کوئی بھی آکر اندھا دھند قتل و غارت کرتا پھرئے گا اور جب سزا و جزا کی باری آئے گی تو بین الاقوامی تناظر میں اور وسیع تر ملکی "مفاد” میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ یا پھر "وٹہ سٹا” کے تحت کوئی بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔
بہر حال ہمیں اپنے گھر کو دیکھنا ہے۔۔ اور سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور یہ ملکی وقار کی بات ہے تاکہ دنیا کو بھی معلوم ہو کہ پاکستان میں عدلیہ کو واقعی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اور بیرون ممالک پاکستانیوں کو بھی اپنے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد بحال ہو سکے۔