مشال کیس میں معاشرے اور علما کا کردار

ہر کسی کا مطالبہ ہے کہ حکومت توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھائے ۔۔ لیکن مردان یونیورسٹی یا سلمان تاثیر کے معاملے میں قانون کا استعمال کہاں ہوا ہے؟ یہ تو انفرادی یا اجتماعی طور پر لوگوں نے الزام لگا کر خود ہی فیصلہ صادر کیا ۔۔ قانونی راستہ اختیار کیا جاتا اور قانون مشال خان کو سنے بغیر فیصلہ سناتا تو پھر یہ کہنا درست تھا کہ قانون کا غلط استعمال ہوا ہے ۔۔ مشال قتل کیس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے توہین رسالت کا الزام لگا کر مشال کو قتل کروایا ہے تو قصور یونیورسٹی انتظامیہ کا ہے یا توہینِ رسالت کے قانون کا؟ لہٰذا شیریں مزاری سمیت ہر شخص کا یونیورسٹی انتظامیہ کے بیہیمانہ عمل کی آڑ میں توہین رسالت قانون میں ترمیم مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔

دوسرا مسلئہ توہین رسالت کے معاملے پر شرعی قوانین کی عدم تشریح ہے جس کے ذمہ دار علما اور مفتیان اکرام ہیں جن کی خاموشی معاشرے میں کنفیوژن پیدا کرتی ہیں اور لوگ مذہب کی محبت میں انتہائی اقدام اٹھانے کو ایمانی جذبے سے تعبیر کرتے ہیں ۔۔ اہل علم سے بات کی تو معلوم ہوا کہ کسی شخص کو اس وقت تک ”گستاخ رسول“ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو۔۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر مرتد ہونے کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔۔ مرتد ہونے کی حد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی، جن کا کردار بے داغ ہو، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے اور اس صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی .

جب تک ’گستاخِ رسول کی سزا، سر تن سے جدا‘ کے نعرے لگتے رہیں گے تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے ۔۔ اسی دوران کچھ موقع پرستوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ریاست کو مذہب کے بارے میں نئے بیانئے کی ضرورت ہے تو ایسے مداریوں کو اپنا ڈگڈگی بجانے سے روکنے کے لیے سب سے اہم کردار علما کا ہے جو مساجد اور درسگاہوں میں شریعت کے واحد اور حقیقی بیانیے کے مطابق احکامات واضع کریں ۔۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ناموس ہمارے ایمان کی آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ایسے حساس معاملات پر خاموش رہنے کے بجائے ریاستی سطح پر نئے بیانئے کے بجائے حقیقی بیانیے کے مطابق وضاحت ضروری ہے ۔

پہلے تو ایسے واقعات کا ذمہ دار مذہب اور مدارس کو قرار دیا جاتا تھا لیکن مشال قتل اور نورین اغواء معاملے میں انگریزی یونیورسٹی کے طلباٗ ملوث ہیں، مرنے والا بھی روشن خیال اور مارنے والے بھی، لیکن توپوں کا رخ مذہب کی طرف کیوں؟ اور انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کے بھی مرضی کے انسانی حقوق کے پرچار سے کشمیر پر خاموش رہنے والے اقوام متحدہ کی مردان یونیورسٹی واقعے پر تشویش کا موقع مل جاتا ہے ۔

مردان واقعہ ’کولیکٹو فیلیئر‘ ہے اور اسکی ذمہ داری افراد، معاشرے، انتظامیہ، طلباٗ، پولیس، حکومت اور علماٗ سمیت سب پر عائد ہوتی ہے ۔۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے تاکہ آئندہ کوئی ذاتی رنجش کو توہین رسالت نہ بنا لے ۔۔ لیکن اس ساری صورتحال میں افراد یا ہجوم کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے عمل کو جواز بنا کر بنیادی اسلامی قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی نہیں ہونی چاہیئے ۔۔ یہ سب اسی وقت ہی ممکن ہے جب ملک میں انصاف کا نظام قائم ہو، ہماری بنیادیں مضبوط ہوں تو کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر ریاست انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کرے تو مذہبی طبقے کے شکوے بھی دور ہونگے اور مشال خان کے قاتل بھی انجام کو پہنچیں گے ۔

ہمارا معاشرہ ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور کسی بھی معاشرے کو مہذب بنانے کے لیے ارتقائی عمل ہی بہترین ذریعہ ہے ۔۔ ایک طرف روشن خیال طبقہ ہمارے معاشرے کو آزاد خیال اور سیکولر معاشرہ بنانے کی کوشش میں ہیں اور دوسری جانب مذہبی طبقہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تکمیل کی کوشش میں مصروف ہے ۔۔ معاشرے میں برداشت ضروری ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب معاشرے میں انصاف ہوگا جو بحرحال ریاست کی ذمہ داری ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے