درخت کی شاخوں سے ٹنگے احساس

مجھے درختوں سے محبت ہے اورشاید درخت بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں چونکہ محبت یکطرفہ نہیں ہوتی۔مشینی دور آگیاہے ،کسی کے پاس درختوں کو دیکھنے کی فرصت اور وقت نہیں۔ بچپن کے ایّام میں جب میں ایک شوخ،چنچل اور شرارتی بچہ تھا توہمارے گھر کی دیوار کے ساتھ بھی ایک درخت تھا،گم سُم ،خاموش،گونگا اور بہرہ ۔ ۔میں اکثر اس درخت کو محبت سے دیکھتا تھا ۔ان دنوں میری بچگانہ محبت درخت کے لئے اذیّت کا باعث تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں موقع پاتے ہی اس کی کونپلوں کو مسلتا،اس کی ٹہنیوں کو مروڑتا اس کے پتوں کو نوچتا اور اس کی شاخوں کو توڑتا ۔۔۔
رفتہ رفتہ میں بڑا ہوتا گیا اور درخت بوڑھا،میں مصروف ہوتاگیا اور درخت تنہا،میں سکول جانے لگا اور درخت وہیں بھدّا ہونے لگا،میں ملکوں ملکوں پھرا لیکن درخت وہیں پر مرجھاتاگیا۔

اب میں اس کی کونپلوں کو مسلتا ،پتوں کو نوچتااور شاخوں کو توڑتا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اب اس پر نئی کونپلیں نہیں پھوٹتی تھیں،نئے پتّے نہیں اگتے تھے اور نئی شاخیں نہیں نکلتی تھیں۔

گویا اس گونگے اور بہرے درخت کے جذبات کا طوفان اس کے سینے میں ہی دب کررہ گیاتھا۔گرمی ہو یا سردی ،بہار ہو یا خزاں مجھے کئی کئی سال ہوجاتے تھے اس درخت کو دیکھے ہوئے۔

وہ گرمیوں کی دھوپ میں جلتا اورجاڑے کی سردی میں ٹھٹھرتا رہتا تھالیکن میں اس کے حال سے بے خبررہتا۔کبھی کبھار راہ چلتے ہوئے اگر اس پرسرسری سی نظر پڑ بھی جاتی تو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ اس کے بارے میں سوچوں۔

کہنے کو تو وہ ایک گونگا اور بہرہ درخت ہی تھا لیکن میری طرح کے ہزار ہاانسانوں سے بہتر تھا۔وہ گونگا تھا مگر خوددار،وہ بہرہ تھا مگر غیرت مند وہ خاموش تھا مگر غیّور۔

وہ اپنی خودداری،غیرت اور خاموشی کے عصا کےسہارے آخری دم تک کھڑا رہا،حالات سے لڑتارہا۔۔۔لڑتارہا۔

مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ میں اس “موجود “کی دلجوئی کی خاطر کبھی اپنی مصروفیات سے وقت نکالوں،اس کی سوکھی ہوئی شاخوں پر اپنی ایک مسکراہٹ ہی ڈال دوں یا کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر اس سے غیرت،خودداری اور برداشت کا درس ہی سیکھ لوں۔

شاید میرے کچھ دیر اس کے پاس بیٹھنے سے اسے میرا بچپن یاد آجاتا،اسے اپنائیت کا احساس ہوجاتا اور اس کے دکھ کچھ دیر کے لئے کم ہوجاتے۔

وہ ریت ،مٹی اور گارے کے ساتھ مشغول رہا اور میں کتابوں، کاغذوں اور کمپیوٹروں میں کھپتارہا۔وہ اپنے بوسیدہ جسم کے ساتھ سایہ دیتا رہا اور میں سر پر چھتری تان کر خاک چھانتا رہا، کچھ دن پہلے دیارِ غیر سے کسی نے ایک ویڈیوکلپ بھیجا۔میں نے غور سے دیکھا تو ایک درخت گراہواتھا جس پر پرندے نوحہ کررہے تھے،کلپ میں ریت ،مٹی اور گارے میں لتھڑاہوا ایک درخت تھا جو مجھ سے پہچانا نہیں گیا۔

میرے پوچھنے پر مجھے یہ پیغام ملا کہ یہ آپ کا فلاں مزدور ہمسایہ ہے۔جو بچپن سے گونگا اور بہرہ بھی تھا،مزدوری کرتا تھا،ساری عمر مزدوری کرتارہا اور بڑھاپے میں مزدوری کرتے کرتے مر گیا۔

مجھے ایک عرصے بعد وہ خود دار،خوش مزاج اور خوش اخلاق مزدور یاد آیا ،جس نے ساری زندگی اپنے بچوں کو رزقِ حلال کما کرکھلایاتھا،وہ ایک شجرِ سایہ دار تھا ،آج کٹ گیا تو مجھے خیال آیا کہ میں ساری زندگی اس کے کسی کام نہیں آسکا،میں نے کبھی گرمی و سردی میں اس کا حال نہیں پوچھا،بیماری و تنگدستی میں اس کی خبر نہیں لی۔

افسوس!آج وہ شجرِ سایہ دار، اپنے جفاکش ہاتھوں اورزحمت بھری زندگی کے ساتھ خالق حقیقی سے جاملاہے اور میں اپنے خالقِ حقیقی کے ہاں!سر جھکائے ،ایک پچھتاوے اور شرمندگی کے ہمراہ کھڑا ہوں اور اس وقت اپنی مصروفیات سے وقت نکال کراپنے معاشرے میں اپنے اردگرد لگے درختوں کو گِن رہاہوں اور دیکھ رہاہوں کہ یہ درخت کتنی تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔

یہ درخت جو ہم سے کچھ نہیں مانگتے،سالوں بعد ایک سلام اور مہینوں بعد ایک مسکراہٹ ہی ان کے لئے کافی ہوتی ہے۔

اپنے دل سے پوچھئے ہم سب کو درختوں سے محبت ہے اوردرخت بھی ہم سے محبت کرتے ہیں چونکہ محبت یکطرفہ نہیں ہوتی۔ مشینی دور آگیاہے ،کسی کے پاس درختوں کو دیکھنے کی فرصت اور وقت نہیں لیکن محبت کا تقاضا ہے کہ فرصت نکالی جائے۔

جی ہاں !کم از کم یوم مزدور کے روز ہی سہی، کچھ فرصت نکال کر کسی درخت کی ٹیک لگا کر اورکسی درخت کے سائے میں کچھ دیر بیٹھ کر، پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے