فرانس کا کرشماتی لیڈر

فرانس کے صدارتی انتخابات پر یورپی یونین اور امریکہ سمیت دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ یورپی یونین کے لئے تو یہ زندگی موت کا سا مسئلہ بن گیا۔ صدارتی انتخابات کے دوسرے راﺅنڈ میں دو امیدوار آمنے سامنے تھے، ان میں سے ایک(انتہائی رائیٹ ونگ کی لاپین) واضح طور پر یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں تھیں۔ لاپین کی جیت کا نتیجہ لامحالہ انگلینڈ کی طرح فرانس کا یورپی یونین سے الگ ہوجانا تھا۔ ایک طرح سے یہ یورپی یونین کے خاتمے کی طرف بڑھتا سفر ہوتا۔ انگلینڈ کے بعد یورپی یونین کی اصل قوت جرمنی اور فرانس کے گرد گھومتی ہے۔ اٹلی، یونان، سپین اور پرتگال وغیرہ کے داخلی معاشی مسائل کی وجہ سے یورپی یونین پر جو دباﺅ بڑھ رہا ہے، اسے فرانس اور جرمنی جیسے امیر ممالک مل کر ہی ہینڈل کر سکتے ہیں۔ امینیول میکرون(فرانسیسی تلفظ میکخواں )کی تاریخ ساز کامیابی نے یہ خدشہ سردست چند برسوں کے لئے ٹال دیا ہے۔

نو منتخب فرانسیسی صدر کی فتح میں صرف یورپی یونین کے لئے خوش ہونے کا ساماں ہی موجود نہیں، بلکہ کئی اور مثبت علامات بھی سامنے آئی ہیں۔ میکرون کی کامیابی سے تارکین وطن کے خلاف چلتی آندھی تھم گئی ۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے حامیوں کے جیتنے اور پھر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے یوں لگ رہا تھا جیسے مغرب میں تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی لابی زیادہ طاقتور ہورہی ہے اور اب ہر جگہ اینٹی امیگرنٹ سیاست دان ہی جیتیں گے۔اس جیت نے یہ تاثر دور کر دیا۔ تارکین وطن کمیونٹی کے ساتھ ساتھ اس کامیابی سے مسلمانوں کو بھی ریلیف ملا ہے۔ فرانس جہاں عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اورمسلمان خواتین پر حجاب لینے کے خلاف قوانین بن چکے ہیں…. وہاں میکرون جیسے معتدل اور ہر ایک کو مذہبی آزادی دینے کے حامی سیاستدان کا اقتدار میں آنا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔امینیوئل میکرون کا امیج ایک پرو تارکین وطن اور مسلمانوں کو مذہبی رسم رواج کی آزادی دینے والے شخص کا ہے۔میکرون کے خیال میں فرانس میں تارکین وطن کے آنے پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ اس حوالے سے وہ جرمن چانسلر انجیلا مرکیل کے ہم خیال ہیں۔ میکرون سمجھتے ہیں کہ فرانس میں امیگرنٹس اور مسلمانوں کے حوالے سے مزید برداشت اور تحمل پیدا ہونا چاہیے ۔ ان کے خیال میں فرانسیسی معاشرے میں اتنی جان اور گنجائش ہے کہ وہ باہر سے آنے والوں کو اپنے اندرسمولے۔ نومنتخب فرانسیسی صدر جو پیشے کے اعتبار سے انویسٹمنٹ بینکر رہے ہیں، ان کے خیال میں تارکین وطن کی آمد معاشی بہتری لائے گی۔

لاپین جیسی سخت گیر، مذہب بیزار ، خاص کر مسلمان دشمن فرانسیسی سیاستدان کو دیکھتے ہوئے میکرون جیسے معتدل فرانسیسی لیڈر غنیمت لگتے ہیں۔ میکرون نے اپنی سیاسی تحریک این مارش کے پہلے اجتماع میں فرانسیسی یونیورسٹیز میں مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت نہ دینے پر سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کمیونٹی کو اس کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی رسم ورواج پر آزادی سے عمل پیرا ہوسکے۔میکرون اس برداشت کو سیکولرازم کا جز سمجھتے ہیں۔ فرانس میں الجزائر کے حوالے سے ایک تاریخی تنازعہ موجود ہے۔ الجزائر فرانس کی کالونی تھا، جیسے برصغیر ایک زمانے میں برطانیہ کی کالونی رہا۔ فرق یہ ہے کہ فرانسیسی اشرافیہ وقت بدلنے کے ساتھ اپنا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ الجزائریوں کو آزادی کے لئے طویل جنگ اور بہت قربانیاں دینی پڑیں۔ فرانس نے پوری عسکری قوت اپنے قبضے کوبرقرار رکھنے کے لئے جھونک دی ، مگرالجزائر کو آزادی دینا پڑی۔فرانس میں آج بھی بہت سے لوگ الجزائر کو کالونی بنائے رکھنے کی کوشش کے حامی ہیں۔ نومنتخب فرانسیسی صدر کا نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ ان کے خیال میں الجزائر کو کالونی بنائے رکھنے کی فرانسیسی کوشش دراصل انسانیت کے خلاف ایک جرم تھا۔ میکرون اسے

اعلانیہ بربریت کہتے ہیں، ان کے خیال میں فرانسیسیوں کو ان لوگوں(الجزائریوں)سے ایسا ظلم کرنے پر معافی مانگنی چاہیے۔میکرون کے اس بیان کے بعد ان کی سیاسی مقبولیت میں کمی دیکھی گئی، اس کے باوجودا نہوںنے اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کرنے سے انکار کر دیا۔ میکرون شام کے حوالے سے بھی معتدل پالیسی کے حامی رہے ہیں، جس میں بشار الاسد حکومت سے مذاکرات کی آپشن بھی شامل ہے۔

میکرون کی نجی زندگی آج کل خبروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایک عجیب وغریب قسم کی لو سٹوری کے وہ مرکزی کردار ہےں۔ انہوںنے اپنے سے چوبیس پچیس سال بڑی خاتون سے شادی کررکھی ہے۔مغربی معاشرے میں ایسا ہوجاتا ہے ،مگرایسی بیل منڈھے کم ہی چڑھ پاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شادی دس برسوں سے انتہائی کامیاب جا رہی ہے۔ انتالیس سالہ میکرون جو نہایت پرکشش شخصیت کے حامل ہیں ،اخبارات انہیں فیشن ماڈل کے انداز میں پیش کرتے ہیں، ان کی اہلیہ بریثرٹ چونسٹھ سال کی ہیں۔ اگرچہ محترمہ خاصی فیشن ایبل ہیں، مگر بہرحال چونسٹھ سالہ خاتون کا چالیس سالہ وجیہہ مرد کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں۔میکرون بچپن ہی سے کتابی کیڑے اور موسیقی، شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے، اپنے تھیٹر سکول میں پندرہ سالہ میکرون کی ملاقات چالیس سالہ ٹیچر بریثرٹ سے ہوئی ۔ جلد دونوںایک دوسرے میں دلچسپی لینے لگے۔ میکرون کے والدین نے بیٹے کو پیرس سے دور بھیج دیا، مگر رابطہ ٹوٹا نہیں۔ گھنٹوں وہ اپنی سابق ٹیچر سے باتیں کرتے، لمبے لمبے خط لکھتے ۔ یہ جذبہ ماند نہ پڑا، حتیٰ کہ دس سال پہلے میکرون نے بریثرٹ سے شادی کر لی۔یہ قصے کہانیوں جیسی بات لگتی ہے۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق میکرون کی کامیابی میں ان کی اہلیہ کا بڑا اہم کردار ہے۔فرنچ میڈیا انہیں امریکہ کے مقبول صدر کینیڈی کے انداز میں دیکھ رہا ہے، جن کی اہلیہ جیکولین کینیڈی کو میڈیا اور عوام میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔

میکرون کے خیالات ایک اعتبار سے تو امریکی صدر ٹرمپ سے مختلف ہیں ۔ ٹرمپ تارکین وطن کے مخالف اور وہ ”سب سے پہلے امریکہ“ کے نظریہ کے علمبردار ہیں۔ٹرمپ کے مسلمانوں کے حوالے سے

شدید تحفظات ہیں جبکہ میکرون ان دونوں اعتبارسے ٹرمپ کے مخالف خیالات رکھتے ہیں۔ ایک بات البتہ دونوں میں مشترک ہے۔ ٹرمپ کو حکومت چلانے کا بالکل تجربہ نہیں تھا، وہ ووٹروں کو امید اور تبدیلی کا خواب دکھا کر کامیاب ہوئے ۔ میکرون وزیر کے طور پر تو کام کر چکے ہیں، مگر انہیں بھی ناتجربہ کار تصور کیا جاتا ہے۔فرانس کی تاریخ کے وہ کم عمر ترین صدر ہیں، صرف سال بھر پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میکرون یہ کرشمہ کر دکھائیں گے۔ آج مگر یہ زندہ حقیقت بن چکی ہے۔

میکرون کی فتح دراصل خواب دیکھنے والوں کی جیت ہے ۔ فرانس کا وہ طبقہ جو روایتی سیاستدانوں سے بیزاراور نفرت اور شدت پسندی پر مبنی قوم پرستی کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتاتھا ، میکرون میں انہیںاپنے خوابوںکی تعبیر نظر آئی۔ میکرون نے اپنے عزم،ہمت اور حوصلے سے نیا فرانس تعمیر کرنے کا جو منصوبہ پیش کیا، فرانس کے ووٹروں کی اکثریت نے اسے پزیرائی بخش دی۔اب زیادہ مشکل دور شروع ہوا ہے۔ خواب دکھا کر متاثر کرنا الگ بات جبکہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنازیادہ بڑی آزمائش ہے۔پہلا چیلنج تو اگلے ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہیں۔

میکرون فرانس میں کیا کچھ کر دکھاتا ہے، اس کے لئے کچھ عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔ اس فتح سے دنیا بھر میں تبدیلی کے علمبردار سیاستدان کیا انسپائریشن لیتے اور اپنے انداز میں کیا کرشمہ دکھاتے ہیں، یہ البتہ دلچسپی سے دیکھنا ہوگا۔ پاکستان میں بھی تبدیلی کی لہر موجود ہے، تبدیل کرنے کا خواب اوریہ نعرہ لگانے والا سیاستدان بھی ۔کیا وہ میکرون کی طرح کرشمہ دکھا پائے گا؟ اس سوال پر بات ہونی چاہیے۔

بشکریہ:روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے