جرمنی میں جو چیز سب سے حیران کن ہے، وہ یہاں مسلمان فرقوں میں اتفاق ہے۔ میں نے گزشتہ دس برسوں میں آج تک کسی مولوی کو کسی دوسرے مکتبہ ء فکر کے خلاف بولتے نہیں دیکھا، فتوی’ دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں مساجد دو ناموں سے مشہور ہیں ،
[pullquote] ترک مساجد اور عربی مساجد۔
[/pullquote]
پاکستانی لحاظ سے ترک لوگ بریلوی ، صوفی ازم اور دیوبندی فرقے کا مِکسچر ہیں لیکن عربی زیادہ تر سلفی ہیں۔ میں بون (جرمنی کا سابقہ دار الحکومت ) میں تھا تو اکثر عربی (سلفی) لڑکے ترک مسجد میں پروگرام کروایا کرتے تھے ۔ کبھی کبھار سلفی یا وہابی امام صاحب کو بلایا جاتا تھا اور وہ سُنی امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح شیعہ فرقے کے لوگ بھی کسی بھی مسجد میں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ آپ جس مسجد میں بھی جائیں وہاں آپ کو سنی، وہابی، اور شیعہ ایک ساتھ نماز پڑھتے نظر آئیں گے۔ ہاں البتہ پاکستان کی اب بھی کہیں مسجد بنتی ہے تو وہاں وہی لیبل، بریلویوں کی مسجد ، وہابیوں کی مسجد وغیرہ کا لیبل لگتا ہے۔۔ لیکن مجموعی طور پر یہاں آ کر پاکستانی بھی کسی بھی امام اور کسی بھی مسجد میں نماز ادا کر لیتے ہیں۔
ایک مرتبہ ترک مسجد میں ہم صرف تین لوگ تھے، ایک وہابی تھا، دوسرا شیعہ اور تیسرا دیوبندی، تینوں نے جماعت کے ساتھ نماز ادا کی اور ایسی صورتحال آپ کو آئے دن دیکھنے کو ملتی ہے۔۔ یہاں کے علماء بھی نوجوانوں کو ایک دوسرے کی مساجد میں جانے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور خود بھی اس پر کاربند ہیں۔ نتیجتا سبھی کے دل اور دروازے ایک دوسرے کے لیے کھلے ہیں۔
[pullquote]ہر مسجد میں خواتین کے لیے عبادت کی جگہ
[/pullquote]
ترک ہو یا عرب۔۔ جرمنی کی زیادہ تر مساجد میں خواتین کے لیے نماز ادا کرنے کی جگہ موجود ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کی خواتین ہوں یا گھریلو خواتین ، باقاعدگی سے نماز ادا کرنے مسجد میں آتی ہیں ۔رمضان اور جمعے کے دوران ان میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہاں کی زیادہ تر مسلمان خواتین سکارف لیتی ہیں یعنی ان کے ہاتھ اور چہرہ کھلے رہتے ہیں۔ چیدہ چیدہ خواتین نقاب بھی کرتی ہیں لیکن ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ مسلمان خواتین کافی متحرک ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑتا۔
پاکستان میں مولانا طارق جمیل عمران خان کے گھر افطاری کر لیں تو شور مچ جاتا ہے۔ ادھر تمام ممالک سے علماء آتے ہیں۔ خواتین سے براہ راست بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ خواتین کو کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو وہ براہ راست مسجد کے عالم سے بات کرتی ہیں، لیکن نہ تو آج تک کسی سعودی عرب ،نہ ترکی اور نہ ہی کبھی مصر کے کسی عالم پر کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
میں جب پاکستان سے جرمنی آیا تو سب سے زیادہ حیرانی مجھے اس بات پر ہوئی کہ ترک مساجد میں امام پینٹ کوٹ پلس ٹائی لگا کر نماز پڑھاتے ہیں کیونکہ یہ ان کا سرکاری لباس ہے۔
یہ نماز سے پہلے مسجد کی الماری میں رکھا ہوا عمامہ اور جُبّہ ضرور پہن لیتے ہیں۔ ترک آئمہ کی داڑھیاں پاکستانی اماموں کی نسبت بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ ترک آئمہ کے قریب داڑھی فرض نہیں ہے۔ تاہم ہر مسجد کا امام عالم ہوتا ہے اور قرآت کا ماہر بھی۔۔ میں نے جرمنی میں آج تک کوئی ایسا امام نہیں دیکھا، جو عالم نہ ہو اور اچھا قاری نہ ہو۔
جرمنی میں زیادہ تر مساجد ترکی کی جماعت اسلامی کی طرح کی جماعت ’مِلی گوریش‘ کی ہیں۔ اسی طرح دیانت تنظیم کی بھی مسجدیں ہیں۔ تمام اماموں کو تنخواہیں یہ تنظیمیں ادا کرتی ہے اور تمام ترک مساجد میں وہی خطبہ دیا جاتا ہے، جو باقاعدہ طور پر ترک حکومت یا مرکز سے منظور ہو کر آتا ہے۔ ان آئمہ کی ہر مسجد میں تعیناتی زیادہ سے زیادہ تین برس کے لیے ہوتی ہے، تاکہ امام اپنی اجارہ داری قائم نہ کر سکے اور عوام کو بھی دیگر علماء کی آراء سننے کا موقع مل سکے۔
جرمنی میں آنے والے زیادہ تر پاکستانی اسٹوڈنٹس افطار مسجد میں کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں افطاری کے ساتھ ساتھا کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ رمضان میں افطاری کے لیے مسلمان بمعہ اہل و عیال مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ جرمنی میں سے زیادہ مساجد ترکی کے مسلمانوں کی ہیں کیونکہ ان کی تعداد یہاں ایسی ہی ہے، جیسے برطانیہ میں پاکستانیوں کی ہے۔
جرمنی سب سے بڑی آفر ترک مساجد کی تراویح ہیں۔ ترک یا عربی مساجد میں قرآن مکمل سنانے کا رجحان نہیں ہے۔ تراویح کے دوران تیسویں پارے کی چند آیات پڑھی جاتی ہیں۔
اس کے برعکس عربی مساجد میں آٹھ تراویح ادا کی جاتی ہیں اور ہر رکعت میں دو سے تین منٹ کی تلاوت قرآن کی جاتی ہے ۔۔۔
جرمنی کی مجموعی آبادی تقریباﹰ اسّی ملین نفوس پر مشتمل ہےجن میں سے مسلمانوں کی تعداد 38 سے 43 لاکھ ہے ۔جرمنی کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی ایک چوتھائی تارکین وطن کا پس منظر رکھتے ہیں۔ جرمنی میں آ کر آباد ہونے والے زیادہ تر مسلمانوں کا تعلق ترکی سے ہے جبکہ دیگر کا تعلق جنوب مشرقی یورپ، شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا سے ہے۔
[pullquote]مذہبی وابستگی
[/pullquote]
جرمنی میں بسنے والے تین چوتھائی مسلمان سُنی ہیں۔ دنیا میں بسنے والے سب سے زیادہ مسلمان اسی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جرمنی میں سنیوں کے بعد دوسری بڑی تعداد علوی مسلمانوں کی ہے اور یہ مسلمانوں کی مجموعی آبادی کا تیرہ فیصد بنتے ہیں۔
جرمنی میں احمدیوں کی بھی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ پاکستان کے برعکس جرمنی میں احمدیوں کو بھی سُنی مسلمانوں کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔