میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔

ذرا سوچیں کہ آپ کی عمر کی 13 سال ہے اور آپ کو 30 سالہ، بیوی بچوں والے، بھروسہ مند خاندان کے ایک فرد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

تصور کریں کہ آپ کو یہ تک علم نہیں کہ آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے، اور چونکہ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید آپ کو اصل صورتحال کا پتہ ہی کچھ نہیں؛ آپ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ محض ایک ڈراؤنا خواب ہی تھا کیونکہ آپ نیند میں تھے اور اب اسے سچ ماننے لگے ہیں۔

آپ خود پر شبہ ظاہر کرنے لگتے ہیں، اور کیوں نہ ہو، آخر وہ شخص آپ سے کافی بڑا، اپنا ہی کزن ہے اور اسے بیرون ملک سے آئے ہوئے دو برس ہوئے ہیں اور تب سے آپ کی آپس میں دوستی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی بیواہ ماں گزشتہ 5 برسوں سے آپ اور آپ کے گھر والوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ لہٰذا تھوڑے ہی وقت میں آپ خود کو اس بات پر قائل کر لیتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک ڈراؤنے خواب کے سوائے اور کچھ بھی نہ تھا اور ایسا حقیقت میں ہونا ممکن ہی نہیں۔

آپ اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں تب تک جب تک آپ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ دوبارہ پیش نہیں آتا اور اس بار یہ واقعہ دن کی روشنی میں۔ اس کے بعد آپ کو پہلی بار محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض ڈراؤنا خواب ہی نہیں بلکہ ایک ڈراؤنی حقیقت ہے۔

آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے، آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ بات آپ کسی کو بتا بھی سکتے ہیں یا نہیں؛ آخر گھر کی بات جو ہے۔ کسی کو بتانے سے اس شخص کی ماں کی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور اس کی ماں کے ساتھ آپ کے والدین اور پورے خاندان سے ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کو یہ بات کسی دوسرے کو نہیں بتانی بلکہ خود کو دیگر سرگرمیوں میں مصروف رکھنا ہے اور زندگی کو معمول کے مطابق رواں دواں رکھنا ہے۔

اب آپ ہائی اسکول میں پڑھتے ہو اور آپ ان واقعات کی تلخ یادوں پر سبقت پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہائی اسکول کی تعلیم کا تسلسل جاری ہے اور اگلے سال آپ کالج میں پہنچ جائیں گے اور خوش قسمتی کے ساتھ آپ کو اپنی خواہش کے مطابق تعلیمی ادارے میں داخلہ مل جاتا ہے۔ آپ کو زندگی کو رواں دواں رکھتے ہیں، آپ کا اس کزن کے ساتھ نہ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی کوئی رابطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کئی گھریلو تقریبات میں ہوم ورک اور دیگر سرگرمیوں کے بہانے بنا کر شرکت نہیں کرتے لیکن پھر بھی ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب آپ کو اس شخص کا سامنا نہ چاہتے ہوئے کرنا پڑتا ہے اور خود کو ایسا محسوس کروانا ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا حالانکہ تب آپ کو اسے دیکھ کر ہی قے آ رہی ہوتی ہے۔

کالج کے دوسرے سیمسٹر کے دوران اچانک آپ زمین پر گر جاتے ہیں، فالج کا حملہ ہونے کی وجہ سے آپ ہل جل نہیں پاتے اور فوراً ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ کسی کو ذرا برابر بھی علم نہیں کہ آخر آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیوں ہوا ہے۔ کئی ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہ ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے اور کبھی کبھار جسم اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ لیکن اصل حقیقت صرف آپ ہی جانتے ہیں۔

بالآخر آپ اپنی ایک کزن کو اپنے راز کی بات بتا دیتے ہیں، بغیر یہ جانے کہ وہ کیا کہے گی یا سوچے گی۔ وہ آپ کو یہ بات اپنے والدین کو بتانے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے اور بالآخر آپ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس شخص کے گھروالے کئی سالوں سے آپ کے ساتھ قیام پذیر نہیں ہیں لہٰذا اب یہ بات بتانا خاصا آسان ہوگیا ہے۔ بات بتانے پر آپ کے والد اس شخص کو گولی مارنا چاہتے ہیں اور ہر کوئی آپ کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ آپ کے اندر ایک قسم کی آزادی کا احساس پیدا ہوتا ہے؛ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ کے سر پر موجود کسی بھاری بوجھ سے چھٹکارہ مل گیا ہو؛ اور اب صرف اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں جینا چاہتے ہیں۔ آپ کے گھر والوں نے آپ پر اعتماد کیا اور آپ کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، یہ جان کر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہی وہ سب کچھ جس کی آپ کو کب سے تمنا تھی۔

میں یہ کہانی آپ کو کیوں سنا رہی ہوں؟

میں آپ کو یہ کہانی اس لیے سنا رہی ہوں کیونکہ وقت آ گیا ہے کہ جب ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ پاکستان میں جنسی زیادتی، ریپ اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں پر بننے والے ڈراموں کے سلسلے سوائے کچرے کے ڈھیر کے اور کچھ نہیں ہیں۔

گل رعنا سے لیکر چپ رہو، سنگت، اور آج کل ٹی وی پر نشر ہونے والے مقابل تک، ان ڈراموں میں جس طرح جنسی زیادتی اور ریپ کو سنسنی خیز انداز میں دکھایا جا رہا ہے وہ دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

گل رعنا ڈرامے میں، ہیرو لڑکی کے شادی سے ‘انکار’ کرنے پر اسے اغوا کر لیتا ہے اور جبراً شادی کر لیتا ہے۔ آگے چل کر وہ اسے ازدواجی جنسی زیادتی کا شکار بناتا ہے اور ڈرامے کا آخر ہونے تک ایک ریپ کرنے والا اور بیوی پر تشدد کرنے والا ایک ہیرو کا کردار نبھاتا ہے۔

مقابل میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون زیادتی کرنے والے کے بیٹے سے صرف اس لیے شادی کرتی ہے تا کہ اسے کیے کی سزا ملے! واقعی کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ مجھے اور میری کہانی کو تو چھوڑیے، مگر ریپ یا بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی جن خواتین سے میری بات ہوئی ہے ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں چاہتی کہ زیادتی کرنے والے جس کمرے میں بیٹھا ہو وہ اس کمرے میں بھی بیٹھنا گوارا نہیں کرتیں، ایسے شخص کے بیٹے سے شادی کرنے یا اسی گھر میں رہنے کا وہ گمان بھی کیسے کریں گی۔

جی ہاں، وہ اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں اور یہ ثابت بھی کرنا چاہتی ہیں کہ وہ زیادتی کی شکار تو ہوئیں ہیں لیکن متاثر نہیں، یہی سب سے ضروری بات بھی ہے، مگر وہ ایسے شخص کے ساتھ ایک چھت کے نیچے کبھی بھی رہنا نہیں چاہیں گی، اس کے بیٹے کے ساتھ شادی تو دور کی بات ہے۔ ڈرامے کے لکھاری نے جنسی تشدد کا شکار ہونے والے ہر بچے کی تکالیف کا مذاق اڑایا ہے۔

آئیے اب سنگت کی بات کرتے ہیں۔ ڈرامہ سیریل سنگت، ریپ یا جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ہر شخص کے منہ پر ایک تھپڑ مارنے کے برابر ہے۔ آپ ایک ریپ کرنے والے کو قطعی طور پر ایک ہیرو نہیں بنا سکتے اور وہ بھی زیادتی کا شکار ہونے والے کی اپنی ماں کے ہاتھوں! کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اس بات کو سالوں تک اپنے اندر ہی محدود رکھنے سے کیسا محسوس ہوتا ہے، اگر میرے والدین نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ عندیہ بھی دیا کہ شاید میرے کزن سے ‘غلطی ہو گئی’ تو مجھے نہیں پتہ کہ اس پر میرا کیا رد عمل ہوتا۔

میرے ساتھ زیادتی کرنے والا جب ایک خوفناک حادثے میں مر گیا، تب میں نے اسے معاف کر دیا اور ایسا میں نے اپنے لیے بھی کیا، اپنی ہوش مندی اور ذہنی سکون کے لیے کیا۔ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہمارے لکھاری، پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکار جنسی استحصال کا شکار بننے والوں کو کون سا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنسی استحصال کا کوئی وجود نہیں یا اس میں کوئی خرابی نہیں اور اس سے پہنچنے والے صدمے میں کوئی حقیقت نہیں، جیسا ڈھونگ رچانا، کیا واقعی ریٹنگنز بڑھانے کا سبب بنتا ہے؟

جن ڈراموں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے راگ اور اڈاری ایسے ڈرامے ہیں جو کسی حد تک حقیقت کے قریب ہیں۔ اڈاری ڈرامہ جتنا خوب لکھا گیا تھا، اتنی ہی خوب اس کی ہدایت کاری کی گئی اور اتنی خوب احسن خان نے اپنے کردار بطور ’پا امتیاز’ کی اداکاری کی حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنے کرداروں کے حوالے سے ہلکی پھلکی مزاحیہ انداز میں میمز بھی شیئر کیں۔ انہوں نے رواں سال (درست طور پر) لکس اسٹائل ایوارڈز میں اڈاری کے کردار پر بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی حاصل کیا اور کسی بھی دوسرے اداکار کے مقابلے میں سب سے زیادہ اس مسئلے کو اجاگر کیا، مگر اس بنیاد پر ان کی غلطی کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ میں پھر بھی ان کی اتنی تعریف تو ضرور کروں گی کہ اڈاری ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ کم از کم مسئلے کو ابھارنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔

حالیہ عرصے میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل اڈاری میں بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے کو پوری حساسیت کے ساتھ اخذ کیا گیا۔
حالیہ عرصے میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل اڈاری میں بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے کو پوری حساسیت کے ساتھ اخذ کیا گیا۔
اڈاری اور ایوارڈ کی بات کرتے ہوئے مجھے ایک افسوس ناک لمحہ بھی یاد آ گیا کہ جب یاسر حسین نے ہم ایوارڈز کی تقریب میں بچوں کے جنسی استحصال کو مذاق کا نشانہ بنایا تھا۔ جس کے بعد احمد بٹ نے مذاق کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ، "میں تو ٹوفیاں بھی کھا لیتا۔” خواتین و حضرات دیکھا آپ نے ہمارے معاشرے میں مذاق کرنے کے لیے کیسے کیسے موضوعات کو چھیڑا جاتا ہے۔

ایسے مذاق کے بعد شاید ہی کسی اداکار یا اداکارہ یا کسی چینل کی طرف سے رد عمل دیکھنے کو ملا ہو۔ حتیٰ کہ حمزہ علی عباسی، جن کے پاس خواتین کے کپڑوں اور آئٹم نمبرز کے بارے میں کہنے کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، وہ بھی خاموش رہے۔ تقریب میں بعد ازاں نعمان اعجاز اسٹیج پر جلوہ گر ہوئے اور خواتین کا گھوڑیوں سے موازنہ کیا، اس پر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح سماجی حلقوں کی جانب سے کچھ نہیں بولا جاتا بلکہ بولنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا جاتا ہے۔

جنسی استحصال کی شکار اور ایک عورت ہونے کے ناتے میں سمجھتی ہوں کہ ایسے لوگوں اور ایسی انڈسٹری کا معیار انتہائی رسواکن اور ذلت آمیز ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ، لکھاری یا اداکار ہی صرف مسئلے کی جڑ نہیں ہیں۔ بلکہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور ٹی وی چینلز جو ایسے ڈراموں کا حصہ بنتے ہیں، وہ سب بھی اس مسئلے میں برابر کے شریک ہیں۔ وہ ریٹنگنز اور پیسے کی خاطر زیادتی کا شکار ہونے والوں کو ذلت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ریپ اور بچوں کا جنسی استحصال جیسے موضوعات اب ریٹنگز لانے کا ایک طریقہ بن گئے ہیں اور اس طرح ڈرامہ یوں بکتا ہے جیسے انڈیا میں شاہ رخ خان اشتہاروں میں کوئی چیز بیچتا ہے۔

آج کل ٹی وی پر سب سے گرما گرم چیز یہی ہے اور پیسوں کے لیے ہر کوئی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ حقیقت میں اس مسئلے اور اس کے حل کے بارے میں کون فکرمند ہے؟ ایک بار پھر بتاتی چلوں کہ، ماسوائے فرحت اشتیاق کے اڈاری اور فائزہ افتخار کے راگ کے، میں نے ایسا کوئی ڈرامہ سیریل نہیں دیکھا، جس نے مسئلے کی حساسیت کا خیال رکھتے ہوئے استحصال کا شکار ہونے والے کے بجائے استحصال کرنے والے کو غلط دکھا کر حل کرنے کی کوشش کی ہو۔ میرا سوال ہے کیوں؟ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جنسی استحصال کا شکار بننے والا عزت کا مستحق ہے؟ کیوں جنسی استحصال کرنے والا آپ کے شبے کا فائدہ اٹھاتا ہے اور جنسی استحصال کا شکار ہونے والے کو کرب سہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور جس تلخ تجربے سے گزرے ہیں اس پر انہیں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں اس بارے میں بات کرنا بھی ایک جائز نہیں مانا جاتا ہو، وہاں اب یہی موضوع کسی نئے ڈیزائنر پرس یا کالے چشموں کی طرح سنسنی خیز انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

خدارا پیسے اور ریٹنگز کے لیے ریپ کو بیچنا بند کریں۔

آپ ایسی بدتر روایت کی بنیاد رکھ چکے ہیں جسے ختم کرنا بہت کٹھن ہے۔ گل رعنا، سنگت، مقابل اور ایسے دیگر سیریل بنانے میں شامل ہر ایک شخص اور ہر وہ شخص، جس نے یاسر حسین پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں بلکہ یہ کہہ کر دفاع کیا کہ ’ان کا وہ مطلب نہیں تھا۔’ تمام کو شرم آنی چاہیے۔

اگر آپ اس موضوع کے ساتھ وفا نہیں کر سکتے تو آپ پھر ان پرانے ساس اور بہو کے اسکرپٹس کی طرف لوٹ جائیں؛ بس جنسی استحصال کا شکار ہونے والوں کا مذاق بنانا بند کر دیں، میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔

لکھاری کی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے نام نہیں دیا گیا

بشکریہ ڈان نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے