بھارتی شہری ڈاکٹر عظمیٰ کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت مل گئی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی شہری عظمیٰ کو وطن واپس جانے کی اجازت دے دی جبکہ یہ بھی کہا کہ اگر وہ اپنے شوہر طاہر علی سے بات نہیں کرنا چاہتی تو عدالت زبردستی نہیں کرے گی۔

بھارتی شہری عظمیٰ اور پاکستانی شہری طاہر علی کی شادی کے تنازع پر دائر درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عظمیٰ نے بھارت واپس جانے کی درخواست دائر کی تھی جبکہ طاہر علی نے اپنی درخواست میں عظمیٰ سے ملاقات کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

سماعت کے لیے بھارتی شہری عظمیٰ کو سخت سیکیورٹی میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچایا گیا جبکہ عظمیٰ کمرہ عدالت میں گر کر بے ہوش بھی ہوگئی تھی۔

عظمیٰ کے وکيل نے بتايا کہ شديد ذہنی دباؤ کے باعث عظمٰی کی حالت خراب ہوئی تھی، عدالت کی ڈسپنسری میں طبی معائنہ کیا گیا جس کے بعد بھارتی شہری عظمی عدالت سے واپس روانہ ہوئی۔

طاہر علی کی درخواست پر جب عدالت نے عظمیٰ سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنے شوہر سے ملاقات کرنا چاہتی ہے تو عظمیٰ نے کہا کہ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔

اس کے بعد عدالت نے کہا کہ اگر عظمیٰ ملاقات کرنا نہیں چاہتی تو کوئی زبردستی نہیں کرسکتا۔

عدالت نے عظمٰی کوآزادانہ بيان ريکارڈ کرانے کی ہدايت کرتے ہوئے کہا کہ يہ معاملہ بيوی اور شوہر کے درميان ہے اگر عظمیٰ شوہرسے بات کرنا چاہتی ہے تو کسی کواعتراض نہيں ہونا چاہيے۔

عدالت نے عظمٰی کی بيٹی کی ميڈيکل رپورٹ کومدنظررکھتے ہوئے بھارت جانے کی اجازت ديتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

عظمٰی کے وکيل نے ميڈيا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ عظمٰی شادی کوہی نہيں مانتی توملاقات کی بات تو ممکن نہیں۔

طاہر علی کے وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آڈر کیا ہے کہ عظمٰي بھارت جا سکتی ہے لیکن کہیں بھی نہیں کہا کہ یہ نکاح نامہ جعلی ہے،ہم کیس کو مزید آگے چلانا چاہتے ہیں۔

دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے عظمیٰ سے کہا کہ وہ کمرہ عدالت میں دھوپ کے چشمے نہ لگائیں اور انہیں اتار دیں۔

خیال رہے کہ بھارتی خاتون عظمیٰ نے 3 مئی کو بونیر کے رہائشی طاہر علی سے شادی کی اور پھر 5 مئی کو اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمیشن گئی جہاں اس نے پناہ لے لی تھی اور وطن واپس جانے کی درخواست کی تھی۔

عظمیٰ کا دعویٰ ہے کہ شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ طاہر علی پہلے سے شادی شدہ ہے جبکہ اس کے چار بچے بھی ہیں، اس کے علاوہ عظمیٰ نے گن پوائنٹ پر شادی، جسمانی، ذہنی، جنسی تشدد اور دستاویز چھینے جانے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔

تاہم طاہر نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ عظمیٰ کو شادی سے قبل ہی معلوم تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ بعد ازاں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ عظمیٰ خود بھی طلاق یافتہ ہے اور اس کی ایک بچی بھی ہے۔

19 مئی کو عظمیٰ نے طاہر علی سے شادی سے متعلق اپنا موقف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا تھا۔

چھ صفحات پر مشتمل جواب بیرسٹر شاہنواز کے ذریعے جمع کرایا گیا جبکہ بھارتی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری پیوش سنگھ جواب جمع کراتے وقت وہاں موجود تھے۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں طاہر علی کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے عظمیٰ کا کہنا تھا کہ نکاح نامے پر ان کے زبردستی دستخط کرائے گئے، جبکہ درخواست گزار طاہر کا حلف نامہ جھوٹ پر مبنی ہے۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عظمیٰ کے ویزے کی مدت 30 مئی کو ختم ہو رہی ہے، اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ اسے بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے