ہم آزاد تو نہیں ہوئے !

ابھی دفتر آتے ہی خبروں پر ایک نظر ڈالی تو یہ احساس ہوا کہ ہم تو اب تک آزادی کا محض دعوی کرتے آئے ہیں اصل میں تو ابھی تک ایک غلام کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ، خبر آپ کی نظروں سے بھی گذری ہوگی کہ بہاولپور میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے دونوں پائوں تیز دھار آلے سے کاٹ دئیے اور اس سنگین جرم کی وجہ محض یہ بتائی گئی کہ اس کی بیوی نے اپنی بیٹی کی شادی طے ہوجانے کے بعد اسے گھر سے باہر جانے دیا جبکہ والد ایسا نہیں چاہتا تھا کہ شادی کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد وہ کہیں باہر جائے ۔

خیر یہ واقعہ تو ایک طرف رہا آج کے دن کی ایک اور خبر یہ بھی رہی کہ شیخوپورہ میں ہسپتال میں جگہ نہ ہونے کے باعث گلی میں ہی نعش کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کر دیا گیا ۔

یہ کہانی آج کی نہیں یہ تو اب روز کا معمول بن چکا ہے کہ ہم صرف انسان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اصل میں رہتے درندے ہی ہیں کہ جیسے ایک بھیڑیے نے کسی بھیٹر کی کھال اوڑھ لی ہو اور وہ ظلم کرنے کے بعد آکر بھیڑوں کا بھیس بدل کر ریوڑ میں کہیں چھپ گیا ہو ہم بھی بالکل اسی طرح جرم کرنے کے بعد مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں ۔ بات ہو رہی تھی ہماری غلامی کی تو یہ غلامی تو اب تک بھی ہے اور نہ جانے کب تلک رہے گی ۔

چاہے یہ غلامی فرسودہ روایات کی ہے چاہے کسی کی خوشامد کرنے کی ، کیا رشوت کی کیا سفارش کی ؟ ہے تو غلامی کی ہی مختلف صورتیں ۔۔ایک ایسا معاشرہ جہاں پسند کی شادی جرم بن جائے ، جہاں سچ لکھنے پر گولی مار دی جاتی ہو، جہاں رشوت اور سفارش کے بنا جائز کام کروانا بھی دشوار ہو جائے تو وہاں کوئی کیا آزاد ہو گا ۔

آزادی کے تصور کے بارے میں ہمارے اندر ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پیدا ہو چکی ہے کہ ہم جسمانی طور پر ایک آزاد مملکت میں سانس لے رہے ہیں تو بس آزاد ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ، میرے مطابق آزادی سوچ ،، سمجھ اور فکر کی بھی آزادی ہے کہ ہماری سوچ اور عمل بھی ان فرسودہ روایات ، ظلم و استبداد سے آزاد ہو ، ہم نے جسمانی آزادی کی اہمیت کو تو جان لیا لیکن افسوس ایک ایسا معاشرہ نہیں بنا سکے جہاں ذہن و فکر کی بھی آزادی ہواور جہاں ڈکیٹر شپ اور غلامانہ سوچ موجود نہ ہو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے