اردو کے کالم نگار اوریا مقبول جان نے ایک اور کَلانچ بھری ہے اور اب کی بار انہوں نے کشمیر میں جاری مزاحمت کو ”خلافت” کے احیاء کی جد وجہد قرار دیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر میں داعش طرز کی تحریک برپا ہے ۔
یہ گمراہ کن طرز فکر ہے ۔ کشمیر اور کشمیریوں کی تاریخ اور مزاج سے عدم واقفیت کی دلیل ہے ۔ کشمیر میں جاری مزاحمت کا سب سے بڑا ایجنڈا آزادی ہے ۔ یہ خلافت وغیرہ والی بات ایک اجنبی راگنی ہے ، جومحض یہاں کے لوکل دائیں بازو کے قدرے متشدد لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کا حربہ ہے ۔
کشمیریوں کی مزاحمت کے رنگ میں تنوع مجھے تسلیم ہے ۔ وہاں ایک قابل ذکر طبقہ ایسا ہے جو مدد کے لیے پاکستان کی جانب دیکھتا ہے اوراپنے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔تاہم انہوں نے بھی ‘خلافت’ کے قیام کی بات کبھی نہیں کی البتہ آزادی ان کا نعرہ ہے ۔
کشمیر میں ایک اورقابل ذکر طبقہ صرف آزادی کی اور مکمل آزادی کی بات کرتا ہے ۔ مکمل آزادی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کی مداخلت ختم ہو جائے اور کشمیریوں کا اپنی دھرتی کا حق تسلیم کیا جائے ۔
پہلا گروہ مذہبی بنیادوں پر مزاحمت کی تائید کرتا ہے ۔ اس جنگ کو ”جہاد” قرار دیتا ہے۔ وہ لڑنے والے جنگووں کو ”مجاہد” کہنے میں سہولت محسوس کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اسے آزادی کی جنگ قرار دیتا ہے اور مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو فریڈم فائٹر قرار دیتا ہے ۔
کالم نگار موصوف نے جنوبی کشمیر کے علاقوں کو جنوبی افغانستان کے علاقوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنوبی کشمیر میں بقول ان کے ”اسلامی مجاہدین” کی مکمل عمل داری ہے ۔ یہ مفروضہ یا دعویٰ تو ہو سکتا ہے ، پڑتال کی گئی حقیقت نہیں ہے ۔
ہم نے نوے کی دہائی میں مذہبی جتھے کشمیر میں اتار کر جو تجربہ کیا ہے ، کشمیریوں کی نسلیں اس کے نتائج آج تک بھگت رہی ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ کراس بارڈر فائرنگ میں کشمیری مرتے رہے لیکن ہماری بھارت سے تجارت دَم بھر کے لیے نہیں رُکی ۔ اب تو گہرے تضادات کی حامل کشمیر پالیسی نے کئی طرح کے سوالات اور وسوسے پیدا کر دیے ہیں ۔
گزارش یہ ہے کہ کشمیریوں کو اپنی آزادی کی جنگ لڑنے دیں ۔ وہ جیسے بھی لڑیں ۔ ان کی مزاحمت میں سے ”خلافت” یا کوئی ”داعش” کشید کرنے کی ‘نیکی’ نہ ہی کریں تو بہتر ہے ۔ اس سے صرف کنفیوژن پھیلے گی ۔
دیکھیے بھارت کے انتہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کے حمایت یافتہ لوگ فوج کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں ۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ اور ہندوازم کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ اس طرح کی تحریریں اور کالم دراصل بھارت کے پروپیگنڈے کی توثیق ہیں ۔
کل بھارت اس طرح کی ”ولولہ انگیز” تحریروں کو اپنے موقف کے حق میں باآسانی استعمال کر سکتا ہے ۔ اس لیے لوگوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کے سنگین نتائج پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے ۔