’دہشت گرد مسلمان، ظالم کفار اور سازشی یہودی‘

اس کے دائیں اور بائیں بیٹھی دونوں لڑکیاں سگریٹ پی رہی تھیں۔ درمیان والے شخص کے سامنے بئیر کا ایک بڑا گلاس رکھا ہوا تھا۔ میں اپنے گھر کی عمارت سے باہر نکلا تو سبھی نے ایک دم آواز آہستہ کر لی۔ درمیان والے شخص کا صرف ایک فقرہ میرے کان میں پڑا کہ ’’یہ کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک آئیڈیالوجی ہے، مار دھاڑ کی آئیڈیالوجی ہے۔‘‘

یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ میرے گھر کے بالکل ساتھ ہی ایک شراب خانہ (پب) ہے اور اس کے دروازے کے سامنے کوئی نہ کوئی مجلس لگی رہتی ہے۔ میں ان کے ایک دم آہستہ بولنے سے سمجھ گیا کہ یہ اسلام کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے انہیں ہیلو بولا اور تروایح کے لیے چلا گیا۔

میں ہمیشہ وہاں سے گرزتا ہوں لیکن ان لوگوں سے ہیلو ہائے اور مسکراہٹوں کے تبادلے کے سوا کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ واپسی پر وہ مجلس ابھی تک وہاں جمی ہوئی تھی۔ میں نے ہیلو کہا اور مسکراتے ہوئے پوچھ لیا کہ مذہب اور آئیڈیالوجی والا موضوع ختم ہوا کہ ابھی تک چل رہا ہے۔ درمیان والے شخص نے کہا کہ مشکل موضوع ہے ابھی بھی چل رہا ہے۔

انہوں نے بیٹھنے کی پیش کش کی، جو میں نے فوری قبول کر لی، وہاں موجود ایک لڑکی نے کہا کہ کوئی بئیر شیئر چلے گی؟ میں نے کہا کہ نہیں میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی بہت زیادہ کھانا کھایا ہے۔ اس کے ساتھ بیھٹی لڑکی نے جلدی میں سگریٹ کا دھواں ہونٹوں کی ایک سائیڈ سے نکلاتے ہوئے فورا کہا کہ مجھے معلوم ہے مسلمانوں کا رمضان چل رہا ہے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا بالکل۔۔

وہ مسلمانوں سے اور اسلام سے اپنے خوف کے بارے میں باتیں کرتے جا رہے تھے۔ کبھی موضوع شام کے مہاجرین کو بنا لیتے، کبھی جرمنی اور یورپ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو اور کبھی یہ کہ یہ مسلمان ہمارے معاشرے اور ثقافت کو تباہ کر دیں گے۔

میں نے انہیں اپنے خوف سے آگاہ کرنا شروع کر دیا کہ کس طرح اب آتے جاتے مسلمانوں کو ہتک آمیز فقروں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کس طرح افغانستان اور عراق جنگوں کی وجہ سے پاکستان میں لوگ مغرب کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کی معلومات بہت زیادہ حد تک یکطرفہ تھیں اور یہی ان کے خوف کی شاید وجہ بھی تھی۔ رات گئے شراب خانہ بند ہونے تک ہماری گپ شپ جاری رہی اور جب جدا ہونے لگے تو سبھی مجھ سے گلے ملے، انہوں نےشکوہ کیا کہ میں نے کچھ پیا پلایا نہیں لیکن بار بار گلے مل کر شکریہ ادا کیا کہ میں ان کے پاس بیٹھا رہا اور یہ گفتگو ہوئی۔ ہم دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔

مجھے بار بار گلے ملنے والے یہ وہی لوگ تھے، جو ابھی دو گھنٹے پہلے تک مجھ سمیت باقی مسلمانوں کو داعش کا رکن سمجھ رہے تھے۔
ہم تقریبا دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ سبھی مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ لینا انتہائی نامناسب بات ہے، چیزیں بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہوتیں، اچھے ، بُرے، انتہا پسند انسان ہر جگہ، ہر ملک اور ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ مذہب کو ذاتی مقاصد،خودکش حملوں، جنگوں کے لیے استعمال کرنے والوں اور عام مسلمانوں میں فرق ہے۔ بالکل ایسے ہی فرق ہے، جیسے عام امریکیوں اور ان کی حکومت کی پالسییوں میں فرق ہے، بالکل ایسے ہی فرق ہے، جیسے بش نے جمہوریت کو عراق جنگ کے لیے استعمال کیا۔

اس کے بعد میں کافی دیرسوچتا رہا کہ کبھی میں بھی اسی طرح ہر مغربی شہری یا ہر یہودی کے بار میں سوچتا تھا، جیسا اب یہ ہم مسلمانوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اب جس اسلامو فوبیا یا جس صورتحال کا سامنا مسلمانوں کو ان دنوں یورپ یا مغربی ممالک میں ہے، بالکل ویسا ہی مغربی باشندوں اور یہودیوں کو پاکستان میں بھی ہے۔ وہاں بھی آپ گفتگو سنیں تو بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ سب مغربی، سب غیر مسلم ہمارے دشمن ہیں، وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں، ہماری ثقافت کو برباد کر دینا چاہتے ہیں، اسلام کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔

وہاں بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ امریکا کی پالیسیاں، جرمنی کی پالسیاں نہیں ہیں یا جو جرمن حکومت کی پالیسیاں ہیں، وہ ایک عام جرمن شہری کی پالیسیاں نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ جب عراق، افغانستان جنگ کا معاملہ تھا تو جرمن شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

اب مہاجرین آئے ہیں تو دائیں بازو کی شدید مخالف کے باوجود جرمن شہری ان کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے ہیں۔ چند ماہ پہلے پاکستانی مہاجر لڑکے میرے علاقے میں آئے تو جرمن انہیں باقاعدہ اپنی گاڑیوں پر مسجد لے کر آتے جاتے رہے تاکہ انہیں اپنی عبادات کرنے کا موقع مل سکے اور انہیں پتا ہو کہ اس علاقے میں کوئی مسجد بھی ہے۔ جرمنوں نے آن لائن انہیں مصلے خرید کر دیے تاکہ انہیں یہ نہ لگے کہ ان پر کسی چیز کی پابندی ہے۔

چند دن پہلے دو امریکی نوجوان اس وقت مارے گئے جب وہ ایک مسلمان لڑکی کو تنگ کرنے والے کے راستے میں رکاوٹ بن گئے، اب یہ مسلمان تو نہیں تھے، غیر مسلم ہی تھے۔
اسی طرح جب غزہ جنگ جاری تھی تو میری اسرائیل کی لابی کرنے والے ایک جرمن دوست فلوریان سے شدید بحث جاری تھی۔ ہم ٹرین میں بیٹھے تھے اور میں نے متعدد بار کہا کہ اسرائیلی ایسے ہی ہیں۔ ساتھ بیٹھا ایک شخص بولا کہ میں آپ کو جانتا تو نہیں ہوں لیکن سب اسرائیلی ایسے نہیں ہیں۔ میں خود ایک یہودی ہوں اور اسرائیلی حکومت کی کئی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی کرتا ہوں۔

ابھی چند روز پہلے ہی اسرائیل میں دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کے حق میں ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ اب یہ مسلمان تو نہیں تھے ، ظاہر ہے اسرائیلی ہی تھے۔ تو ایسے کہہ دینا کہ سبھی اسرائیلی یا یہودی ایک جیسے ہوتے ہیں، بہت نامناسب بات ہے۔

آپ اس رویے کو ذرا مائیکرو لیول پر دیکھیں تو کئی ایک لبرل کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سبھی داڑھی والے یا جو مولوی ہوتے ہیں وہ ایسے ویسے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ مولوی حضرات لبریلز کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ سبھی ایک جیسے اور دین مخالف اور پتا نہیں کیا کیا ہے۔
میرے خیال سے یہ نفرت کی دیواریں تب تک ہی ہیں، جب تک آپ کسی سے ملتے نہیں ہیں۔ جب ایک دوسرے کو جاننے یا ملنے کا موقع ملتا ہے تو آپ کے بہت سے خیالات مٹی کے ڈھیر ثابت ہوتے ہیں۔ اچھے برے، مذہب اور سیاست کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والے ہر جگہ ہوتے ہیں، ملکوں کی پالسیاں ظالمانہ ہو سکتی ہیں لیکن سیاسی یا ملکی پالیسیوں کی بنیاد پر کوئی ایک طبقہ، ایک اقلیت یا پھر ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہو جاتے، سبھی ’’کافر اسلام دشمن اور ظالم نہیں ہو جاتے، سبھی یہودی سازشی نہیں ہو جاتے بالکل اسی طرح نہیں ہوتے جیسے سبھی مسلمان داعش کے رکن نہیں ہوتے‘‘۔
جب ہم کسی پوری کی پوری قوم کو برا بھلا کہتے ہیں، انہیں بالکل ایسے برا لگتا ہے، جیسے اب یہ لوگ ہم مسلمانوں کو برا بھلا کہتے ہیں تو ہمیں برا بھلا لگتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے