ستم ظریفی کا موسم

بلاشبہ یہ ستم ظریفی کا موسم ہے ۔ فضا میں ہرطرف پختہ، لذیذ، شیریں، تلخ، اعلیٰ ، ہر نسل، قسم اور جسامت کی ستم ظریفی موجود ہے لیکن کوئی بھی غیر اہم نہیں،کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کوچہ ٔ سیاست پر ایک نظر ڈالئے، ہر طرف ان کی فراوانی دکھائی دیتی ہے۔عدلیہ کے ایوان ان سے لبریز،میڈیا کی اسکرین پر ان کی جلوہ گری، زبانوں سے ستم ظریفی کا بلاروک ٹوک ، بلکہ بلا کدو کاوش طولانی بہائو جاری ۔

تیز و تند ستم ظریفی کے پھریرے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔تو پہلے پاکستان مسلم لیگ کی بات کرلیتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے کی بات ہے ن لیگ کی تمام ٹیم نے پاناما کیس کا فیصلہ سن کر سکون کا گہرا سانس لیا تھا۔ پر سکون لہجے کی کھنک بحیرہ ہند کے اُس پار بھی سنی گئی ہوگی۔ اگرچہ منقسم بنچ کا فیصلہ یہ تھا کہ مزید تحقیقات کے لئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے لیکن ن لیگ کی ٹیم کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی ۔ پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے اکثریتی بنچ کی ستائش کی ، اُن کے فیصلے کی سند کے حوالے دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جسٹس گلزار اور جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹس دراصل اکثریتی بنچ کے شاندار انصاف سے انحراف کے مترادف ہیں۔پارٹی کے رہنما انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا تے ہوئے ’’آزادی ‘‘ کے احساس سے سرشار پائے گئے ۔ جب جے آئی ٹی کے لئے ناموں کو حتمی شکل دی جارہی تھی توبھی اُن کی فتح کا جشن جاری تھا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل میں درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ فیل نما مسئلہ تو تمام ہوا، اب صرف آخری رکاوٹ ہی باقی ہے ۔ اس کے بعد پاناما بھوت ہمیشہ کے لئے قبر میں دفن ہوجائے گا۔ یہ تب کی بات ہے ۔ آج کیا ہوا؟

اس ہمہ جہت رجائیت پسند ی کے برعکس آج ن لیگ کے دل میں خوف نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ جے آئی ٹی ، جسے ن لیگ کے راستے میں آخری ’’آسان رکاوٹ‘‘ قرار دیا جارہا تھا، اچانک حکمران خاندان کے لئے ایسی پیر ِ تسمہ پا بن گئی جس سے جان چھڑانا دشوار دکھائی دیتا ہے ۔ اب ن لیگ کا خیال ہے کہ اُسے جان بوجھ کر ایک طے شدہ انجام سے دوچار کیا جارہا ہے ۔ وہ جج صاحبان جن کے فیصلے کی تعریف کے لئے پی ایم ایل (ن) کے رہنمائوں کو الفاظ نہیں مل رہے تھے ، اب اُن میں ہزار خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ اب ن لیگ کو انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ جن تین جج صاحبان کے فیصلے کو عظیم انصاف کی سند عطاکی گئی ، اب اُنہیں جوڈیشل اخلاق کے تقاضوں کی یادہانی کرائی جارہی ہے ۔ اس ستم ظریفی کی مجسم حالت نہال ہاشمی کی صورت ہویدا ہے ۔ وہ ن لیگی ممبران میں اُن ججوں کی تعریف میں سب سے بلند آہنگ تھے جنہیں اُنھوں نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں دھمکیاں دی ہیں۔ اُس وقت وہ جج مجسم اچھائی تھے، آج تنقید کے سزاوار ۔ اُس وقت اُن کے فیصلے نے ن لیگ کو بچالیا تھا، آج وہ ’’گاڈ فادر مکتبہ فکر ‘‘ کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ اُس وقت جے آئی ٹی انصاف کی امین تھی، آج سازش کا گڑھ بن چکی ہے ۔

ستم ظریفی کے اس موسم کا اثر پی ٹی آئی پر بھی نمایاں ہے ۔ اس نے پہلے کہا تھا کہ یہ جے آئی ٹی انصاف کرنے سے قاصر ہوگی۔ چند ہفتے پہلے تک پی ٹی آئی کا یہ موقف سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے تھے ۔ پاناما بنچ کے فیصلے کو اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو عمران خان کونرمی سے سمجھانا پڑا کہ’’ہاتھ ہولا رکھیں‘‘، اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اختلافی نوٹ جوڈیشل فیصلے نہیں ہوتے ، اس لئے وہ اکثریتی فیصلے کا احترام کریں۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کے علاوہ جے آئی ٹی کے دیگر ممبران پر شک کا اظہار کیا گیا کہ وہ غیر جانبدار رہنے کا دکھاوا تو کرسکتے ہیں لیکن وہ حقیقی تحقیقات نہ کرپائیں گے کیونکہ نواز شریف نے ’’ہر محکمے کو خرید رکھا ہے ۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے اس لگے بندھے الزام کا کوئی محکمہ بھی برا نہیں مناتا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ معتوب اور متنازع قرار دی جانے والی یہی جے آئی ٹی اب پی ٹی آئی کے لئے امید کا چراغ بن چکی ہے ۔ اب یکا یک جے آئی ٹی کے ارکان محترم ہوگئے ہیں جن پر نوازشریف کی پارٹی نے ’’اچھا کام کرنے ‘‘ کی وجہ سے تنقیدشروع کردی ہے ۔ وہ تینوں جج صاحبان، جن پر جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ کا حوالہ دے کر طنز کیا گیا ،اب منصفانہ ٹرائل کو سپروائز کرنے والے بہترین صلاحیتوں کے حامل جج قرار پائے ہیں۔ پی ٹی آئی کا تمام سوشل میڈیا بنچ کے اُن ممبران کے دفاع کے لئے کمر بستہ ہے جنہوں نے جسٹس کھوسہ کا انداز فکر نہ اپناتے ہوئے ان کی پارٹی کو مایوس کیا تھا ۔

مہان ترین ستم ظریفی یہ ہے کہ اب عمران خان خود کو عدلیہ کا محافظ قراردیتے ہیں، حالانکہ اُن کی عدلیہ پر کی گئی تنقید ابھی عوامی یادداشت کا حصہ ہے ۔ عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر کھل کر الزام لگایا کہ اُنھوں نے گزشتہ انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہوئے انصاف کو فروخت کردیا تھا۔ صرف یہی نہیں، اُنھوںنے تمام الیکشن کمیشن پر ’’سیاسی وجوہ کی بنا ‘‘ مخصوص سمت جھکائو رکھنے کا بھی الزام لگایا۔ جب بھی عمران خان نے معزز جج صاحبان کے خلاف اپنے تنقید ی خیالات ارزاں کیے اُنھوں نے عقل اور خیال سے حددرجہ اجتناب ضروری سمجھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پہلے دھرنے کے دوران سپریم کورٹ کا بیرونی جنگلا لانڈری شاپ دکھائی دیتا تھاجس پر ہر قسم کے کپڑے دھو کر ڈالے گئے تھے ، جبکہ عمارت کے اوپرریاست کا پرچم لہرا رہا تھا۔ ہم میں سے جنہوں نے اس افسوس ناک منظر (بلکہ تمام دھرنے ) پر اعتراض کرنے کی جسارت کی، اُنہیں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کو ’’حقیقی عوامی عدالت ‘‘ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اگرچہ دھو کر ڈالے گئے وہ کپڑے زیادہ تر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے تھے (اور اُن میں علامہ قادری کے روحانی ارتفاع کی مہک بھی شامل تھی )لیکن ہم نے نہیں سنا کہ پی ٹی آئی نے اس پر کوئی اعتراض کیا ہو۔ فاضل جج صاحبان پوری استقامت دکھاتے ہوئے کسی نئے راستے سے سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی زحمت برداشت کرتے لیکن پی ٹی آئی کبھی اس پریشانی کو خاطر میں نہ لائی ۔ کسی رہنما کی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی ۔ ان کے لئے وہ سب کچھ اخلاقی طور پر درست اور روا تھا۔ یقینا کسی کو بھی اس تاریخ کو دہرانے میں دلچسپی نہیں ہوگی ۔ آج پی ٹی آئی کا بیانیہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی عظیم ہے ، اور تین رکنی بنچ عظیم ترین ہے۔ نیز وہ شریف حکومت کو ان دونوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ، وہ ان کا دفاع کریں گے ۔

جوڈیشل معاملات بھی ستم ظریفی سے تہی داماں نہیں۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جج حضرات سپریم کورٹ کے قانون اور وقار کو مقدم رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں ہر روز بتاتے ہیں(اور خیر اسی میں ہے کہ ہم ان پر یقین کرلیں)کہ وہ آئین کے بنیادی اصولوں کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔دوسری طرف ہماری آنکھوں نے یہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ عدلیہ کو یرغمال بنانے والے آمر، جنرل مشرف سے کوئی باز پرس نہ کی گئی۔ قانون کے لمبے ہاتھوں کی پہنچ ہر کسی تک ہے لیکن مشرف تک پہنچتے ہوئے وہ لرزہ براندام ہوگئے ۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں؟ اور جب نعیم بخاری جیسے افراد فاضل جج صاحبان کے سامنے انصاف کے ارفع اصول بیان کرتے ہیں تواس ستم ظریفی پر آسمان بھی شرما کر سرخ ہوجاتا ہے کیونکہ نعیم بخاری اُن چند ایک افراد میں شامل ہیں جو مشرف دور میں عدلیہ کے خلاف فعال دستے کا کردار ادا کررہے تھے ۔ کیا مسٹر بخاری نے کبھی عدلیہ سے معذرت کی ؟کیا عدالت نے اُنہیں توہین کا نوٹس بھجوایا ؟لیکن پھر صرف اُن کا ہی ذکر کیا ؟بہت سے جج صاحبان نے مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ کچھ کا تعلق نیب سے تھا اور کچھ کا اعلیٰ عدلیہ سے ۔ ان میں سے کچھ ابھی تک محترم مانے جاتے ہیں۔

اب میڈیا کی بات کرلیں۔ اس کا کچھ حصہ نہال ہاشمی کی جسارت پر غصے سے آگ بگولا ہورہا ہے ۔ بالکل درست، لیکن کیا ہم بھول گئے ہیں کہ کبھی اسی میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ نے استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کو یرغمال بنایا تھا؟کتنے ہی نیوز چینلز جو اب قانون کے محافظ دستوں کا کردار ادا کررہے ہیں، برضا ورغبت حاضر سروس ججوں، اُن کے حامیوں، اُن کے اہل ِ خانہ اور اُن کا ساتھ دینے والوں پر بدترین حملہ کرنے میں فعال بازو بن گئے۔ کیا کسی کو یاد ہے جب ججوں کو پولیس کی گاڑیوں میں زبردستی ڈالا گیا اور عدالتیں میدان ِ جنگ کا نقشہ پیش کررہی تھیں؟وکلا اور سول سوسائٹی مشرف آمریت کے سامنے سینہ سپر تھے ۔

اب ’’مافیا ‘‘ اور دیگر ناروا الفاظ سن کر انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ مافیا کے غنڈے کس طرح کام کرتے ہیں۔ وہ کارکنوں کے ذریعے احتجاج نہیں کراتے اور نہ ہی معذرت اُن کا شعار ہوتی ہے ۔ وہ قابل ِ احترام منصف کے سر کے ساتھ پستول رکھ کر اپنا فیصلہ لکھوالیتے ہیں۔ اور اُن کی بات ماننا پڑتی ہے ۔ گاڈ فادر کی طاقت ایسی ہی ہوتی ہے ۔ مافیاز ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ جب وہ ادارے جو سب کچھ یاد رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، زندگی کے ایسے حقائق کو بھول جائیں تو اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے