ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
- درس نظامی کے فاضل ہیں۔
- جامعہ کراچی سے سیرت النبی ص میں پی ایچ ڈی ہیں۔
- بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شعبے دعوہ اکیڈمی کے ریجنل دعوہ سینٹر(سندھ)کراچی کے انچارج ہیں
- ڈاکٹر سید عزیز الرحمن علمی و تحقیقی مجلے شش ماہی "السیرہ” اور ماہ نامہ "تعمیر افکار” کی مدیر ہیں
- سیرت کے مختلف عنوانات پر ملک بھر کے مدارس و جامعات میں سیکڑوں لیکچر دے چکے ہیں
- دس سے زائد بار سیرت ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔
- ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کی تحقیق کے مناہج،شخصیت سازی اور قائدانہ صلاحیتوں کی حوالے سے ورک شاپس بھی مقبول ہیں۔
- آپ کی 20 کی قریب کتب اور سیرت طیبہ پر پچاس کے لگ بھگ مقالات شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر سید عزیز الرحمان سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں .
شکریہ، آپ نے اپنے فورم پر مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا۔ میرے دادا معروف فقیہ اور صوفی بزرگ مولانا سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ تھے، جن کی کئی اہم کتب ہیں، خاص طور پر عمدۃ الفقہ اور عمدۃ السلوک وسیع حلقے میں معروف ہیں۔ آپ کا تعلق تو انڈیا کے علاقے کرنال سے تھا، مگر قیام پاکستان سے کافی پہلے آپ ملازمت کے سلسلے میں دہلی منتقل ہوگئے تھے، وہیں سے انہوں نے پاکستان ہجرت کی، پہلے بہاول پور کے قریب ایک گائوں خیرپور ٹامے والی میں رہائش پذیر ہوئے، پھر60 کی دہائی میں کراچی منتقل ہوگئے۔ اور1980ء میں ان کا انتقال ہوا۔ والد صاحب حافظ سید فضل الرحمن ہیں، جو اپنی تفسیر احسن البیان (آٹھ جلدیں) معجم القرآن، ہادی ٔ اعظم (تین جلدیں) اور فرہنگ سیرت وغیرہ کتب کی وجہ سے علمی حلقوں میں وقیع اور وسیع تعارف رکھتے ہیں۔ والد صاحب کی پیدائش انڈیا کی ہے اور آپ کی علمی زندگی کا تعلق کراچی منتقل ہونے کے بعد سے ہے۔
میرے نانا پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ تھے، استاد کی حیثیت سے معروف رہے، منصورہ، ہالا میں شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج قائم ہوا تو اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس کے نصاب و نظام کا بڑا حصہ آپ نے ہی تشکیل دیا ہوا ہے، 80کی دہائی کے بعد آپ تنظیم اساتذہ پاکستان کے شعبہ تعلیمی تحقیق کے ڈائریکٹر اور اس کے ترجمان افکار معلم کے مدیر رہے۔ مسلمانوں کے نظام و نصاب تعلیم پر آپ کی کتب نہایت اہم ہیں اور آج بھی دل چسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔
[pullquote]سوال: آپ اپنے تعلیمی کیریئر کے بارے میں بھی بتائیے۔[/pullquote]
جواب:مجھے کچھ زیادہ پڑھنے کا موقع تو نہیں ملا، ہاں مروج اسناد حاصل کرنے کا ضرور اللہ تعالیٰ نے پورا موقع عطا کیا۔ میری پیدائش 1977ء کراچی کی ہے۔86 میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل ہوئی۔ 95ء میں وفاق المدارس سے شہادت العالمیہ کی تکمیل کی۔ 1999ء میں ایم فل اور2005ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ اس دوران ایم اے مسلم تاریخ کرنے کا بھی موقع ملا۔ الحمدللہ۔ بس یہی مختصر سا تعلیمی سفر ہے۔
[pullquote]سوال:آپ عرصے سے لکھ رہے ہیں اور آپ کی تحریروں میں خاصا تنوع بھی ہے۔ یہ صلاحیت عام طور پر تو ہمارے مدارس کے فضلا میں کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ خاص طور پر آپ کی دل چسپی فن سیرت اور سیرت نگاری سے ہے، جو عام طور پر ہمارے ہاں نظر انداز شدہ فن ہے۔ یہ اثرات کیسے اور کہاں سے آئے؟[/pullquote]
جواب: دیکھیے جی! جہاں تک تنوع کی بات ہے تو یہ کوئی خاص نہیں ہاں قدرے سوچنے اور غور و فکر کی کوشش ضرور کی ہے، جو بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم کچھ سوچ سکیں اور کچھ سلیقے کی باتیں پیش کرسکیں، مگر جو کچھ ہے، اس کا کریڈٹ بزرگوں کو جاتا ہے، ہماری حیثیت کچھ بھی نہیں۔ مجھے ابتدا میں سے جن شخصیات سے ملنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔ استاذ محترم حضرت مولانا مفتی غلام قادر رحمہ اللہ، مہتمم جامعہ خیرپور العلوم خیرپور ٹامیوالی، اور مفتی اعظم ریاست بہاول پور، خازن وفاق المدارس وغیرہ کے اثرات بہت زیادہ محسوس کرتا ہوں ۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ علم الصرف کے چند اسباق اور تمرینوں کے ساتھ مکمل ہدایت النحو، کافیہ، شرح جامی، مرقات (منطق) قطبی، سلم العلوم، مبذی، مختصرالمعانی، حسامی، التوضیح و ال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرح عقائد اور چند اور کتب کے اسباق پڑھنے کا موقع ملا، جن میں سے کئی کتب آج نصاب میں موجود بھی نہیں۔ یہی ہماری تعلیمی زندگی کا حاصل تھا کہ اس کے نتیجے میں صرف یہ کتب نہیں پڑھیں، بلکہ اس دوران ان سے غیر رسمی طور پر سیکھنے کا بڑا موقع ملا اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔
دوسری شخصیت استاد محترم حضرت مولانا سلیم اللہ خاں رحمہ اللہ کی ہے، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور آپ جامعہ فاروقیہ کے بانی اور وفاق المدارس کے صدر کی حیثیت سے خوب معروف اور بلند شخصیت ہیں،ان کے علاوہ بہت سے بزرگوں سے نیاز مندی رہی، چند سے خوب بے تکلفی کا رشتہ رہا، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر جبلِ علم کا درجہ رکھتا ہے، ڈاکٹر مفتی محمد مظہر بقا، نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کورنگی، استاذ جامعہ کراچی و ام القریٰ، مکہ مکرمہ۔ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، صدر شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو، محقق اردو ادب خلیفہ مجاز حضرت دادا جان رحمہ اللہ۔ مولانا محمد اسماعیل آزاد، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی۔ کشفی صاحب کو لوگ ایک ادیب کے طور پر جانتے ہیں، مگر بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ وہ علی میاں رحمہ اللہ سے بیعت و ارشاد کا تعلق بھی رکھتے تھے۔ پروفیسر علی محسن صدیقی۔ آپ تاریخ، فارسی اور عربی کے ماہر استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ اور درس نظامی کے فاضل ہونے کے علاوہ تاریخ کے بے مثال استاذ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری قابل ذکر ہیں۔
ان شخصیات کے پاس ذرا دیر کو بیٹھنے والا شخص بھی اپنی تمام تر نالائقی کے باوجود کچھ نہ کچھ لے کر اٹھتا تھا، ان کی صحبت سے کسی قدر فیض ضرور حاصل ہوا، گو جو استفادہ ہوسکتا تھا، وہ اپنی لاابالی کے سبب بالکل نہ ہوسکا۔ اور یہ بات تا عمر افسوس کا باعث رہے گی۔
آپ کے سوال کا دوسرا حصہ بھی اہم ہے اور خاص دل چسپ بھی۔ میری ضابطے کی تعلیم کا زمانہ والد صاحب کی کتاب ہادی ٔ اعظم کی تسوید و ترتیب کا زمانہ ہے، میں نے اپنے تعلیمی سلسلے کے آغاز سے قبل ہی کتب سیرت کو اپنے چاروں جانب دیکھا۔ چوںکہ ہادی ٔ اعظم لکھتے ہوئے بار بار والد صاحب کو نئی نئی کتب کی ضرورت پیش آئی، اس لیے نئی نئی کتب کے ناموں سے واقفیت ہوتی، اور پھر والد صاحب وہ کتب حاصل کرنے کی کوشش کرتے، بعض میں فوری کام یابی بھی مل جاتی، یوں اردو عربی کی کتب سیرت میرے تعلیمی کیریئر میں اضافی طور پر مسلسل سامنے رہیں، مطالعے کی عادت بھی تھوڑی بہت موجود تھی، یوں کتب نظر سے گزرتی رہیں، کچھ باتیں ذہن میں محفوظ بھی ہوتی رہیں، مگر خاص طور پر نئی کتب کا اشتیاق بڑھتا رہا۔ اس عادت نے بعد میں مزید پختگی اختیار کرلی۔
درس نظامی کی تکمیل کے بعد حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خاں رحمہ اللہ کے مشورے سے والد صاحب نے کہا کہ پی ایچ ڈی کرو، ایک مدت تک تو پی ایچ ڈی کے داخلے میں دفتری دقتوں کے سبب تاخیر ہوتی رہی، پھر اچانک محترم و مکرم جناب ڈاکٹر عبدالشہید نعمانی کی تجویز اور تشویق پر (جو ہمارے پی ایچ ڈی کے مشرف بھی بنے) خطبات نبوی کا موضوع اس مقصد کے لیے منتخب ہوا، اس طرح سیرت طیبہ سے دل چسپی کے اسباب خود بہ خود پیدا ہوتے چلے گئے۔
[pullquote]سوال: السیرہ کا خیال کیسے آیا؟[/pullquote]
جواب:السیرہ کا خیال بھی ایک دل چسپ حکایت ہے۔ ایک روزوالد صاحب کہنے لگے کہ بہت سے موضوعات مضامین کے مزاج کے ہوتے ہیں، انہیں بھی لوگوں کے سامنے آنا چاہیے، اس موضوع پر بات ہوتی رہی اور اس موقع پر طے پاگیا کہ ایک مجلے کا اجرا کیا جائے جو سال میں ایک بار ربیع الاول کے موقع پر شائع ہوا کرے۔ والد صاحب نے کہا کہ اس پر اہل علم سے مشوروں کا آغاز کیا جائے۔ چناںچہ جنوری 1999ء سے کچھ قبل مشاورت کا آغاز کردیا گیا۔ جب اس پر مشوروں کا آغاز ہوا تو مزید تجاویز کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ اسے کم از کم شش ماہی بنیادوں پر شائع کیا جائے۔ اس طرح پہلا شمارہ جون 1999ء میں منظر عام پر آیا۔ اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ الحمدللہ اور 36 شمارے سامنے آچکے ہیں۔
[pullquote]سوال:یہ بتایئے کہ سیرت پر اس قدر لکھا گیا ہے۔ اب اس موضوع پر لکھنے کی مزید کس قدر گنجائش موجود ہے؟ اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]
جواب:بہت تفصیل طلب سوال ہے، مختصراً یہی کہوں گا کہ اس موضوع پر لکھنے کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ البتہ اس جانب ضرور اشارہ کروںگا کہ یہ سوال اس لٹریچر کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے، جو عربی اردو میں مسلسل سامنے آرہا ہے، وہ زیادہ تر تکرار پر مشتمل ہے۔ اسے دیکھ کر عام قاری یہ سمجھتا ہے کہ لکھنے والوں کے لئے اب مزید لکھنے کو کچھ نہیں رہا، یہ تاثر درست نہیں یہ تکرار اس وقت تک رہے گا، جب تک ایک وژن کے تحت سیرت طیبہ کے مطالعے کی روایت قائم نہیں کی جاتی اور لکھنے والے روایتی تساہل کو پس پشت ڈال کر محنت کو اپنا وظیفہ نہیں بناتے۔
[pullquote]سوال:تو گویا آپ موجود کام سے مطمئن نہیں؟[/pullquote]
جواب:اس میں اطمینان کے پہلوہیں، مگر کم ہیں۔ اس صدی میں اور گزشتہ ڈیڑھ دو سو برس میں سیرت طیبہ پر بہت کام ہوا ہے، نئی نئی جہات سامنے آئی ہیں، نئے مصادر سیرت دریافت ہوئے ہیں۔ مگر جوں جوں انسان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے، اسی رفتار سے سیرت پر نئے پہلوئوں سے تحریروں کا اضافہ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوسکا۔ کتب بہت ہیں، مواد کم ہے۔
[pullquote]سوال:اردو میں سیرت پر ہونے والے کام سے آپ مطمئن ہیں؟ اور اگر آپ سے کہا جائے کہ عربی سیرت نگاری اور اردو سیرت نگاری کا تقابل کریں، خصوصاً گزشتہ ڈیڑھ دو صدی کی خدمات کا تو آپ کیا کہیںگے؟[/pullquote]
جواب:میری بات شاید بعض حضرات کو عجیب معلوم ہو، گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں اردو میں سیرت نگاری نے جو ترقی کی ہے، اس کا عشر عشیر بھی اس دورانیے میں شائع ہونے والی عربی کتب میں نظر نہیں آتا۔ عربی سیرت نگاری میں اور باتوں کو چھوڑیے، ایک شخص بھی علامہ شبلی کے پائے کا دکھائی نہیں دیتا۔
[pullquote]سوال:لیکن علامہ شبلی پر تو ہمارے اردو سیرت نگاروں کو بھی بہت سے تحفظات ہیں۔[/pullquote]
جواب:جی ہیں، بعض تو ہمیں بھی ہیں، لیکن ایسا کوئی ایک شخص بتادیجیے، جس کی کتاب پر کسی کو کوئی اشکال نہ ہو، اور وہ سب کے ہاں از اول تا آخر قابل قبول ہو۔ جن سیرت نگاروں نے علامہ شبلی کے بعض بیانات پر گرفت کی ہے، اور واقعتاً ان کی گرفت اکثر مقام پر درست بھی ہے، خود ان کے ہاں بھی قابل گرفت باتیں موجود ہیں۔ یہ علم کا سفر ہے، یہ اس طرح آگے بڑھتا ہے، یہی اسلام کا مزاج ہے، یہاں کہنے والے سے زیادہ اس کی کہی ہوئی بات کی قدر ہوتی ہے اور یہاں دلیل بات قبول کی جاتی ہے، اور دلیل سے ہی رد کی جاتی ہے۔
[pullquote]سوال:بہتر، آپ عربی اور اردو سیرت نگاری کا موازنہ کررہے تھے۔[/pullquote]
جواب:جی اس ضمن میں ایک بات اور اہم ہے، وہ یہ کہ عربی میں جو بہت شائع ہورہی ہیں، وہ کم و بیش قلیل مدت میں اردو میں منتقل ہوجاتی ہیں، مگر اردو کی نگارشات سیرت عربی پر منتقل نہیں ہوپارہیں۔ یوں عرب دنیا اردو کی تحریروں اور اردو لکھنے والے سیرت نگاروں کے خیالات، تحقیقات اور استدلات سے واقف نہیں۔ مگر ہم جدید و قدیم عربی کتب سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔
[pullquote]سوال:اردو سیرت نگاری کے امتیاز کے اسباب آپ کی نظر میں علامہ شبلی کے علاوہ بھی ہیں؟[/pullquote]
جواب:جی بالکل، مگر علامہ شبلی کا حوالہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ محض سیرت نگار نہیں، وہ صرف ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے مؤلف نہیں، بلکہ وہ سیرت نگاری کے ایسے رجحانات ساز امام ہیں، جن کی پیروی بعد والے تبرک سمجھ کررہے ہیں۔ چناںچہ جنہوں نے علامہ شبلیؒ کو رد کرنا بھی اپنا مقصد ٹھہرایا، وہ بھی علامہ شبلی کے دیے ہوئے منہج سے انحراف نہیں کرسکتے، دیکھ لیجیے کہ اردو کی 90 فیصد کتب میں ان کے ہی دیے ہوئے عنوانات کی پیروی کی جارہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے ہی معاصر ہیں، مولانا سلیمان منصورپوری، رحمہ للعالمین ﷺ کے مولف، یہ ایک بہترین کتاب ہے، اور مطالعہ سیرت کی اردو میں دو اہم ترین کتابوں میں سے ایک۔ مگر عنوانات اور مباحث کی جو ترتیب علامہ شبلی رحمہ اللہ نے سیرت النبی ﷺ میں قائم کی، آج تک پیروی کم و بیش اسی کی ہورہی ہے۔ کیا یہ بات کسی اعزاز سے کم ہے؟
[pullquote]سوال:درست فرمایا، مگر آپ اردو سیرت نگاری کے امتیازات پر بات کررہے تھے؟[/pullquote]
جواب:میں یہ عرض کررہا تھا کہ علامہ شبلی اردو سیرت نگاری کا بہت بڑا اثاثہ ہیں، مگر شاید یہ پوری دنیا کی بدقسمتی اور پوری دنیائے اردو کی بے توفیقی ہے کہ سیرت النبی ﷺ کا معروف اور مروج عربی زبان میں تاحال کوئی وقیع ترجمہ سامنے نہیں آسکا، ایک ترجمہ ہوا ہے، مگر وہ بین الاقوامی معیار کا نہیں، اسی وجہ سے وہ دنیائے عرب میں متعارف نہیں ہورہا۔ خیر اردو سیرت نگاری کے امتیازات کی فہرست طویل ہے، مگر دو نکات سب سے زیادہ اہم معلوم ہوتے ہیں:
الف: اردو سیرت نگاروں میں سے محققین کے ہاں مصادر سیرت سے استفادے کا رجحان نہایت وقیع ہے۔ نیز وہ سیرت نگار روایتی مصادر کے ساتھ ساتھ غیر روایتی ماخذ و مصادر سے بھی استفادہ کرتے ہیں، یہ رجحان گزشتہ ساٹھ ستر برسوں میں مضبوط تر ہوا ہے، اور اس کے مظاہر اردو میں سب سے زیادہ نظر آتے ہیں، عربی میں بھی اس کی مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں، مگر وہ کافی کم ہوں گی۔
ب:موضوعاتی تنوع بھی اردو سیرت نگاری کو نمایاں کرتا ہے۔ سیرت طیبہ کے اطلاق پہلو میں اردو میں جو کام ہوا ہے وہ غیر معمولی بھی ہے، اور توجہ طلب بھی، اس پہلو کو پیش نظر رکھا جائے تو جدید عہد کے مسائل کے حوالے سے رہ نمائی بھی مل سکتی ہے۔
لیکن اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جدید عربی سیرت نگاری ہر نوع کے امتیاز سے خالی ہے۔ گزشتہ ساٹھ ستر برسوں میں خصوصیات سے بعض مصادر سیرت پر کام ہوا ہے، اور مصادر جو آج سے قبل ہمارے سامنے موجود نہیں تھے، وہ اب کسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس طرح جغرافیہ ٔ سیرت پر بھی کام ہوا ہے، نیز فقہ السیرہ پر بھی کئی ایک قابل مطالعہ کاوشیں سامنے آئی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بیان سیرت میں جدید عرب سیرت نگاروں نے درست اور صحیح سیرت نگاری کا تصور نمایاں کیا، جس کے پس منظر میں ان کے ذہن میں صحیح احادیث کی روشنی میں سیرت طیبہ پیش کرنا ہے، جب کہ اس کے برعکس علامہ شبلی نے روایت اور درایت دونوں سے استفادے کی جو تحریک قائم کی تھی، وہ اس وقت اردو سیرت نگاری میں خاص طور پر ایک توانا تحریک بن چکی ہے اور علامہ شبلی کے اس کام میں بعد میں آنے والے سیرت نگار مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔
[pullquote]سوال:ابھی آپ نے صحیح سیرت النبی کی روایت کا ذکر کیا، اس سے کیا مراد ہے؟[/pullquote]
جواب:اچھا سوال کیا آپ نے، میں اسی کی طرف آرہا تھا، سیرت کے ابتدائی ماخذ میں حدیث کا کوئی مجموعہ شامل نہیں ہے، اس لیے کہ سیرت کی ابتدائی کتب موجود کتب حدیث پر زمانی اعتبار سے مقدم ہیں، دوسرے احادیث کے مجموعے خاص طور پر متداول مجموعے سیرت سے ضمناً بحث کرتے ہیں، اصلاً نہیں۔ یہ نکتہ پیش نظر رہے گا تو بعد کے مباحث واضح ہوسکیںگے۔ علامہ شبلی نے بھی اس کا اظہار کیا، اور اسے ایک اصول کے طور پر اپنی کتاب میں برتنے کی کوشش کی، اگرچہ اس پر بھی بات ہوسکتی ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہے، لیکن یہ ان کا اسلوب تھا۔ پھر عالم عرب میں کئی شخصیات نے اس حوالے سے اپنی کتب پیش کیں، جن میں یہ کہا گیا کہ صحیح سیرت النبی ہے، اور اس کے تحت صرف صحیح احادیث کو درج کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو نکتے پیش نظر رہنے ضروری ہیں۔
الف: ایک تو یہ بات درست نہیں کہ سیرت کا لوازمہ کتب حدیث کی روشنی میں الگ ہوگا، اور کتب سیرت کی روشنی میں اسے دیکھا جائے تو الگ ہوگا۔ ایسی کئی کاوش الحمدللہ ہمارے سامنے ہیں، جن میں محققین نے صرف روایات حدیث کی بنیاد پر کتب سیرت مرتب کیں، مگر بنیادی بیانات سیرت میں دیگر کتب کے مقابلے ان کے ہاں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے کی غالباً سب سے تازہ اور سب سے اہم کاوش مولانا محمد ابراہیم ۔۔۔۔ کی کتاب حیات طیبہ ہے، جو مسند امام احمد بن حنبل کی روشنی میں اس طرح مرتب کی گئی ہے کہ کسی دوسری کتاب سے اس میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ اب اس کی فہرست مضامین ملاحظہ فرمائی جائے اور دیگر کتب سیرت سامنے رکھ لی جائیں تو ان کے مابین تفصیلات اور جزئیات کے فرق کے علاوہ بیان پرکوئی جوہری فرق نہیں ملے گا۔
ب: دوسری بات سیرت نگاری کے فنی مباحث سے تعلق رکھتی ہے، اور یہ بات اہم ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے پیچیدہ بھی ہے، کیا کتب حدیث کے مقابل تمام کتب سیرت اور ان کے بیانات کمزور ہیں؟ اور کیا اس بات کو اصول بنا کر اس کو علی الاطلاق بیان کیا جاسکتا ہے کہ سیرت نگاری میں ہمیشہ کتب حدیث کو ترجیحی ماخذ کا درجہ دیا جائے گا، اور دونوں کے مابین کسی بھی تعارض کی صورت میں حدیث کے بیان کو ہمیشہ ترجیح ہوگی؟ شاید کچھ لوگوں کا یہ خیال ہو، اور مقدمہ سیرت النبی ﷺسے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شبلی کا یہی خیال ہے، لیکن میں بہت ادب سے عرض کروںگا کہ یہ اصول درست معلوم نہیں ہوتا، اور خصوصاً عہد جدید کے سیرت نگاروں نے اس نکتے سے بحث بھی کی ہے اور ان مسائل کا بھی ذکر کیا ہے جو اس بات کو کلیہ قراردینے میں معارض ہیں۔ اس لیے صحیح سیرت نگاری کا اگر مفہوم یہ ہے کہ ایسے بیانات سے کتب سیرت کو پاک رکھا جائے جو کمزور درجے کے ہوں، تو اس میں کسی کو کوئی اشکال نہیں ہوسکتا۔ اور اگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ صرف وہ کتب صحیح سیرت قرارپائیںگی، جو کتب حدیث پر انحصار کریںگی، تو یہ بات درست نہیں۔ فنی طور پر کتبِ حدیث و سیرت کے مابین تعارض کے موقع پر بھی اکثر حالات میں سیرت نگاروں کے بیانات کو محدثین کے بیانات پر ترجیح حاصل ہوگی۔
[pullquote]سوال: اس تفصیل سے تو ایک اور نکتہ ابھرتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ سیرت نگار کے لیے کن کن پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے؟[/pullquote]
جواب:جی ہاں، دراصل یہ مباحث اصول سیرت نگاری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور افسوس یہ ہے کہ اس پہلو سے زیادہ کام نہیں ہوا۔ اور فنی طور پر جو سوالات تیزی سے سامنے آرہے ہیں، ان کی روشنی میں اصول سیرت نگاری پر کام کرنا اب زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس وقت موجود بزرگ محققین سیرت کی اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے علامہ شبلی کے مقدمے کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
[pullquote]سوال:جدید سیرت نگاروں میں ایسے افراد، جن کا کام غیر معمولی طور پر وقعت و مقام کا حامل ہو؟[/pullquote]
جواب:دیکھے کسی شخصیت کا خاص طور پر نام لینا ذرا ذمے داری والا کام ہوتا ہے، اسی لیے اب تک کی گفت گو میں ہم نے ناموں سے احتراز کیا ہے، مگر چند نام اس قدر بلند ہیں کہ عصر حاضر کے سیرت نگاروں کو ان کے حوالے کئے بغیر سمجھنا ممکن ہے نہ بیان کرنا۔ گزشتہ چالیس ، پچاس برسوں میں سب سے زیادہ متعارف شخصیت ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ کی ہے، ان کے کام کی کئی جہتیں ہیں، مگر خاص سیرت نگاری کے حوالے سے ان کی دو تین چیزیں نہایت قدر و منزلت اور معاصر سیرت لٹریچر میں امتیاز کی حامل ہیں، ایک تو ان کے خطبات بہاول پور، دوسری کتاب عربی میں الوثائق السیاسیہ۔ (جس کے آخری ایڈیشن کے اردو ترجمے کی سعادت ہمیں حاصل ہوئی) اور فرنچ میں سیرت النبی ﷺ پر دو جلدوں پر ان کی معرکۃ الآرا کتاب۔ اس کتاب کا پہلا حصہ انگریزی میں بھی منتقل ہوچکا ہے، جو ایک اور نام ور محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے قلم سے ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر غیر مسلموں کی ذہنی ساخت کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے، اور دعوتی مقصد کے لیے شاید بہترین کتاب ہے، جو محققانہ اسلوب کی بھی حامل ہے۔
دوسرا بڑا نام ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ہے، آپ کثیرالتصانیف بزرگ ہیں، اور آپ کی تقریباً تمام ہی کتب اور سیکڑوں مقالات محققانہ قدرو منزلت رکھتے ہیں، مگر غزوات نبوی کی اقتصادی جہات، مکی اسوئہ نبوی اور قریش ثقیف تعلقات نے خاص طور پر اہل علم کی بڑی تعداد کو ان کا گرویدہ بنادیا ہے، بلاشبہ اس وقت زندہ سیرت نگاروں میں ان کا کام وقعت کا حامل اور معیار کی ضمانت ہے۔ ان کے مزاج، اسلوب، انداز و منہج تحقیق اور اپروچ میں ہم ایسوں کے لیے سیکھنے کا بڑا سامان ہے۔
ایک اور شخصیت پروفیسر ظفر احمد کی ہے۔ سیرت میں ایک بڑی معرکۃ الآرا بحث توقیت کی ہے، کہ کون سا واقعہ کب پیش آیا؟ اس حوالے سے ان کی غیر معمولی تحقیقی، کاوش جو قسط وار ہمارے مجلے السیرہ میں شائع ہوئی، اس بحث کا خاتمہ کردیتی ہے۔
والد صاحب جناب حافظ سید فضل الرحمن نے بھی السیرہ کی ادارت کے ساتھ ساتھ نہایت وقیع تحریریں پیش کی ہیں، مگر خاص طور پر ان کی کتاب ہادی اعظم (تین جلدیں) نے بڑی شہرت پائی ہے، اور ناقدین سیرت نے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اور ان کی کتاب فرہنگ سیرت کو ایک اچھوتا خیال ہے، اور اسالیب سیرت میں ایک امتیازی اضافہ ہے، جس کے تحت انہوں نے سیرت طیبہ میں بیان ہونے والے مقامات، پہاڑ، چشمے، شخصیات، کتب وغیرہ سب کو لغت کی صورت میں مرتب کردیا ہے، اس کے دو ایڈیشن سامنے آچکے ہیں، اور اب تک سیرت لٹریچر میں اپنی نوعیت کی منفرد کتاب شمار ہوتی ہے۔