کراس کر یا برداشت کر- انعام یا بھیک

(میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں رمضان کی نشریات اور فنکاروں کی میزبانی پر ایک ٹی وی پیش کار کی حیشیت سے چند نکات بیان کئے تھے ۔ آج کی تحریر میں ان پروگراموں کے اشتہاری مقاصد کے حوالے سے بات کروں گا.)

ساحر لودھی گزشتہ دنوں بہت خبروں میں رہے ۔ مباحثے کے دوران ایک طالبہ کو روک کر قائداعظم کے حوالے سے حقائق کے منافی ایک جاہلانہ بھاشن نے پروگرام کے بعد ان کی ٹی وی ریٹنگ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ میرا خیال میں ان کی اس ’’حرکت‘‘ نے ایسے لوگوں کو بھی شو کی ریکارڈنگ دیکھنے پر مجبور کیا جنہوں نے ساحر کا نام پہلی دفعہ سنا ہو گا۔

لیکن یہ صرف ایک شو کی کہانی نہیں ہے۔ رمضان کے دوران رمضان نشریات کے نام پر ’’مادیت پرستی‘‘ کے جو سٹال لگائے جاتے ہیں ۔ ان میں روزانہ ہی کوئی نہ کوئی کہانی سننے کو ملتی ہے ۔ لسانیات اور میڈیا کے حوالے سے معروف شخصیت نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ’’جب آپ ٹیلی وژن آن کرتے ہیں۔ تو آپ ایک منٹ میں ہی جان لیتے ہیں۔ کہ advertising کا مقصد ایسے لاعلم صارف پیدا کرنا ہے جو غیر معقول چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں‘‘

رمضان میں چلنے والے یہ غیر معقول انعامی شو اس کی ایک بہت بڑی مثال ہیں ۔ اس کے دو پہلو ہیں ۔ جن سے ہمارے لوگ لاعلم ہیں ۔
ایک تو یہ کہ ٹیلی وژن کے ناظرین اور انعام لینے والے اس چینل اور میزبان کو مسیحا سمجھ رہے ہوتے ہیں جن کے زریعے انہیں انعام ملتا ہے ۔ لیکن لینے اور دینے والا دونوں ہی انعام کی تعریف سے لاعلم ہیں۔ اس کی تعریف وہی کمپنیاں جانتی ہیں ۔ جو اپنا سامان بیچنے کے لئے ایسے لاعلم صارف پیدا کر رہی ہیں جو ان کی بنائی گئی غیر معقول چیزوں کو اپنی ضرورت سمجھ کر خریدیں۔

یہ کمپنیاں ٹیلی وژن کے ذریعے ایک ذہن سازی کر رہی ہیں ۔ جس کا مقصد ایک طرف تو لوگوں کو شارٹ کٹ کے طریقے بتا کر ’’بھیک‘‘ کا عادی بنانا ہے ۔ اور دوسری طرف اپنی پروڈکٹ کی فروخت کے لئے صارف پیدا کرنا ہے ۔ میرے تجزیے کے مطابق کسی ’’ناظر‘‘ کے ذہن میں یہ سوال نہیں اٹھتا ۔ کہ
’’ ایک کمپنی جو روزانہ لاکھوں روپوں کے’’ انعامات‘‘ تقسیم کر رہی ہے ۔ اور پھر کروڑوں روپے اشتہارات پر خرچ کر رہے ہے۔ وہ پیسہ کہاں سے آتا ہے‘‘ ۔ بہرحال میرا آٹھ سالہ بیٹا مجھ سے کئی دفعہ یہ سوال پوچھ چکا ہے ۔

دوسرا یہ کہ ناظرین کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ٹیلی وژن پر ایک دفعہ چلنے والے اشتہار کی قیمت لاکھوں روپے ہوتی ہے ۔ اسی طرح ان اشیاٰ کو بیچنے کے لئے جن کا انتخاب کیا جاتا ہے ان کو بھی مال فروخت کرنے کے لئے لاکھوں روپے دئے جاتے ہیں ۔ یہ کمرشلزم کی ایک جدید قسم ہے ۔ جس میں ان فنکاروں کے ذریعے ’’Product‘‘ کو ’necessity ‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے ۔ اور اس بھیڑ چال میں تقریبا تمام چینل ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ ایسے ٹرینڈ بھی سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چینلز ’’انعام ‘‘ کے چکر میں ایک طرف معاشرتی برائیاں پھیلا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف عبادات پر بھی ’’برائے فروخت‘‘ کا بورڈ لگا رکھا ہے۔ لوگ اب بھیک میں جہیز اور عمرے کے ٹکٹ مانگتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ایک بینر پر یہ تحریر لکھی دیکھی تھی ۔ ’’ایک ہزار روپے میں پر قسم کی دعا کروائیں۔ دعا قبول ہونے کی گارنٹی ہے‘‘۔

رمضان کی یہ نشریات اس بینر کی عملی تفسیر ہیں۔ اس کلچر کو فروغ دینے میں صرف پروگرام کے میزبان ہی شامل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ تمام علماٗ بھی شامل ہیں جو ان پروگراموں میں شرکت کر کے نہ صرف ان کی رونق بڑھا رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کی شرکت ایسے پروگراموں پر مذہب کی مہر بھی ثبت کرتی ہے ۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے سنجیدہ طبقے سیاست کے علاوہ بھی اپنی تحریروں میں ان مسائل پر لکھیں اور میڈیا کے ذریعے ان پروگراموں کو متوازن بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم سیاسی و فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں پہلے ہی مقروض ہیں ۔ کہیں میڈیا کے یہ تجرباتی پروگرام ہمیں بھکاری نہ بنا دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے