ماڈرن عاشقوں کا رمضان

ہمارے ایک دوست ان دنوں شدید اداس ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ تراویح کے بعد جس محترمہ سے گھنٹہ گھنٹہ ”علمی گفتگو” کر کے دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتے ہیں، وہ عتکاف بیٹھنے جا رہی ہیں لیکن وہ پر امید اس وجہ سے ہیں کہ اس نازنین نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ دونوں کی شادی کے لیے دعا کریں گی اور قبولیت کی گھڑیاں بھی ہیں۔ میں نے تو اسے بھی مشورہ دیا ہے کہ تم بھی تہجد شروع کرو کیا پتہ کس کی دعا پہلے قبول ہو جائے؟

کوئی زمانہ تھا امی جی آ کر کہا کرتی تھیں بیٹا اٹھ جاؤ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ اور بندہ پھر بھی اذان سے عین دو منٹ پہلے اٹھتا تھا لیکن آج کل رات بھر ایس ایم ایس اور فیس بک پر چیٹ کرنے والے "فرزندان و دختران اسلام” خود امی جی کو اٹھا رہے ہوتے ہیں، امی جی اٹھ بھی جائیں سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ امی جی یہی سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا تہجد کے لیے مجھ سے پہلے ہی اٹھ گیا تھا۔ میری دختر نیک تو ساری رات پیپرز کی تیاری کرتی رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بیچاری روزہ بھی رکھ رہی ہے۔یقین کیجیے ہم آج تک سیاست میں مذہب کے استعمال کی بات کرتے آئے ہیں لیکن آج کل کے ”موبائل عاشقوں” میں مذہب کا استعمال سیاست سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔
لاہور میں میرے ایک دوست خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے لیکن پھر بھی سحری کے وقت اٹھ کر کسی ”تہجد گزار” لڑکی کو فون لازمی کیا کرتے تھے۔ اسے سحری کے لیے اٹھا کر خود پھر گھوڑے بیچ کر سو جایا کرتے تھے لیکن لڑکی کو یہی تاثر دیتے تھے کہ اب موصوف اشراق بڑھ کر ہی بستر استراحت پر جائیں گے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی کو سحری کے لیے اٹھانا بھی ثواب کا کام ہے۔ ساتھ دلیل یہ بھی ہوتی تھی کہ جہاں آپ دنیا بھر کی گپیں لگا سکتے ہیں وہاں آپ یہ نیک کام بھلا کیوں نہیں کر سکتے ؟
اگر آج کل کے ماڈرن عاشقوں نے ایک دوسرے کو سحری کے وقت اٹھانے کا بیڑا نہ اٹھایا ہوتا تو آج بھی ڈھول والے برسر روزگار ہوتے لیکن وہی بات کہ اب بھلا رمضان میں کس کا ایسی نیکیوں سے محروم رہنے کو دل کرتا ہے ؟

پہلے امتحان ہوتے تھے تو لڑکیاں یا لڑکے امی جی کو کہتے تھے کہ امی جی صبح بڑا مشکل پیپر ہے ، دعا کیجیے گا۔ اب ٹھک کر کے کسی ”سچے عاشق” کو کال آتی ہے کہ میری جان امجد کل میرا پیپر ہے، دعا ضرور کرنا۔ امجد جان بھی تھوڑی دیر کے لیے کیبل بند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ہے پینو۔ ویسے تو امجد مسجد جائے نہ جائے لیکن اس دن ضرور جائے گا۔ خود فیل ہو جائے گا لیکن شین میم کی کامیابی کے لیے ایکسٹرا نفل پڑھے گا۔ ویسے تو یہ بھی آزمودہ نسخہ ہے کہ لڑکا ماں باپ کا کہنا نہ مانتا ہو تو محلے کی کسی دوشیزہ سے کہلوا کر دیکھیں، انشااللہ لڑکا پہلی صف میں تکبیر اولی’ کے ساتھ نماز ادا کیا کرے گا۔

کچھ عرصہ پہلے میں شیخ ایس کے ساتھ نوشہرہ ورکاں سے گوجرانوالہ جا رہا تھا۔ بلا مبالغہ آرائی وہ بہت اچھے انسان اور مذہبی شخصیت بھی ہیں۔ ہم کافی دیر تک موبائل کے لڑکوں اور لڑکیوں پر غلط اثرات کے بارے میں بات کرتے رہے۔ وہ اگر ایک نقصان بیان کرتے تو میں ذاتی تجربات کی بنیاد پر دو بیان کرتا۔ پھر اچانک شرماتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ بھی ایک لڑکی سے گفتگو کرتے ہیں لیکن آج تک ان کے درمیان کوئی "غلط قسم کی بات” نہیں ہوئی۔ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں نے کہا تو پھر شیخ صاحب آپ کیا گفتگو فرماتے ہیں ؟ کہنے لگے کہ اس کی آواز بہت پیاری ہے، میں صرف اس سے نعتیں سنتا ہوں۔کچھ دیر بعد میری ضد پر وہ مجھے بھی نعت سنوانے پر تیار ہو گئے لیکن دوسری طرف سے میسیج آیا کہ وہ اس وقت مصلے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ شیخ ایس سنجیدہ ہو کر بولے یار وہ واقعی بہت نیک ہے۔ میں نے بھی سنجیدہ ہو کر کہا کہ ہاں لگتا یہی ہے، ورنہ جن کو میں جانتا ہوں انہوں نے تو آج تک نعت کا نام تک نہیں لیا۔
مجھے اس وقت ایک لطیفہ یاد آیا لیکن میں شیخ صاحب کی کار میں بیٹھا تھا اور ویسے بھی کسی "مومن کی دل شکنی” نہیں کرنی چاہیے لہذا میں خاموش ہی رہا۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ایک شین میم کسی لفنٹر اور باوفا لڑکے کے ساتھ اپنے گھر سے بھاگ جاتی ہیں۔ ان کی امی رو رو کے بین کر رہی ہوتی ہیں، ”میری بیٹی تو ولی اللہ تھی، ولی اللہ، اس نے تو ایک ہفتہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اماں ۔۔۔ ہمارے گھر سے کوئی نہ کوئی ایک بندہ کم ہونے والا ہے۔”

نعت سے یاد آیا کہ آج کل ماڈل نعت خوانوں کی بھی بہت مانگ ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو کسی نوجوان اور خوش الہان نعت خوان سے پوچھ کر دیکھ لے۔ بہت سی ”نیک روحیں” رات کو دو بجے اٹھ کر ان سے کہتی ہیں کہ آپ کی آواز میں نعت سننے کا بڑا دل کر رہا تھا۔ ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست ایف ایم ریڈیو پر پروگرام کرتے ہیں اور ایک ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن بھی۔ اچھے نعت خواں بھی ہیں لیکن معیاری وقت کے مطابق رات بارہ بجے کے بعد اکثر وہ ”دین کی متلاشی روحوں کی فرمائش پر مولانا رفیع” کے گانے سناتے پائے جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جب ان کی یہ ڈیمانڈ ہے تو ڈاکٹر عامر لیاقت کس مرتبے پر فائز ہوں گے ؟ مومنوں لگاو تکے۔
ہمارے محلے کی مسجد کا کوئی مستقل امام نہیں ہے۔ لہذا مرکزی مسجد سے کوئی نہ کوئی حافظ صاحب چھ ماہ یا سال کے لیے وہاں تعینات ہوتے رہتے ہیں۔ تقریبا چار سال پہلے وہاں ایک حافظ ۔۔۔آئے، بیچارے انتہائی شریف النفس اور شرمیلے تھے لیکن ینگ تھے اور ہماری ایک ہی ملاقات میں اچھی دوستی بھی ہو گئی۔ ایک دن میں عصر سے کچھ دیر پہلے ان کے پاس ہجرے میں چلا گیا، چلتے چلتے بات موبائل پر آ گئی۔ وہ مجھے کہتے کہ آپ کو بھی کبھی کسی لڑکی کا فون آیا ہے۔ میں نے معصوم سی شکل بنا کر کہا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں لیکن میں خود ”تگ و دو” کرتا رہتا ہوں۔ پھر وہ زیر لب مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ انہیں بھی "مدرسہ البنات” سے کسی کا فون آتا ہے۔ پھر وہ افسوس سے کہنے لگے کہ اب تین ہزار تنخوا میں بندہ موبائل کارڈ خریدے یا پیسے گھر والوں کو بھیجے۔ مجھے لگا کہ ان کا غم میرا غم ہے۔ پٹھانوں کی مجلس میں ذاکر صاحب نے کہا کہ ظالمو کربلا میں پانی ختم ہو گیا ہے، کوئی نہیں رویا، انہوں نے کئی اور طریقے بھی آزمائے کوئی نہیں رویا، پھر انہوں نے کہا کہ یزید نے ان کی نسوار بند کر دی تھی، سبھی پٹھان دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ کارڈ کی بات سن کر مرا دل بھی چیخ اٹھا کہ کارڈ کی بنیادی سہولت تک میسر نہیں ہے۔ میرا دل کیا کہ میں حافظ صاحب کو ڈیلی کارڈ لے کر دیا کروں۔اسی اثناء میں عصر کی اذان ہو گئی اور ہم ہجرے سے نکل کر مسجد کی طرف چل دیے۔
اسی طرح ہمارے ایک جاننے والے حافظ اے ہیں۔ ایک دن وہ خلاف توقع مغرب کی نماز کے بعد میرے ساتھ ساتھ چل دیے۔ جب انہوں نے مصافحہ کیا تو میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی آ چکا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے، وہ بولے کہ یہی تو آپ سے پوچھنا ہے کہ یہ کیا ہے ؟ پہلے تو میں خود اسے پڑھنے کی کوشش کرتا رہا، کچھ غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ ان کو کسی پرائمری پاس لڑکی نے انگریزی میں لوّ لیٹر لکھا ہے۔ میں نے ترجمہ کر کے سنایا تو کہنے لگے کہ اب اس کا جواب بھی لکھ کر دیں۔ خیر ایسے فلاحی کام تو ہم پہلے بھی کر چکے تھے۔ یہاں تو پھر بھی دل میں تھا کہ حافظ صاحب کی شادی ہوئی تو ثواب ہی ملے گا۔

ایک صاحب کا ہماری غلہ منڈی میں اچھا خاصا آڑھت کا کاروبار ہے۔ مذہبی وجہ سے وہ سبز رنگ کو بڑا پسند فرماتے ہیں اور سالانہ محفل نعت میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے ہیں لیکن ان کا ایک جگری دوست میرا بھی دوست ہے۔ وہ موصوف اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لاہور میں ایک ”مشہور ڈانسر” کا رقص دیکھنے گئے تو یہ ضد کر بیٹھے کہ ڈانس سبز بتیوں کی روشنی میں دیکھیں گے۔
خیر بات رمضان میں ماڈرن عاشقوں کی سرگرمیوں کی چل رہی تھی۔ تو اس مہینے میں عاشقوں کے ایس ایم ایس اور فیس بک پوسٹوں کی نوعیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ دل جلے اشعار کی بجائے صلاۃ التسبیح پڑھنے کا مسنون طریقہ جیسے میسجز فارورڈ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دلیل پھر وہی کہ جہاں جھوٹے شاعروں کے جھوٹے شعر بھیجے جا سکتے ہیں وہاں رمضان کے فضائل کیوں نہیں ؟

ویسے تو میری آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ فیس بک پر ٹائم ضائع کرنے کی بجائے کوئی مثبت اور نیک کام کر لیں تو زیادہ اچھا ہے۔ لیکن کارخانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔

خیر اس تحریر کا مقصد میرا اپنے ان قریبی دوستوں سے احتجاج ہے جو اپنی ”محبت وحبت اور عاشقی واشقی” میں مذہب کا ناجائز استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں، خدارا اپنی یہ ڈرامے بازی بند کریں۔
نوٹ: اگر کسی ”نیک روح ” کو سحری میں جاگ نہیں آتی تو مطلع کیجے۔ اس رمضان میں ہم بھی ثواب کمانے کی نیت کیے ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے