سردار آفتاب:اُٹھ گئے آشفتہ سر باقی ہیں فرزانے

دُنیا میں انسانوں کی آمد اور پھر پردہ کرجانے کا عمل ازل سے ابد تک جاری ہے۔انسان آتے ہیں،اپنی مہلتِ عمل میں اپنے لئے،اپنے خاندان،رشتہ داروں،محلے،گاوں،علاقے،شہر اور مُلک کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور عدم کو سُدھار جاتے ہیں۔ انسانوں کی بڑی اکثریت کا کردار محض اُن کی اپنی ذات،اپنے خاندان یا اپنے اقربا تک ہی محدود ہوتا ہے۔یہ اکثریت جب دُنیا سے پردہ کرتی ہے تو اُس کی جدائی کا دُکھ اور افسوس محض اُس کے عزیز و اقربا کو ہی ہوتا ہے۔ کوئی ہزاروں میں ایک ہی ہوتا ہے جس کی موت پر علاقے،شہر اور مُلک سوگوار ہوتے ہیں۔

یہ بڑے لوگ ہوتے ہیں جو بلا تفریقِ برادری قبیلہ،علاقہ اور شہر انسانوں کی بھلائی کی بات کرتے ہیں۔انسانوں کی غلامی،محرومی ، کسمپرسی اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ہمارے ہاں جنم لینے والے اِنھی بڑے لوگوں کی فہرست میں ایک نام سردار آفتاب ہے۔ نڑ ٹائیں میں جنم لینے والے سردار آفتاب اپنے سکول کے ایک ذہین اورلائق طالبِ علم تھے،میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں میں پاس کرکے اُنھوں نے حسین شہید گورنمنٹ کالج راولاکوٹ میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا تو اُن پر آزادی اور غلامی میں فرق واضح ہوا،جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے قومی ٓزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث این ایس ایف کی مرکزی صدارت تک جا پہنچے۔

تعلیم کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد وہ ہر کس و ناکس کی طرح غم ہائے روزگار کے ہوکرنہیں رہے بلکہ جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا ،مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود مرتے دم تک ثابت قدم رہے۔اُنھوں نے اپنی ذاتی منفعت کو ترک کیا،اقربا پروری سے انکار کیا اور مرتے دم تک قوم پروری کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہ کہنا لکھنا بہت سہل ہے مگر کرنا اُنھی کے بس کا روگ ہے جن کے دلوں میں سردارآفتاب کی طرح اپنی مٹی سے عشق اور اپنے عوام سے محبت رچی بسی ہو ۔عشق و محبت کے بغیر قدم ڈگمگانے سے کیونکر رہ سکتے ہیں۔یہ رمضان کا مہینہ ہے،ایک روزے دار کو اندازہ ہوگا کہ بھوک کاٹنی کس قدر مشکل عمل ہے۔سردار آفتاب نے بھوک کاٹی،خالی جیب پیدل چلے مگر اپنی خودداری اور ناموسِ وطن کا سودا نہ کیا۔حرص و ہوس کے مارے میرے جیسے عامیوں کا سردار آفتاب جیسے وطن کے بیٹے کو سلام ہو۔

سردار آفتاب سے میری ایک ہی ملاقات چاندنی چوک راولپنڈی میں واقع جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے دفتر میں نوے کی دہائی میں اُس وقت ہوئی تھی جب میں وہاں امان اللہ خان (خدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے)کا ایک روزنامے کے لئے انٹرویو کرنے گیا تھا۔امان اللہ خان کے انٹرویو کے بعد تقریباََ دو گھنٹے جاری رہنے والی اُس ملاقات میں مرحوم کی اپنائیت، خلوص،حقیقت پسندی اور دل آویز مسکراہٹ نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ سردار آفتاب ایک مسحورکُن شخصیت کے مالک تھے،جو بھی اُن سے ایک بار ملتا وہ زندگی میں اُنھیں کبھی بُھلا نہ سکتا تھا۔سردار آفتاب کی سوچ اور نظریے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اُن کی سیاسی حکمتِ عملی کو بھی رد کیا جاسکتا ہے مگر اپنے نظریے اور سوچ پر تماتر مصائب کے باوجود قائم رہنا تو کوئی بس سردار آفتاب سے سیکھتا۔وہ اپنے علاقے کے پہلے قوم پرور تھے،پھر اُس ایک چراغ سے اُس علاقے میں ہی نہیں بلکہ پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر بھر میں ہزاروں چراغ جلے۔ اُنھوں نے اپنے نام کی خوب لاج رکھی ہے۔

اس دُنیا میں ہمیشہ کس نے رہنا ہے،ہر ایک نے جلد یا بادیر رخصت ہونا ہے۔سردار آفتاب کو جس عقیدت و احترام سے رُخصت کیا گیا اور پھر اُنھیں جن شاندار الفاظ میں یاد کیا گیا،وہ سب دیکھ کر مرے جیسوں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہمیں بھی اس دُنیا سے پردہ کر جانے کے بعد اپنے کردار کی اتنی گواہیاں نصیب ہوجائیں تو ہماری بھی بخشش کا ساماں ہوجائے۔خدا مرحوم کی روح کو چین پہنچائے۔

سردار آفتاب کو جس طرح ہزاروں سوگواروں نے رُخصت کیا اور پھر اُنھیں خوبصورت الفاظ میں یاد کررہے ہیں،اُن کی رُخصتی کے بعد کے اس سارے عمل کوجب اُن کے کردار کا اعتراف سمجھا جائے تو دل کو طمانیت ضرور ہوتی ہے مگر یہ سوال بھی کسی نہاں خانہٗ دل میں سر اُٹھاتا رہتا ہے کہ ہم کوئی مردہ پرست قوم ہیں کہ ہمیں کسی کی خوبیاں اور محاسن اُس کے مرنے کے بعد ہی نظر آتے ہیں؟ بقولِ شاعر:

یہ ہمارے عہد کا منشورِ سائش ٹھہرا
جو ہم میں نہیں بہت اچھا تھا

مقامِ فکر ہے کہ جب تک انسان اس جہانِ رنگ و بُو میں مقیم رہتا ہے ،ہم اُس کی خوبیوں کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔اسی تھوراڑ کی دھرتی میں جنم لینے والے مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی کہ جن پر یہ دھرتی بجا طور پر ناز کرسکتی ہے کے ساتھ ہم نے کیا سلوک روا رکھا، سردار آفتاب کے حوالے سے ہمارا کیا رویہ رہا،اور آج اُنھی کو رو رہے ہیں۔ اگرچہ کافی احباب نے سردار آفتاب کے حوالے سے قلم اُٹھایا ہے مگراُن جیسے خوبصورت کرداروں کے بارے میں مزیدلکھا جانا چاہیے ،اُن کے ساتھ وقت گزارنے والوں کو ،اُنھیں قریب سے جاننے والوں کو اپنی یاداشتوں کو تحریری شکل دینی چاہیے۔اُن کے ذکر سے مذکور کوئی کتاب ہو جسے پڑھ کر آنے والی نسلوں پر بھی یہ انکشاف ہوسکے کہ کانِ نمک میں رہ کر سب نمک نہیں ہوجاتے!

ہم قیادت کے حوالے سے قحط الرجالی کا شکار ہیں۔جب میں پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر بھر میں نظر دوڑاتا ہوں تو روائیتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قوم پرور سیاسی جماعتیں بھی قیادت کے حوالے سے تہی دامن نظر آتی ہیں۔میرے جیسے لوگوں کو روائیتی سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادت سے کبھی کوئی زیادہ توقعات وابستہ نہیں رہی ہیں مگر جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ بعض قوم پرور سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی غاصب قوتوں سے مبینہ طور پر مفادات سمیٹنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے تو سردار آفتاب کی جدائی کا دُکھ اور بڑھ جاتا ہے۔ تسلیم کہ سردار آفتاب روایتی معنوں میں کوئی بہت بڑے رہنما نہ تھے کہ جن کی موجودگی سے قوم نے منزلِ مقصود پر پہنچ ہی جانا تھا مگر سیاست کے نام پر مول تول کہ اس سجے بازار میں سردار آفتاب جیسے انسان کا وجود بھی ایک غنیمت تھا کہ جن کا دامن ان آلائشوں سے ہمیشہ پاک رہا۔

اُن کی وفات پر خراجِ عقیدت کے طور پر چند حروف ضبطِ تحریر میں لانا مجھ پر فرض تھا،اگر میں ایسا نہ کرتا تو یہ بڑی کم ظرفی ہوتی۔سردار آفتاب کے دل میں اپنی قوم کے لئے جس قدر محبت موجزن تھی اور خلقِ خدا کے درد کا جو بوجھ وہ اُٹھائے پھرتے تھے، اُس کی وجہ سے اُن کے دل نے ایک روز کام کرنا چھوڑنا ہی تھا۔خدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے۔اُنھیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ جب میں نے سردار آفتاب کی وفات کی خبر پڑھی تو میرے دل سے بس اتنا نکلا:

اب کہاں وہ پہلی سی خوش وقتیء ذوقِ جنوں
اُٹھ گئے آشفتہ سر باقی ہیں فرزانے بہت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے