پاکستان میں رائج کریمینل جسٹس سسٹم انتہا پسندی کی بڑی وجہ

پاکستان میں رائج کریمینل جسٹس سسٹم میں موجود خامیوں اور ان کے حل سے متعلق رپورٹ

[pullquote]’’خدارا انصاف میں اتنی تاخیر مت کریں کہ کسی کا کچھ نہ بچے ‘‘ ۔[/pullquote]

یہ الفاظ قصور کے رہائشی مظہر فاروق کے ہیں جس نے اپنی زندگی کے قیمتی ۲۴ سال جیل کی کال کوٹھری میں انصاف کے انتظار میں گزارے۔مظہر فاروق کو ۱۹۹۲ میں قتل کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیس سال کا تھا اور انجینرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔قتل کے مقدمے میں مظہر فاروق کو سیشن عدالت نے ۱۹۹۸ میں موت کی سزا سنائی جس کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی ۔جس پر ٖفیصلہ گیارہ سال کی تاخیر سے سنایا گیا اور ہائی کورٹ نے بھی ان کی موت کی سزا کو برقرار رکھا۔

۲۰۰۹ میں اس فیصلے کے خلاف آخری پلیٹ فارم سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔۔جہاں مظہر فاروق کو پھر انتظار میں تقریبا ۸ سال مزید جیل میں گزارنے پڑے ۔اور اخر کا ۲۰۱۶ میں سپریم کورٹ نے مظہر فاروق کو باعزت بری کر دیا ۔
مظہر فاروق کا کہنا ہے کی اس پورے عرصے میں ان کی آدھی جائیداد جیل میں رشوت اور وکیلوں کی فیسوں کی نذر ہو گئی،
جو بچ گئی اس پر مخالفین نے قبضہ کر رکھا ہے۔

مظہر فاروق کو ریاست سے گلہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی کے قیمتی سال جیل میں گزرے۔وہ ریاست سے اس کی تلافی کا طلب گار ہے۔ جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن اف پاکستان کے چیرمیں ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے پاکستان میں قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوتا جس کے وجہ سے غریب کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ محروم طبقوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوتی ہیں ویسا اشرافیہ کے ساتھ نہیں ہوتا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فاونڈیشن فار فنڈمنٹل رائٹس کے سربراہ اور قانون دان شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ مظہر فاروق کی طرح کے درجنوں کیسز ایسے ہیں جس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ۔وہ اس کی وجہ ،پاکستان میں رائج کریمینل جسٹس سسٹم میں موجود خامیوں کو قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انگریزیوں کے دور سے ایک نظام چلا آرہا ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

دنیا کے اکثر ممالک میں ریاست کی جانب سے اگر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو ایسی صورت میں ریاست اس کا ازالہ کرتی ہے۔شہزاد اکبر کہتے ہیں ‘پاکستان میں انصاف مہیا کرنے کے عمل میں جھول یعنی مِسکیرج آف جسٹس کا ایکٹ موجود ہی نہیں جس کے مطابق ریاست یا نظام میں نقص یا غلطی کی وجہ سے کسی شخص کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ادارے کی جانب سے اس حوالے سے ملک میں قانون سازی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ حکومتی نمائندوں اور اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

شہزاد اکبر قانون سازی کے سلسلے میں کافی پر امید ہیں۔تاہم ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پر عمل درامد کے لئے نظام وہی پرانا ہے جس کو بدلنے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسری جانب لا اینڈ جسٹس کمیشن اف کےایک عہدادار نے ریڈیو نیوز نیٹ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرظ پر بتایا کہ سابق سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے دور میں قانون سازی کے لئےبہت کام ہوا اور مختلف سیشنز کے بعد ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا گیاتھا تاہم اب سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کا عہدہ خالی ہونے کی وجہ سے اس پر مزید پیش رفت نہیں ہو رہی۔

نگہت امان صحافی ہیں اور ریڈیو نیوز نیٹ ورک سے وابستہ ہیں . یہ رپورٹ انہوں نے اپنے ادارے کیلئے بنائی تھی .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے