سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی سماعت ختم ہونے کے بعد پہلے وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو شروع کی۔
جب یہ گفتگو لمبی ہوگئی تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور چند کارکن جن میں خواتین بھی شامل تھیں، مریم اورنگ زیب کے سامنے آگئے اور کہا کہ ’میڈم اب بس بھی کریں کافی دیر سے بول رہی ہیں‘ اس کے ساتھ ہی ان کارکنوں نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا۔
وزیر مملکت جو اپنی بات ختم کرنے والی تھیں، اس واقعے کے بعد دوبارہ وہیں رک گئیں اور اُنھوں نے پی ٹی آئی کو ’بلوہ پارٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ لڑائی جھگڑا جاکر بنی گالہ کریں۔‘
بعد میں پولیس اہلکاروں کی بڑی نفری وہاں پہچ گئی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ایک سائڈ پر کیا جس کے بعد پولیس کے حصار میں مریم اورنگزیب نے ایک گھنٹے سے زائد وقت تک میڈیا کے سوالوں کے جواب دیے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کے اس رویے کے خلاف وہاں پر موجود میڈیا کے نمائندوں نے اُن کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن اپنا سا منہ لے کر وہاں سے چلے گئے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے باہر دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ڈائس کے معاملے پر تلخ کلامی ہوچکی ہے جس کے بعد دونوں جماعتیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے اپنا اپنا ڈائس لے کر آتے ہیں۔
[pullquote]عدالت کے اندر کیا ہوا[/pullquote]
ادھر عدالت کے اندر پاناما لیکس سے متعلق تحققیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنی تیسری رپورٹ میں ایک بار پھر اداروں کی طرف سے عدم تعاون کے الزامات لگا دیے۔
اس مرتبہ ایف بی آر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے سے انکاری ہے جبکہ اس سے پہلے وہ قومی احتساب بیورو کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو پر بھی الزامات عائد کرچکے ہیں جس کے بارے میں وفاق کے نمائندے یعنی اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنے الزامات کے بارے میں مزید ثبوت دینا ہوں گے۔
[pullquote]جے آئی ٹی کے سامنے سوال کیا؟[/pullquote]
واجد ضیا کی طرف سے جب اداروں کے عدم تعاون کا واویلا مچایا گیا تو بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ان اداروں کے سربراہان کون ہیں؟ تو پاکستان تحریک انصاف کے ایک ترجمان فواد چوہدری فوری طور پر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’مائی لارڈ ایف بی آر،انٹیلیجنس بیورو اور ایف آئی اے کے سربراہان ایکسٹینشن پر ہیں اور وہ حکومت کے ساتھ اپنی وفاداریاں نبھا رہے ہیں۔‘
اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ان اداروں کے سربراہان اچھی اداکاری کر رہے ہیں اس لیے اُنھیں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کر دینا چاہیے۔‘ جج کے اس ریمارکس پر ایوان میں ایک زور دار قہقہ بلند ہوا۔
جے آئی ٹی چونکہ موجودہ بینچ نے ہی تشکیل دی ہے اس لیے اس ٹیم کے سربراہ کی طرف سے اداروں کی جانب سے عدم تعاون کی شکایت پر سپریم کورٹ کا بینچ بظاہر کافی ناراض دکھائی دیا اور اُنھوں نے اٹارنی جنرل کو واضح پیغام دیا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب ایسے کام نہیں چلے گا۔‘
جے آئی ٹی نے جب اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی کوئی قابل ذکر شخصیت کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھی جبکہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کا ایک گروپ کمرہ عدالت میں موجود تھا۔