بے مثال تخلیق کار کومل ؔ جوئیہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی راہ ڈھونڈ لیتا ہے کچھ لوگ شاعری میں تو کچھ نثر میں اپنے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اور جو اور کچھ نہ کرپایا وہ عام فہم انداز میں اپنے جذبات کو سامنے لاتا ہے ۔اگر فی زمانہ دیکھا جائے تو ان تمام اختیار کردہ طریقوں میں شاعری ایک ایسا ذریعہ اظہار ہے جو زیادہ مقبول رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ شاعری ایک ایسا ذریعۂ اظہار ہے جِس میں الفاظ اور وقت کم استعمال ہوتا ہے اور کم لفظوں میں زیادہ بات کی جاسکتی ہے گو کہ شاعری کے میعارات جانچنا اور ان پر عمل پیرا ہونا بھی لازمی امر ہے ۔

شاعری کے بارے میں جہاں افلاطون کا یہ کہنا کہ شاعری معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے (حالاں کہ افلاطون شاعروں کی دِل سے قدر کرتا تھا) وہاں ہی اس کے ہونہار شاگرد ارسطو اور بعد میں آنے والے دیگر ناقدین ادب نے شاعری کو معاشرے کے لیے مفید قرار دیتے ہوئے اسے معاشرے کی اصلاح کاذریعہ بتایا ہے ۔ ہاں شرط یہ ہے کہ شاعری اصول و ضوابط اور صیح الفاظ کے چناؤ کے ساتھ کی جائے ہو مر سے شروع ہونے والی شاعری مختلف منازل طے کرنے کے بعد عربی سے فارسی اور پھر اُردو میں آئی ۔ ولی ؔ دکنی کو اُردو غزل کا باوأ آدم کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل حضرت امیر خسروؔ اور قلی قطبؔ شاہ شاعری کے حوالے سے اپنا نام پیدا کرچکے تھے لیکن ولیؔ نے اُردو غزل کو باقاعدہ ایک اُسلوب اور اور آہنگ سے روشناس کرویا اور غزل کی باضابطہ روایت قائم کی ۔ ولی ؔ دکنی کے بعد کئی نام و ر شعرا اُردو ادب میں آئے جن میں میرتقی میرؔ ، مرزا سوداؔ ، آتش ؔ ، میردردؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ وغیرہ بڑے نام ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بے شمار شعرانے اپنے کلام سے اُردو ادب کے خزانے بھرے ۔اُردو غزل کی تاریخ میں وہ دور بھی آیا جسے "عہد زریں”کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور ناقدین ادب یہ پیش گوئی کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اُردو غزل اپنا وجود کھود ے گی ۔لیکن ایسا نہ ہوا اور آج اکیس ویں صدی میں بھی غزل کہنے ، سننے اور سمجھنے والے بے شمار لوگ موجود ہیں ۔ اس شعری منظر نامے میں اگر شاعرات کو دیکھا جائے تو ان کی تعداد بہت کم نظر آتی ہیں لیکن جو ہیں وہ واقعی شاعرات ہیں ۔ وارثی میرٹھی کے مطابق ملکہ نورجہاں برصغیر پہلی شاعرہ تھیں(نور جہاں فارسی زبان میں شاعری کرتی تھیں)۔ جس سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور پروینؔ شاکر، اداؔ جعفری، شبنم ؔ شکیل اور امرتا پریتم سمیت کئی اہم ناموں سے ہوتا ہوا آج کے دور کی خوبرو اور خوش کلام تخلیق کار کوملؔ جوئیہ تک چلا آتا ہے۔

کومل جوئیہ

کومل ؔ جوئیہ(KOMAL JOYA)اس عہد کی ایک ایسی تخلیق کار ہے جِس نے نہ صرف شاعری کو اپنے لیے ذریعہ اظہار بنایا بلکہ اس نے افسانے پر بھی طبع آزمائی کی ۔ لیکن میں یہاں کومل ؔ کی شاعری کے حوالے سے بات کروں گا۔ کومل ؔ سے میرا تعلق کچھ زیادہ پرانا نہیں اور اس سے ملاقات بھی صرف شاعری میں ہی ہوئی ۔ کومل ؔ کی شاعری پڑھ کر میں ہی کیا کوئی بھی شخص اس باہمت شاعرہ کے فن کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس کی شاعری اس بات کی غمازہے کہ اس کے ہاں کِس قدر خوب صورت زبان و بیان کے ساتھ محبت کا ایک بحر بے کراں ہے جِس میں قاری غوطہ زن ہو کر اس سے لطف اندو ز ہوتا ہے ۔ کوملؔ کا ظاہرو باطن فقط محبت ہی محبت ہے ۔

کومل ؔ کا پہلا مجموعہ "ایسا لگتا ہے تجھ کو کھودوں گی "حال ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوچکا ہے( دوسرا مجموعہ ’’کاش‘‘ کے نام سے زیر طبع ہے) گو کہ اس مجموعے میں کچھ مسائل بھی ہیں لیکن وہ مسائل ایسے نہیں کہ جن کاتعلق شاعرہ کے فن سے ہو بلکہ وہ مسائل پروف کے یا ڈیزائننگ کے ہیں ۔ اس مجموے میں شامل کلام کوملؔ جوئیہ کی ابتدائی شاعری ہے لیکن اس میں فنی پختگی اتنی ہے جو کِسی بھی بڑے شاعر کا خاصا ہوسکتی ہے۔ کومل ؔ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں سے ہے جہاں عورت کو قدم قدم پر مشکلات اور پابندیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے اور اس ماحول میں بھی کسی لڑکی کا شاعری کرنا یقیناًایک ہمت والا کام ہے ۔ کوملؔ جوئیہ اس بات پر بھی بجاطور پر داد کی مستحق ہے کہ اس نے اس ماحول میں شاعری کی اور کمال شاعری کی جس ماحول میں عورت کے بولنے پر بھی پابندی ہے اس نے محبت کو اپنا موضوع بنایا۔ وہ جانتی ہے کہ محبت ہی سے انسان کی پہچان ہے اور انسانیت میں نفرت نہیں ہوتی۔ انسانیت کے عظیم معلم نبی ﷺ نے فقط محبت کا درس دیا آپ ﷺ نے اعلیٰ اخلاق سے اپنے دشمنوں کو بھی متاثر کیا۔ کوملؔ بھی اس نبی ﷺ کے امت میں شامل ہے اور محبت ہی کوملؔ کی زبان ہے۔

کومل ؔ کے زیر بحث مجموعے میں شامل شاعری اس قدر حسن و ترنگ سے مزین ہے کہ قاری پڑھ کر عجب فرحت محسوس کرتا ہے ۔ اس مجموعے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا نہایت آسان ہے کہ کوملؔ کی شاعری جدت اور محبت کی شاعری ہے اور اُن کے مستقبل کے روشن ہونے کے امکانات صاف نظر آتے ہیں ۔ کومل ؔ محبتوں کی شاعرہ ہے اور اِس کا اندازہ اُس کے کلام سے بہ خوبی ہوتا ہے۔

؂ وہ مرے پاس جو آئے تو مر ا ہو کے رہے!
پھر مجھے اپنی محبت سے نکھار ے کومل ؔ

کومل ؔ جوئیہ کا مجموعہ جب ہاتھ میں آیا تو اس کی ورق گردانی کے دوران جوچیز مجھے سب سے پہلے نظر آئی وہ اس کے اندر بے تحاشاہ لوگوں کی آرا تھیں۔ یہ تما م لوگ میرے لیے غیر مانوس تھے ماسوائے کرنل مقبول حسین کے جن کے نام سے کسی قدر شناسائی تھی ۔ میں اتنے سارے لوگوں کی رائے قابل اعتراض اس لیے بھی سمجھتا ہوں کہ اکثر لوگ فقط اپنے مجموعے کی ضخامت کے لیے آرا شامل کرتے ہیں اور اس سے اپنے فنی عیبوں کی پردہ پوشی کا کام لیتے ہیں مگر میں یہ بات کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ کومل ؔ کی شاعری اس معیارکی ہے کہ اس کو اتنے سارے لوگوں کی آرا کی ضرورت نہیں ۔ میرے خیال کے مطابق اگر آپ کا ایک شعر بھی پذیرائی حاصل کرلے تو یہ بڑی بات ہے کومل ؔ کے ہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک غزل اعلیٰ معیار کی ہے ۔ گو کہ کہیں کہیں پروف ریڈنگ کے مسائل بھی ہیں لیکن یہ نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔

نو(9) لوگوں کی غیر ضروری آرا کے بعد جب حمد ،نعت اور بعد ازاں دیگر کلام کا مطالعہ کیاتو مجھے ایسا لگا کہ مجھے اس مجموعے کے حوالے سے لکھنا چاہیے کیوں کہ یہ واقع اس قابل ہے کہ اس کو بیان کیا جائے ۔ اس خیال کے پیش نظر کہ میرا یہ معمولی سا تجزیہ اگر تخلیق کارہ کے لیے حوصلہ فراہم کرے گا اور آئندہ
اس کے لیے بہتری کا سامان پیدا کرے گا تو مجھے اس بات کی خوشی ہو گی۔ مجھے اس شاعرہ نے حقیقی معنوں میں متاثر کیا ہے۔

کوملؔ جوئیہ کی شاعری درحقیقت اس کی زندگی کی آئینہ دار ہے وہ اپنی ذات کو ہی نہیں بلکہ اپنے ہر ہر ہم وطن کے دکھ کو بیان کرتی ہے ۔ اس کے ہاں الفاظ تو ہیں یہی اس کے ساتھ ساتھ مضامین کی بھی کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ عام فہم موضوع کو کوملؔ اس انداز سے بیان کرتی ہے کہ اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔

؂ ساتھ چلنے کا عہد کرتو چلوں
چھوڑ جاتے ہیں لوگ راہوں میں

؂ اس نے دیکھا تھا اک نظر کوملؔ
بات مفہوم سے تہی نہ رہی

کوملؔ جدید لب ولہجہ کی حامل ایک ایسی ثروت مند شاعرہ ہے جس کا اُسلوبِ نگارش بھی عشقیہ مضامین سے عبارت ہے۔ پرانے مضامین کو ندرت اور نفاست سے یوں استعمال کرتی ہے کہ قاری کو وہ بالکل نیا پن محسوس ہوتا ہے ۔ جب کہ الفاظ کا چناؤ بھی کومل ؔ کے اُسلوب میں خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ مثال دیکھیے۔

؂ ایک جانب بچھی تھی جائے نماز!
ایک جانب شراب چوکھٹ پر !

؂ کیسے آؤں میں تیری بانہوں میں
عشق شامل نہ کر گناہوں میں

کومل ؔ انتہائی حساس مضامین بھی اس قدر آسانی سے بیان کرتی ہے جن کو پڑھ کر قاری انگشت بدانداں ہوجاتا ہے اور بے اختیار اس کی زبان سے کلمہ داد جاری ہوتا ہے۔زندگی کے تلخ تجربات،مشاہدات اوراصلاحات کو الفاظ کو جوروپ کوملؔ دیتی ہے اس سے اس کے وسیع المطالعہ ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے ۔ کومل ؔ زندگی کی حقیقتوں کو اپنے کلام کا جس طرح حصہ بناتی وہ واقعی ہی قابل داد ہے ۔کومل ؔ کی زندگی کے ان تجربات کو ذرا شعر کی صورت میں ملاحظہ فرمائیے۔

؂ بڑی تلخیوں سے اٹی ہوئی میری راہ گزار حیات ہے
کہ ذرا سے جینے کے شوق میں کئی بار مرنا پڑا مجھے

؂ بہت برا کیا ہے مد عائے دل کہہ کر
کبھی کبھی کے دعا اور سلام سے بھی گئے

کوملؔ جوئیہ روایت اور جدت کے سنگم پر جہاں موجود ہیں وہاں ایک نیا نہج ملتا ہے جو کہ ایک جدید اسلوب کی طرف جاتا ہے ۔ کومل ؔ کے ہاں ہجر و وصال کے موضوعات بھی بہ کثرت ملتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ جدید تشبیہات و استعارات بھی کوملؔ کی شاعری کا خاصا ہے۔ معاشرے کی تلخ حقیقتوں کو جدید علامات کے سہارے بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے ۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں اس معاشرے میں انسانیت کی اقدار کھو چکی ہیں اور محبت ایک جزوقتی چیز بن کر رہ گئی ہے کوملؔ نے ان تمام حالات پر اپنے جذبات کو کچھ یوں اظہار کا جامہ پہنایا ہے۔

؂ بھول بیٹھا ہے پیمبر کی کہی باتوں کو
یہ زمانہ نئی تورات طلب کرتا ہے

اس نفانفسی اور خود پرستی کے دور کا خاکہ کومل ؔ کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔

؂ جب کڑی دھوپ اترآتی ہے سرپرلوگو
کون پھر سایہ دیوار دیا کرتا ہے

کومل ؔ جوئیہ نے اپنے تخلص کو بھی بطور ردیف استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے او ر نہ صرف تجربہ کیا بلکہ کامیاب تجربہ کیا ہے ۔

؂ بارش سنگ ملامت میں اکیلی کوملؔ
اور جو کھیلی توفقط جان پر کھیلی کوملؔ

؂ ایک ہی شخص طلب تھا سووہی خوا ب ہوا
پھر دعاؤں کو اٹھائی نہ ہتھیلی کوملؔ

دُعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ایک عام فہم سی بات ہے لیکن اس کو کومل ؔ جوئیہ نے ہتھیلی اٹھانا استعمال کرکے اس کی خو ب صورتی اور ندرت میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ اسی ردیف پر ایک اور غزل کے اشعار دیکھیے۔

؂ جب بھی و ہ شخص مرا نام پکارے کو ملؔ
میری آنکھوں میں چمکتے ہیں ستارے کوملؔ

یہاں پکارے کوملؔ کے معنی سمجھ آتے ہیں وہ واقعی ہی دادو تحسین کے قابل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ کومل ؔ اپنے اندر ایک ہمت دیکھ رہی ہیں جوکسی کے بانہوں کے سیارے سے ملی ہے اور یہ سہارے ایسے ہیں کہ جن سے کوملؔ طوفان سے مقابلہ کرسکتی ہے۔

؂ آج طوفانِ بلا خیز سے لڑسکتی ہوں!
کتنے مضبوط ہیں بانہوں کے سہارے کوملؔ

غزل کے ساتھ ساتھ کوملؔ جوئیہ نے نظم پر بھی طبع آزمائی کی ہے زیر بحث مجموعے میں شامل نظمیں بھی محبت ہی کی داستان سناتی ہیں اور یہاں بھی آپ محبت کے خاص اسلوب سے باہر نہیں نکلتی ۔ آپ کی ایک نظم "محبت نام کی چڑیا”میں آپ محبت کے حوالے سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتی ہے ۔وہ محبت کو ایک ایسی چڑیا بتاتی ہیں جو کہ دیکھنے میں تو بے مثل ہے اور نہایت خوب صورت ہے لیکن اس میں تمام تر خوبیاں ہونے کے باوجود ،خامیاں بھی ہیں یہ محبت ہر کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ احمد فرازؔ نے غزل کے بارے میں یہ کی تھی کہ غزل مظلوم اتنی ہے کہ ہم کوئی اس پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ظالم اتنی کہ یہ ہر کسی کے ہاتھ نہیں آتی ۔ کومل ؔ جوئیہ نے محبت کو اس تناظر میں لایا ہے کہ یہ پہنچ سے بہت دور ہے ۔ اس نظم کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔

؂ کبھی بھی ایک جگہ رہنا
اُسے کومل ؔ نہیں آتا
محبت نام کی چڑیا
بہت خوش رنگ ہوتی ہے
مگر مغرور کتنی ہے؟
پہنچ سے دور کتنی ہے؟

اسی طرح آپ کی ایک اور نظم "مجھ کو ایسی محبت نہیں چاہیے "میں بھی آپ محبت کا ایک میعار مقرر کرتی ہوئی نظرآتی ہے وہ محبت کو روح کا رشتہ قرار دیتی ہے اس میں کوئی دکھاوا اور تجارت نہیں ہوتی ۔ محبت وہ ہو جس میں اندر اور باہر دونوں مساوی ہوں ۔ وہ ایسی محبت کی قائل ہے جس میں صرف خلوص وفااور چاہت ہو۔ کوملؔ اول و آخر محبت کی زبان بولتی ہے اس کے ہاں محبت ہی سب سے بڑا دین ہے اور انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب۔کومل ؔ جوئیہ مالک کی اور مذاہب کی قیدی نہیں وہ انسانیت کی حامی ہے ۔

کومل ؔ جوئیہ کی شاعری در اصل اپنے عہدکی شاعری ہے اور ہر اس شخص کی شاعری ہے جو اس عہد میں جی رہا ہے ہر اس شخص کی شاعری ہے جوکہ پہلومیں دِل اور جذبات رکھتا ہے ۔ ہر اس شخص کی شاعری ہے جو محبت کو معتبر جانتا ہے ۔ اس مختصر مضمون میں کومل ؔ جوئیہ کی شاعری کا جوا حاطہ میں نے کیا وہ بہت مختصر ہے کوملؔ کی شاعری اس معیار کی ہے کہ اس پر مزید لکھا جانا چاہیے ۔

؂ ہر سال بناتے ہیں بہت شوق سے کوملؔ
لوگوں کے لیے بن گئی تہوار محبت!

؂ پھر پھڑائی ہے بائیں آنکھ مری
ایسا لگتا ہے تجھ کو کھودوں گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے