بنی منہاساں، خوابیدہ جنت

بنی منہاساں کا تعارف میرے لئے صرف برادر مشتاق منہاس کا آبائی علاقہ ہونا تھا مختلف مواقع پر طے کیا کہ گنگا چوٹی کی زیارت کے لئے جایا جائے لیکن مختلف مصروفیات آڑے آتی رہیں ۔

اس عید الفطر پر آوارہ گرد گروہ سے جب بات ہوئی کہ کمراٹ یا کشمیر کا ٹور کیا جائے تو کشمیر کی سیر کا پروگرام طے پا گیا۔ مہا آوارہ گرد عید سے ایک دن پہلے "گولی” کروا گئے تو بیک اپ پلان پر عمل درآمد کیا۔برادر رضوان سعید اور ناظم اسامہ کو لاہور سے بلا لیا۔

سدا کے آوارہ گرد دعوت ملتے ہی نکل پڑے۔ برادر مشتاق منہاس کو اطلاع دی اور باغ کی سمت چل پڑے۔میڈیا ٹاون سے بنی منہاساں براستہ لہتراڑ روڈ 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس کا 95% فیصد پختہ ہر موسم میں سفر کے لئے موزوں سڑک پر مشتمل ہے۔ ٹویوٹا جی ایل آئی پر سوار ہو کر ہم تین احباب جب میڈیا ٹاون سے نکلے تو موسم عاشقانا ہو چکا تھا۔ لہتراڑ روڈ تک پہنچتے ہی تیز بارش بھی ہمسفر ہو گئی۔ نصرت فتح علی خان کی قوالیاں سنتے جب ہم نیلا سانڈ کے قریب پہنچے تو بارش رک گئی اور چیڑ کے درخت تیز ہوا کے دوش پر یوں لہلہار ہے تھے جیسے الہڑ دوشیزاوں کے ڈوپٹے ہوا کے سنگ ناچ رہے ہوں۔

جیسے ہی محترم وقار ستی کی راجدھانی کوٹلی ستیاں پہنچے تو پختہ سڑک ایک نیم پختہ راستے میں تبدیل ہو گئی۔ غور کیا تو پتا چلا کہ سڑک زیر تعمیر ہے۔ قریباََ دس بارہ کلومیٹر کا یہ راستہ سست رفتاری سے طے کیا۔ جہلم کا پل پار کرتے ہی سڑک کی حالت بھی بہتر ہو گئی۔۔۔گمان یہ تھا کہ موٹر وے پر سفر کر رہے ہوں۔ ارجہ کے مقام پر صراط مستقیم سے بھٹک گئےاور مجاہد اول کے مزار کے قریب برادر مشتاق منہاس نے کان میں سرگوشی کر کے دوبارہ سے سیدھے راستے پر ڈال دیا۔ شاید مجاہد اول کی محبت کھینچ کر ہمیں ان کے مزار کے قریب لے گئی لیکن برادر رضوان سعید جن کا محبت سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں نے ہمیں مزار پر جانے سے روک دیا۔ تیز بارش نے بھی رضوان سعید کا ساتھ دیا اور ہم نامراد لب مزار سے واپس باغ کی جانب مڑ گئے۔

اسلام آباد سے چل کے باغ شہر تک ہم قریباََ ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچ گئے۔ باغ شہر سے پہلے ہی سدھن گلی کا سیدھا و پختہ راستہ پکڑ ہی تھا کہ تیز بارش نے آ لیا۔ خیر بنی منہاساں تک پہنچنے کے لئے پختہ سڑک کا مل جانا ایسے ہی تھا جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دنوں میں بجلی کا نا جانا۔ برادر مشتاق منہاس کے گھر تک کا سفر باغ شہر سے قریبا ایک گھنٹے کا تھا۔ دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ مشتاق منہاس بھائی کے والد کے نام سے منسوب کرکٹ گراونڈ دیکھنے جایا جائے جو کہ گنگا چوٹی کا بالکل دامن بھی ہے اور اسی کرکٹ گراونڈ کے ساتھ سے راستہ اوپر گنگا چوٹی تک لے جاتا ہے۔ گنگا چوٹی کا ٹریک ایک صحت مند نوجوان قریباََ دو گھنٹے میں کر سکتا ہے اور گنگا چوٹی کے ٹاپ سے وادی سر سبز ایک شاندار قالین کے مانند نظر آتی ہے۔

گنگا چوٹی 9989 فیٹ بلند سربسز و شاداب چوٹی ہے جس کے دامن میں بنی منہاساں، مالدارا، دیرہ ڈھنے اور اپر پٹنگی کے دیہات ہیں، سرسبز و شاداب جنگل میں آبادی بہت کم ہے جس کے وجہ شاید سرما میں میں پڑھنے والی چار فٹ برف ہے۔ گرمیوں میں باغ سے اوپر آ جانے والے کشمیری جنگل میں اپنے جانوروں کو چراتے ملیں گے۔ چند مخصوص کونوں میں موبائل کے سگنل بھی بھولے بھٹکے مل جاتے ہیں اور ایج کے ذریعے تصاویر بھی اپلوڈ کی جا سکتی ہیں۔ پی ٹی سی ایل کی انٹر نیٹ ڈیوائس بھی بعض مقامات پر چلتی ہے۔

ہمارے میزبان مشتاق منہاس نے ایک نوجوان کو ہمراہ کر دیا تھا کہ وہ ہمیں گاوں کی سیر کروا دے ۔کرکٹ گراونڈ میں پہنچتے ہی اس جوان رعنا نے کہا کہ اگر آپ زیادہ تھکے نہیں تو آئیں اس سامنے میدان کا دورہ کرتے ہیں، میدان سے مراد وہ چراہ گاہ تھی جو بظاہر تو عین سامنے تھی لیکن جنگل کے کیچڑ میں لت پت راستے سے وہاں تک پہنچنا ہم نیستیوں کے لئے ایک بہت مشکل عمل تھا۔ برادر رضوان سعید کے جوش دلانے پر اپنی بزرگی کو بالائے طاق رکھا اور میدان کی طرف روانہ ہو گئے۔

خودرو جھاڑیوں، جنگلی گلابوں اور سر سبز مخملی گھاس پر چلتے چلتے ابھی عاشقانا موسم سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ جھاڑیاں کانٹے دار اور گھنا ہونا شروع ہو گئیں۔ رہنما کی رہنمائی میں جانوروں کےچلنے والے راستوں پر پھسلتے پھسلاتے کیچڑ سے لت پت جب ہم برساتی نالے کے قریب 30 منٹ میں پہنچے تو آگے راستہ نا تھا۔ جھاڑیوں میں کھائی میں اترنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ ناظم اسامہ نے تو تجویز پیش کی کہ پھسلتے پھسلاتے ہم واپس کرکٹ گراونڈ کی جانب چلتے ہیں لیکن وہاں ہمارے جوانی آڑے آ گئے اور سویا ہوا راجپوت بیدار ہوا کہ اپنے پاوں پر چل کر تو ہم میدان میں جائیں گے اور اگر آپ ہمیں واپس لے جانا چاہتے ہیں تو چار کندھوں کا انتظام کر لیں۔

اللہ رب العزت نے ایک خضر نما گائے کو ہمارے راہنمائی کے لئے بھجوا دیا جس کے نقش پا پر چلتے چلتے ہم نالہ عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ برساتی نالہ میں پانی نا ہونے کے برابر تھا اور اس کے فوراََ بعد وادی ایک کھلے میدان میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ منزل قریب پا کر ہم پھرچلنا شروع ہو گئے اور قریباََ پون گھنٹے میں میدان کے اوپر پہنچ گئے۔ میدان سے دس میٹر نیچے برادر ناظم اسامہ کے نخرے کی بدولت رضوان سعید بھی فیصلہ کر بیٹھے کہ اوپر جانے کی بجائے اندھیرا پھیلنے سے پہلے گھر چلا جائے لیکن راجپوت کے جلال کے آگے ان کی ایک نا چلی۔

بنی منہاساں کا سر سبز میدان ایک ایسا مخملی قالین تھا جو قدرت نے ہمارے قدموں تلے بچھا دیا تھا۔ دو کلو میٹر پر پھیلے اس سرسبز قالین سے بھور بھن کی روشنیا ں دیکھ جا سکتی ہی تو دوسری طرف باغ شہر کی آبادی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ گنگا چوٹی تک ایک راستہ اس میدان سے بھی جاتا ہے۔ مشتاق منہاس اس کوشش میں ہیں کے اس میدان تک جیپ کی رسائی ممکن بنائی جا سکے جس کے لئے ایک سڑک زیر تعمیر ہے۔ اس میدان میں جس نے کیمپ کر کے ایک رات گزار لی ممکن ہے وہ ساری عمر بنی منہاساں کے سحر سے باہر نا نکل سکے۔

مطلع صاف تھا۔ آوارہ بادل کی ٹکڑیاں ادھر ادھر ہوا کے دوش پر ٹہلتی نظر آرہی تھیں ۔ موبائل فون سے چند تصویریں اپلوڈ کرنے کے بعد ہم لوگ نیچے اترنا شروع ہوئے۔ درجہ حرارت بھی گرنا شروع ہوا۔ سڑک تک آتے آتے مغرب کی اذان ہو چکی تھی اور تیز ہوا کی ٹھنڈک ہڈیوں میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔ رضوان سعید کے موبائل کے مطابق ہم اس روز قریباََ بارہ کلومیٹر پیدل چلے تھے۔ برادر مشتاق منہاس کے ساتھ رات کا کھانا کھایا اور اس کے بعد باغ شہر پر ستاروں سے بھری کہکشاں ڈھونڈنے لگ گئے۔ تھوڑی تلاش کے بعد ستاروں کی کہکشاں باغ شہر کے بالکل اوپر مل گئی اور جسے کیمرے میں محفوظ کرتے دیر نہ کی۔

اگلے روز ناشتے کے بعد مشتاق منہاس صاحب کے ساتھ زیر تعمیر سڑک پر مالدارا تک کا پیدل سفر کیا۔ سرسبز جنگل میں بل کھاتی سڑک پر چلتے ہوئے برادر مشتاق منہاس نے ٹوارزم کوریڈور کے منصوبے کے متعلق بتایا جو کہ ان کی حکومت کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو اگر مکمل ہو جاتا ہے تو اس خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ وادی جہلم سے شروع ہونے والا یہ کوریڈور چکار سدھن گلی سے ہوتا ہوا گنگا چوٹی کے نیچے سے وادی نیلم تک جا نکلے گا۔ سات ہزار فٹ کی بلندی پر بننے والا یہ منصوبہ ایک ایسا خواب ہے جو اس علاقے کے "بھاگ”جگا دے گا۔

 

 

مالدارہ تک کا راستہ جو کہ ایک پگڈنڈی سے اب ایک جیپ روڈ میں تبدیل ہو چکا ہے پر چلتے ہوئے پوری وادی کا منظر کیمرے میں محفوظ کرتے گئے۔ سارا دن اس علاقے میں گزر گیااور محسوس یوں ہو رہا تھا کہ کسی جادو گر نے ہم پر کوئی سحر کرکے ہمارے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ جنگلی گلابوں کی خوشبو اور سبزی مائل وادی دامن پھیلائے ہوئے تھی اور ہم اس کے حسن پر فریفتہ پتھر کا مجسمہ بنے کھڑے تھے۔

واپسی کا راستہ سڑک کی بجائے غیر معروف تھا جس پر چلتے ہوئے ہر 100 گز بعد مسحور کن منظر تبدیل ہو جاتا۔ کبھی تنگ گھاٹیاں اور کبھی کھلے میدان، ایک گھنٹے میں واپس قیام گاہ تک پہنچنا تھا کہ راستے میں گھنگھور گھٹاوں نے ہمارے ارد گرد گھیرا ڈال لیا۔ تیز ہوا اور گھنگھور گھٹا ہو تو کون فرزانا دانا رہ کر بھٹک نا جائے۔ بادل بگولوں کی مانند ہمارے ارد گرد گھوم رہے تھے اور ہم بنی منہاساں کے سبز زار میں مسحور ہوئے چلے جا رہے تھے، قیام گاہ پہنچے ہی تھے کہ تیز بارش نے آ لیا۔ ٹھنڈک میں اتنا اضافہ ہو گیا کہ بستر سے صرف کھانا کھانے کے لئے نکلے اور مجبوراََ مطلع صاف دیکھ کر کچھ تصویر بھی بنائیں۔

بنی منہاساں کا خوابیدہ حسن اس قدر مسحور کن تھا کہ شاید میرے ساتھ نا آنے والے آوارہ گرد ساری زندگی اس غلطی کو بھول نا سکیں اور ہم اس وادی کےحسن کا شکار کب خواب غفلت تک جا نکلے پتا بھی نا چلا۔
اگلے دن لسڈنہ روانگی کا پروگرام تھا جس کی روداد اگلی نشست میں تحریر کروں گا۔

 

 

[pullquote]بنیادی معلومات:[/pullquote]

اسلام آباد سے بنی منہاساں براستہ لہتراڑ روڈ : 160 کلو میٹر

درکار وقت: 4 سے پانچ گھنٹے

رہائش کے انتظامات: صرف ایک ہوٹل ہے جس میں پندرہ سے بیس افراد رات گزار سکتے ہیں۔ کھانے پینے کا انتظام بھی مناسب ہے۔ کیمپنگ کے لئے آنے والوں کے لئے وادی کا دامن بہت وسیع ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ: پیرودھائی اڈا سے ٹیوٹا ہائی ایس کے ذریعے بنی منہاساں بغیر گاڑی تبدیل کئے پہنچا جا سکتا ہے۔

موبائل فون: بنیادی طور پر یو فون اور ایس کام کے موبائل زیادہ تر جگہ پر کام کرتا ہے۔ وارد،زونگ اور ٹیلی نار کے سگنل بھی کہیں کہیں مل جاتے ہیں جس پر ایج انٹرنیٹ چلتا ہے۔

موسم: جون جولائی میں رات کو بغیر کمبل سونا ممکن نہیں۔ کسی گھر میں پنکھا استعمال نہیں ہوتا۔

سیکیورٹی: 101فیصد محفوظ۔ باغ شہر میں قیام کرنے والے اپنی فیملی کے ساتھ دن بھر میں یہ علاقہ گھوم سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے