رپورٹ کے بعد!

اس میں شبہ نہیں کہ حکمران خاندان پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اخلاقی ہیں، نفسیاتی ہیں اور یقیناً سیاسی بھی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ رپورٹ قومی سیاسی افق کو متاثر کرنے کی بھی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلے شریف خاندان کی بات۔

یہ رپورٹ الزام عائد کرتی ہے کہ بعض معاملات میں حکمران خاندان کذب بیانی کا مرتکب ہوا ہے۔ مریم نواز صاحبہ بھی براہ راست اس الزام کی زد میں ہیں۔ یہی نہیں رپورٹ وزیر اعظم پر بھی یہ الزام لگاتی اور یہ بتاتی ہے کہ ان کے دعوے کے برخلاف، ان کے نام پر بھی آف شور کمپنی موجود ہے۔ یہ الزام سنگین ہیں جن کو اگر غلط ثابت نہ کیا گیا تو یہ نواز شریف خاندان کی اخلاقی ساکھ کو متاثر کریں گے۔ شریف خاندان کو عوام کی ایک بڑی تعداد اخلاقی طور پر بہتر جگہ پر کھڑا دیکھتی ہے۔ اگر یہ تاثر مجروح ہوتا ہے تو یہ ایک المیہ ہو گا۔

نفسیاتی محاذ پر بھی شریف خاندان کو اس بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان کے اعصاب کہاں تک اس رپورٹ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں‘ اور کتنے دن، سیاست میں اس کی بھی بہت اہمیت ہے۔ اب تک بعض حکومتی ارکان کے برخلاف، نفسیاتی طور پر شریف خاندان نے یہ معرکہ بہتر انداز میں لڑا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنے اس اعتماد کو کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ مخالفین نفسیاتی محاذ پر زیادہ سرگرم ہیں۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر انہیں زچ کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس آزمائش کا کیسے سامنا کرتے ہیں۔

سب سے اہم محاذ قانونی ہے۔ اب تک حکومتی موقف یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے یہ ایک کمزور دستاویز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں جن شہادتوں کا ذکر ہے، قانونی پہلو سے وہ یہ حیثیت نہیں رکھتیں کہ عدالت میں بطور ثبوت پیش کی جا سکیں۔ باایں ہمہ، ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ اس رپورٹ میں متناقص اور متضاد باتیں کہی گئی ہیں۔ اب ان کے وکلا کو یہ موقف عدالت میں پیش کرنا‘ اور اسے قائل کرنا ہے۔

اس رپورٹ کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے‘ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ بہت کم ہوں گے۔ انکوائری کا فیصلہ عوامی رائے پر کم ہی اثر انداز ہوتا ہے۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ میڈیا ٹرائل بھی موثر نہیں رہا۔ اس کی ایک مثال کراچی اور گلگت میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں۔ میڈیا ٹرائل کے ساتھ، عدالتیں بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف متحرک ہیں۔ عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم صاحب کے انکشافات بھی سامنے رکھیے۔ اس کے ساتھ عمران خان کی موثر انتخابی مہم بھی۔ ان سب کے باوجود، انتخابی نتائج کم و بیش وہی رہے جو 2013 ء میں تھے۔ ان تین سالوں میں نہ تو تحریک انصاف کراچی میں اپنی جگہ بنا سکی اور نہ ایم کیو ایم ہی سیاسی قوت کھو سکی۔ دھڑوں میں بٹ جانے کے باوجود، مہاجر سیاسی ووٹ بینک قائم ہے۔

یہی معاملہ نواز شریف صاحب کا بھی ہے۔ پنجاب میں ان کی حمایت میں شاید ہی کوئی کمی آ سکے۔ اگر ن لیگ نفسیاتی محاذ پر بہتر کارکردگی دکھا سکی اور مظلومیت کا تاثر قائم کر سکی تو اس کا ووٹ بینک بڑھ بھی سکتا ہے۔ تاہم شہروں میں اسے ایک چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر اس کے مخالفین زیادہ متحرک ہیں‘ اور ان کی یہ مہم نوجوانوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اگر نواز شریف صاحب اس تاثر کو گہرا کر سکے کہ وہ نادیدہ قوتوں کی سازش کا شکار ہیں تو بھی انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہو گا۔ جمہوریت نواز حلقہ ان کی حمایت میں کھڑا ہو جائے گا جو میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو متاثر کر سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس رپورٹ کے بعد جو سیاسی بحث ہونے جا رہی ہے، اس میں سب سے اہم نکتہ یہی ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ یہ رپورٹ قومی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟ میرے نزدیک چند باتیں ایسی ہیں جو رپورٹ کی ساکھ اور اس کے سیاسی مضمرات کے باب میں اہم ہیں:

1۔ چھ افراد نے دو ماہ کی قلیل مدت میں جس طرح اتنا کچھ جمع کرنے کے ساتھ، ایک مفصل رپورٹ بھی مرتب کر ڈالی، وہ ممکن نہیں الا یہ کہ انہیں جناتی خصوصیات کا حامل مان لیا جائے۔ ابتدا میں سب اندازے یہی تھے کہ جے آئی ٹی کو مزید وقت درکار ہو گا۔ یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ یہ جنّاتی کام وقتِ مقررہ پر مکمل ہو گیا۔ مجھے اس کی کوئی تاویل اس کے سوا دکھائی نہیں دیتی کہ جے آئی ٹی کو ایک یا ایک سے زیادہ منظم اداروں کی مدد حاصل تھی اور اس ادارے یا اداروں نے بھی ایک مدت سے یہ معلومات جمع کر رکھی تھیں جنہیں وہ کسی مناسب وقت پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اب وہ وقت آ گیا۔ یہ بات ایک مفروضہ بھی ہو سکتی ہے لیکن بصورتِ دیگر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اتنا سارا کام اس سرعت کے ساتھ، اتنے قلیل وقت میں کیسے ہو گیا؟

2۔ رپورٹ کے مطالعے سے بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عشروں پر محیط اس کاروبار میں، جے آئی ٹی کو کوئی ایک بات ایسی نہیں مل سکی جس کی کوئی قانونی حیثیت ہو۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر کوئی فراڈ کرتا ہے تو آٹے میں نمک کے برا بر ہی سہی، اسے سچ کی آمیزش کرنا پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ اتنا بڑا کاروبار سراسر جھوٹ اور فراڈ پر کھڑا ہے۔ کیا عقلاً یہ ممکن ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر کوئی ایک آدھ بات تو ایسی سامنے آنی چاہیے تھی جسے سے یہ معلوم ہو کہ شریف خاندان نے کہیں سچ بھی بولا ہے۔ کیا اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کو کسی مثبت بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ اس نے ایک طے شدہ ہدف کے لیے معلومات جمع کیں؟

3۔ یہ رپورٹ شریف خاندان نہیں، نواز شریف خاندان کے خلاف ہے۔ خاندان کے دیگر افراد کو اس طرح باہر رکھا گیا ہے جیسے صرف نواز شریف ہی ہدف ہیں۔ یہ خاندان جس وحدت کا علم بردار رہا ہے، اس میں بھی یہ بات محال ہے کہ کسی ایک فرد کو الگ کیا جا سکے۔ یہ تو واضح ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پاناما تک محدود نہیں۔ اس میں اور بہت کچھ زیرِ بحث ہے جس کا تعلق پورے شریف خاندان کے کاروبار سے ہے۔ کیا صرف نواز شریف اور ان کے بچوں کو ہدف بنانا خاندان کو منقسم کرنے کی ایک کوشش ہے؟ پھر یہ کہ شہباز شریف صاحب کو جب طلب کیا گیا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ اس پر خود شہباز شریف صاحب کو بھی سوچنا ہو گا۔

4۔ اس وقت آصف زرداری صاحب اور عمران خان صاحب پر بھی سنگین الزامات ہیں۔ ابھی تک ہمارا نظامِ عدل ان کے خلاف اُس گرم جوشی کے ساتھ سرگرم نہیں ہوا جس طرح وہ نواز شریف صاحب کے خلاف ہوا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اب لازم ہے کہ اڑھائی تین سال سے زیر سماعت مقدمات کا بھی انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو۔ الیکشن کمیشن نے جس طرح عمران خان کے بارے میں نرم رویہ رکھا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ ممکن ہے وہ بے گناہ ہوں لیکن اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ یک طرفہ گرمجوشی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک مرحلہ ہے، منزل نہیں۔ ابھی عدالتِ عظمیٰ کو اس میں سے رطب و یابس کو الگ کرنا ہے۔ عدالت بالآخر جو فیصلہ کرے اسے نافذ ہونا چاہیے۔ نظام اسی طرح باقی رہ سکتا ہے۔ یہ البتہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی عمل کسی عدالتی فیصلے کا پابند نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب کسی فرد کو سماج میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اس کے ساتھ بھی قانون عام آدمی کا معاملہ نہیں کر سکتا۔ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بالآخر عوامی عدالت ہی میں ہو گا جیسے زرداری صاحب کا ہوا ہے۔ یہ بات عمران خان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے