سانپوں کا عالمی دن، مولوی اور صحافی

آج دنیا بھر میں سانپوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ سانپوں کی ساڑھے تین ہزار سے زائد اقسام ہیں ۔سارے سانپ زہریلے نہیں ہوتے ۔

کہتے ہیں کہ کچھ سانپ انسان دوست بھی ہوتے ہیں لیکن انسان کو کیا پتا ۔ انسان کو آج تک انسان، انسان دوست نہیں ملے ۔ دستیاب معلومات کے مطابق انسان نے ہی دوسرے انسان کو سانپ کہا تاہم سانپ نے کبھی بھی دوسرے سانپ کا طعنہ نہیں مارا ۔ اس سے مجھے ایک شعر بھی یاد آیا جو علامہ اقبالؒ کا نہیں ہے۔

سانپ سے دے نہ آدمی کی مثال ،
سانپ کچھ بے ضرر بھی ہوتے ہیں

میں نے اپنی زندگی میں کم ہی سانپ دیکھے لیکن سانپوں کے بارے ميں کئی کہانیاں پڑھیں، اب بھی شوق سے پڑھتا ہوں کیونکہ اس بہانے مجھے اپنے کچھ دوست یاد آجاتے ہیں ۔

سانپ کے بارے ميں مشہور ہے کہ وہ ننانوے انڈے دیتا ہے اور دو کے علاوہ باقی سب کھا جا جاتا ہے۔ میرے مطالعے کی حد تک شاید "بچے دو ہی اچھے” کا مرکزی خیال سانپوں کی ہی دین ہے ورنہ بچہ ایک بھی اچھا ہوتو بڑی بات ہے۔

ایک مولوی صاحب کے پندرہ بچے تھے، کسی نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب، حکومت نے بچے دو ہی اچھے کی مہم شروع کی ہوئی ہے اور آپ دھڑا دھڑ بچے پیدا کیے جا رہے ہیں، مولوی صاحب نے گہرے اطمینان سے جواب دیا کہ بھائی ان پندرہ میں سے "دو ہی اچھے” ہیں ۔ ویسے جو بچے ہیں، وہی اچھے ہیں.

سانپ کے کان نہیں ہوتے لیکن جب زمین پر اس کے قریب پاؤں مارا جاتا ہے تو اسے سگنل پہنچ جاتے ہیں ۔سانپ تب ڈستا ہے جب اس کی دم پر پاؤں آجاتا ہے۔ اس سے سانپ کے صبر و تحمل کا بھی پتا چلتا ہے ۔

سانپوں کے زہر سے کچھ ادویات بھی بنتی ہیں اور ان کی کھال سے بیگ وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں ۔

دیکھیں سانپوں کے بھی کتنے فائدے ہیں لیکن آپ کی ساری توجہ اس کے ڈسنے اور زہر پر ہی مرکوز رہتی ہے۔

علامہ نیاز فتح پوری نے کہا تھا کہ دنیا میں سانپوں اور مولویوں کی بے شمار اقسام ہیں لیکن سارے سانپ زہریلے نہیں ہوتے ۔

ایک بار میں نے یہ لکھا تو ایک مولوی صاحب نے مجھ پر حملہ کرتے ہوئے مولوی کی جگہ صحافی لکھ دیا ۔ میں نے اسے کہا کہ بے شک پہلے پہلے مولوی، صحافی بھی ہوتے تھے لیکن آج کل صحافی اور مولوی صرف زہریلے نہیں ہوتے ۔ یہ ڈستے بھی ہیں، کاٹتے بھی ہیں ۔ ان کا لباس بھی سانپ کی کھال کی طرح بہت خوبصورت، رنگ برنگی اور شاندار ہوتا ہے لیکن ان کی کھال سے ابھی تک کوئی چیز بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔

سانپ کی زبان دو شاخہ ہوتی ہے لیکن مولوی اور صحافی کی دو دو زبانیں ہوتی ہیں ۔ سانپ کا ڈسا بچ جاتا ہے لیکن صحافی اور مولوی کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا ۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور صحافی اور مولوی باقی انسانوں سے بھی اشرف ہیں، بعض مولوی تو "بامشرف” بھی رہے جنہیں آج تک لوگ "مشرف المخلوقات” کہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے