دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق اور پاکستان کا تقابلی جائزہ: چیلنجز اور اسباق
عراق اور پاکستان کی ایک جیسی کہانی کے کچھ مظاہر
پاکستان اور عراق دونوں جگہ عسکریت پسندی کی نوعیت اور اس کے اسباب بھی کم و بیش یکساں ہیں۔ دونوں جگہ عسکریت پسندی کا ایک نظریاتی و فکری پہلو ہے جو اپنی اساس میں مذہبی ہے۔ اس فکر کے چند بنیادی مقدمات ہیں:
• انتہاپسندی کا یہ رخ جدید ریاست کے تصور کے خلاف ہے۔
• جمہوریت کو کفر قرار دیا جاتا ہے،
• پارلیمنٹ کے ذریعےآئین سازی ایک غیر اسلامی و غیر شرعی عمل شمار ہوتی ہے۔
• کفار خاص طور پر مغربی ممالک جو نیٹو کے ذریعے مسلم ممالک پر حملہ آور ہیں کفارِ حربی اور مقاتل ہیں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے مسلم حکمران اور عوام بھی کافر حربی کی طرح ہیں۔
• ایسی مسلم ریاست کے اہل کاروں کو مرتد سمجھا جاتا ہے،
• اگر ایسی مسلم ریاست کی عوام حکمرانوں کو ایک طاغوتی نظام ’’جمہوریت‘‘ کے ذریعے منتخب کرتی ہے اور اسے ہی ٹیکس دیتی ہے، اس لیے بدعمل، مرتد، گمراہ حکومت و ریاست کو تعاون کرنے والا بھی اسلام کا دشمن ہے۔
• ملک میں شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام کے لیے ’’اسلام دشمن‘‘ حکمران اور عوام کے خلاف عسکری جہاد کرنا ہر مسلمان پر شرعا واجب ہے۔
• اس میں اُن ساری اصطلاحات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے جو اسلامی شریعت میں جہاد، قتال، خروج، بغاوت، کافر ذمی، نیز قضاوت، حدود و تعزیرات سے متعلق ہیں۔
یہ وہ چند بنیادی نظریاتی اساس ہیں جن کی بنیاد پر ریاست اور اس کے عوام کے خلاف جنگ لڑنے کو ’’شرعی‘‘ فریضہ قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی تشریح کردہ شریعت کے نفاذ اور خلافت کے قیام کے لیے ریاست اور عوام کے خلاف مسلح جہاد کی یہ فکر پاکستان کے طالبان اور اس کی مختلف ہمنوا تنظیموں کی بھی ہے اور القاعدہ و داعش سمیت عراق میں بر سر پیکار عسکری تنظیموں کی بھی۔ ان مقدمات پر بہت سے مسلم و غیر مسلم دانشوروں نے لکھا ہے ان کا تجزیہ کیا ہے ان کا متبادل اور جوابی بیانیہ پیش کیا گیا ہے (جو تفصیل طلب اور الگ مضامین کا متقاضی ہے)
عسکریت پسندی کا دوسرا رخ فرقہ وارانہ ہے، القاعدہ، داعش اور پاکستانی طالبان و ہمنوا تینوں مسلکی وابستگی کے اعتبار سے سلفی یا دیوبندی مکاتب فکر سے نکلی ہیں۔ یہ تینوں عسکری تنظیمیں اور ان کے نظریاتی دیگر دھڑے اہل تشیع مسلمانوں کو بدترین کافر اور مسلمانوں کا سب بے بڑا دشمن سمجھتی ہیں جن کے خلاف ’’جہاد‘‘ فرض ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی مسلح و عسکری تنظیموں نے عراق و پاکستان اسی بنیاد پر اہل تشیع آبادی کوبڑے پیمانے پر نشانہ بنایا ہے۔ ان تنظیموں کی جانب سے دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں سے مسیحی اقلیت کو دونوں جگہ خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان اور عراق دونوں میں غیر سرکاری مسلح گروہوں کی کئی قسمیں ہیں جن کے مقاصد مختلف ہیں۔ پاکستان میں غیر سرکاری مسلح عسکریت پسندوں کی کئی قسمیں ہیں:
• کشمیر میں مشغول مسلح جیش محمد، حرکت المجاہدین سمیت دیگر تنظیمیں جن کی ریاست سرپرستی کر تی ہے۔
• طالبان، جماعت الاحرار اور داعش جیسی تنظیمیں جو پاکستانی ریاست اور عوام کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔
• فرقہ پرست عسکری تنظیمیں جنہیں مذہبی جماعتوں یا اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔
• بلوچستان کی علیحدگی پسند عسکری تنظیمیں۔
• سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز،
پاکستان میں کشمیر میں مشغول مسلح تنظیموں کے علاوہ سب کو کچلنے کے ریاستی دعوے کیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ۲۰۰۷ سے مسلسل جاری ملٹری آپریشنز میں سوات سمیت فاٹا کے مختلف علاقوں کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا ہے، اور مختلف شہروں اور علاقوں میں ان کے تنظیمی نیٹ ورک کو ختم کیے ہیں۔ جس کی بدولت ملک میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوتی جا رہی ہے، جو کہ نہایت حوصلہ افزا امر ہے۔
اسی طرح عراق میں بھی غیر سرکاری طور پر چار طرح کے مسلح گروپس ہیں
• عراقی سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز
• مذہبی مسلح گروہ جو شیعہ یا سنی قائدین کے تحت ہیں
• عرب و کرد، اسارین اور ترکمان قبائل کے لسانی و نسلی گروہ اس میں کرد علیحدہ پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ کردستان کی پیش مرگہ فورس سب سے منظم اور طاقتور مسلح گروہ ہے ،
• ایسے مسلح دھڑے جو داعش اور حکومت دونوں کے ساتھ نہیں بلکہ وہ یا تو نسلی وقبائلی بنیادوں پر آپس لڑ رہے ہیں یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر،۔
• داعش اور القاعدہ طرح کی تنظیمیں جو عراقی افواج سے براہ راست جنگ لڑ رہی ہیں ۔
موخر الذکر کو چھوڑ کر ان تمام مسلح دھڑوں کو عراقی پارلیمان کے ایک متفقہ فیصلے کے تحت عراقی افواج کی سرپرستی میں ریگولیٹ کیا گیا ہے اور ان کی فرقہ وارانہ اور نسلی شناخت کو عراقی قومیت سے بدل دیا ہے ، اس سیاسی و انتظامی ریگولیشن کے بعد تمام مسلح دھڑوں پر مشتمل پاپولر موبلائزیشن فورس (الحشد الشعبی) بنایا گیا ہے، چنانچہ اس میں شیعہ ،سنی، کرد اور مسیحی، ترکمان، یزیدی، اسارین سمیت دیگر چھوٹے بڑے مذہبی و نسلی گروہوں کے جنگجو بھی شامل ہیں،۔ عراقی حکومت کے زیر نگرانی حشد الشعبی کی چھتری تلے یہ سارے گروہ داعش کے خلاف حالیہ جنگ لڑنے میں عراقی افواج کے ساتھ کھڑے تھے ۔ اس ریگولیشن سے ایک طرف بعض شیعہ مسلح گروہوں پر موجود ایران کا کنٹرول بہت کم ہو گیا ہے اور دوسری طرف مذہبی و قبائلی تنظیموں کا ان پر اثر رسوخ بہت کم ہو کر ان پر عراقی حکومت کا سیاسی و انتظامی کنٹرول بڑھ گیا ہے۔ اس طرح نجی عسکری دھڑوں کو عراقی قومیت کی بنیاد پر منظم اور متحد کرنے سے عراق کی دفاعی قوت بڑھ گئی ہے اور دوسری طرح فرقہ وارانہ، نسلی اور پراکسی جنگ کے امکانات بہت حدتک کم ہو گئے ہیں۔
اسی طرح عراق پر امریکی حملے کے بعد جب شیعہ و سنی دونوں مزاحمتی مسلح تنظیموں کی جانب سے امریکی فوجیوں پر حملے بڑھ گئے تو ایک منصوبے کے تحت انہیں آپس میں لڑوایا دیا گیا تاکہ عراق میں امریکی افواج پر حملے کم ہوں، یہ منصوبہ کافی حد تک کامیاب ہوا۔ ساری مسلح تنظیمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر آپس میں لڑنے میں مصروف ہو گئیں اور لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا۔ پاکستان میں اسّی اور نوّے کی دہائی میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد سمیت مختلف فرقہ وارنہ تنظیمیں تشکیل پائیں جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کو جان سے مار دیا، ان میں سے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی اب بھی تنظیمی طور پر متحرک ہیں۔ اتفاق دیکھیے دونوں جگہ ان قائدین کو بھی نشانہ بنایا گیا جنہوں نے (اپنے ہم مسلک) مسلح تنظیموں کی مخالفت کرنا شروع کی۔ چنانچہ عراق کے کئی بڑے شیعہ علماء کے قتل کا الزام خود شیعہ مسلح دھڑوں پر ہے، پاکستان میں درجنوں علماء و قائدین کے قتل کے الزامات ان کے ہم مسلک مسلح گروہوں پر ہیں۔
دونوں جگہ ایسے مذہبی نظریات کو پُرتشدد عسکریت پسندی میں بدلنے میں جعرافیائی سیاسی (جیو پولیٹیکل) محرکات بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ چنانچہ افغانستان کی سرزمین پر امریکی سرپرستی (اسلحہ و پالیسی )، پاکستان کی افرادی قوت بمع نظریاتی و عسکری ٹریننگ اور سعودی عرب کے خطیر سرمایہ کے ذریعے روس کے خلاف جنگ ، پھر طالبان کی حکومت کا قیام، پھر گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان اور عراق دونوں پر امریکی حملے اور اس میں (افغانستان میں امریکی حملے کے لیے فرنٹ لائن کے طور پر) پاکستانی حکومت کے کردار نے تشدد کی لہر کو پاکستان کی طرف موڑنے میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔ افغانستان سے ڈھائی ہزار کلومیٹر کے مشترکہ باڈر ملنے اور گزشتہ سات دہائیوں سے قبائلی علاقہ جات یعنی فاٹا کو قومی دھارے میں شامل نہ کرنے کے باعث پنپنے والے احساس محرومی کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان کو ان علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنانے کے لیے ساز گار ماحول میسر آیا، چنانچہ انہی علاقوں میں بیٹھ کر پورے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر تے رہے۔
عراق اور پاکستان دونوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان اپنے سیاسی اثر رسوخ بڑھانے کی کشمکش بھی قدرمشترک ہے۔ دونوں ملکوں میں اپنے سیاسی افکار اور نظام کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے سعودی عرب کے بادشاہت سے ہم آہنگ’’سلفی‘‘ نظریات کے فروغ کے لیے ’’تحفظ حرمین‘‘ کے نام پر اداروں اور تنظیموں پر سرمایہ کاری، ایران کے نعروں، جھنڈوں اور تصویروں اور ریلیوں پر مبنی’’انقلابی افکار‘‘ کے فروغ کے لیے کوششیں نمایاں ہیں۔ پہلے اربوں کا سرمایہ بے لگام پراکسیز (کرایے کے فسادیوں) پر خرچ کیا گیا ہے اور اب اربوں کے اسلحے اور دفاعی بجٹ باقاعدہ طور پر ریاستوں کے مابین براہ راست جنگ لڑنے کے صرف کیا جا رہا ہے۔ آپس میں لڑنے کے لیے آپس میں صف بندی کی جا رہی ہے۔
فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشکیل پانے والے سیاسی مفادات کے ایسے ٹکراؤ کو باقی مسلم ممالک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ شرح خواندگی میں کمی، فرقہ وارانہ تناو، سماجی شعور کے فقدان اور مذہبی جذباتیت نے مسلم معاشروں میں ایسے سیاسی مفادات کو ’’عقائد‘‘ کا درجہ دیدیا ہے، جن سے اختلاف پر کفر، گمراہی، طاغوت، اسلام دشمنی سمیت طرح طرح کے طعنے و فتوے دیے جاتے ہیں۔ اپنے سیاسی نظریات کے فروغ اور باہمی فساد کے لیے خرچ کیا جانے والے ایسا خطیر سرمایہ انسانیت کی بھلائی، جنگ و تشدد سے مجروح مسلم قوم کی تعمیر نو، تعلیم، تحقیق اور تخلیق کے منصوبہ جات پر لگایا جاتا تو مسلم معاشرہ کم از کم دنیا کے لیے نشان عبرت قرار نہ پاتا۔ ہم سیاسی، اقتصادی اور علمی لحاظ سے پختہ و مضبوط ہوں تو کوئی ہم پر چڑھائی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ جب قومیں کمزور ہوں تو ان پر ہی کوئی حملہ آور ہو سکتا ہے۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
اگلی قسط میں عراق و پاکستان میں گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پیش آنے والے سیاسی حالات، پالیسوں، جنگوں اور واقعات میں یکسانیت سے متعلق دل چسپ اور تلخ و شیرین چیزیں پیش کی جائیں گی۔