‘اگر چیئرمین نیب آگاہ کردیتے تو جے آئی ٹی نہ بنتی’

شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ کی دوسری جِلد کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) پہلے سے ہی شریف خاندان کی لندن میں موجود جائدادوں کی انکوائری میں مصروف ہے۔

جے آئی ٹی کو اس معلومات سے چیئرمین نیب نے آگاہ کیا۔

قانونی ماہرین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اگر چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کو لندن کے مےفیئر اپارٹمنٹس کے حوالے سے جاری نیب تحقیقات سے آگاہ کردیا ہوتا تو عدالت جے آئی ٹی بنانے اور تحقیقاتی ٹیم کو ان جائدادوں کی ملکیت کا کام سونپنے سے گریز کرتی۔

چیئرمین نیب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال نومبر میں جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے منظور کی تھیں اس وقت نیب میں شریف خاندن کی لندن جائداد کی تحقیقات کا سلسلہ جاری تھا تاہم نیب نے ان درخواستوں کا حتمی فیصلہ سامنے آنے تک اپنی تحقیقات کو روک دیا۔

اس سے قبل جب چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری 21 فروری کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تھے تو انہوں نے عدالت کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا تھا کہ نیب شریف خاندان کے چار لندن فلیٹس کی تحقیقات میں مصروف ہے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں بھی دعویٰ کیا ہے کہ اگر یہ تحقیقات مؤثر انداز میں کی جاتیں تو کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتا تھا۔

رپورٹ میں ایک جگہ یہ کہا گیا ہے کہ ‘پورا پاناما پیپرز کیس بنیادی طورپر الزامات کے گرد گھومتا ہے جن کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا، اگر اس کیس پر پیشہ ورانہ انداز میں کارروائی ہوتی تو یہ معاملہ کئی سال پہلے حل ہوگیا ہوتا’۔

قانونی ماہرین کے مطابق چونکہ عدالت کو لندن جائدادوں پر جاری تحقیقات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اس لیے سپریم کورٹ نے معاملے کی انکوائری کے لیے 6 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔

پاکستان بار کونسل کے سابق نائب چیئرمین محمد رمضان چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اگر یہ حقیقت پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے علم میں لائی جاتی تو جے آئی ٹی کی تشکیل نہ ہوتی اور عدالت نیب کو ہی تحقیقات جلد مکمل کرنے کی ہدایات جاری کردیتی۔

انہوں نے کہا کہ ‘جب تک کوئی کارروائی میں بےضابطگی کے مضبوط شواہد پیش نہ کردے اس وقت تک اعلیٰ عدالتیں کارروائی میں مداخلت نہیں کرتیں، میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ چیئرمین نیب نے پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں اپنی پیشی میں یہ بات کیوں واضح نہیں کی’۔

سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راجا عامر عباس حسن بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتیں کبھی بھی تحقیقات میں مداخلت یا ایک محکمے سے دوسرئ محکمے میں منتقلی نہیں کرتیں اور نہ ہی پہلے سے کسی معاملے پر جاری تحقیقات پر جے آئی ٹی تشکیل دی جاتی ہے۔

راجا عامر عباس نے مزید کہا کہ حالیہ تاریخ میں عدالت نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کے کیس میں تحقیقات میں تبدیلی کا حکم دیا تھا

تاہم اس تبدیلی کی وجہ ارسلان افتخار کے وکیل کی جانب سے بینچ کو نیب کی بدنیتی کے حوالے سے قائل کرلینا تھا، جس کے بعد انکوائری ایک رکنی کمیشن کے حوالے کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 2016 میں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے انکشاف کیا تھا کہ شریف خاندان آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں 4 فلیٹس کا مالک ہے۔

اس انکشاف کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا اور سپریم کورٹ میں ان جائدادوں کے منی ٹریل کی انکوائری کے لیے درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔

نومبر 2016 میں سپریم کورٹ کی جانب سے ان درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کیا گیا یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اس کارروائی کا آغاز لندن اپارٹمنٹس کی وجہ سے ہی ہوا۔

اس سے قبل ستمبر 2016 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی ایک اجلاس منعقد کیا جس میں چیئرمین نیب، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) ظفرالحق حجازی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اشرف وتھرا، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) املش خان، چیئرمین وفاقی ریونیو بورڈ نثار محمد اور سیکریٹری قانون کرامت اللہ نیازی نے کمیٹی کو پاناما پیپرز معاملے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا تھا۔

لیکن چیئرمین نیب نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھی لندن جائدادوں سے متعلق نیب کی جاری تحقیقات سے آگاہ نہیں کیا۔

دوسری جانب نیب ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں نیب کے نمائندہ عرفان نعیم منگی شریف خاندان کے خلاف التواء کا شکار انکوائری اور تحقیقات سے آگاہ تھے کیونکہ وہ نیب ہیڈ کوارٹرز میں ڈی جی آپریشنز کی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے تھے۔

ذرائع کے مطابق عرفان نعیم منگی نے جے آئی ٹی کو شریف خاندان کے خلاف نیب میں قائم تمام مقدمات، جاری انکوئریوں اور تحقیقات سے آگاہ کیا، جن میں لندن جائدادوں کے خلاف تحقیقات بھی شامل تھیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل لندن جائدادوں سے متعلق نیب دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف نے نواز حکومت گرانے کے چند ماہ بعد 27 دسمبر 1999 میں اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

3 مارچ 2000 میں اس وقت کے چیئرمین نیب نے یہ معاملہ مزید انکوائری کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو بھجوادیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے