قصور سے پشاور تک ۔ سیکس کی تعلیم اور والدین

گڑیا دس سال کی ہوگئی تھی ۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ گڑیا کے اندر آہستہ آہستہ نئی زہنی و جسمانی تبدیلیاں جنم لے رہی تھیں ۔ لیکن وہ اس سے نا آشنا تھی ۔ وہ اپنے تئیں ان تبدیلیوں کو سجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ لیکن اسے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔

یہی حال پپو کا بھی تھا۔ وہ گڑیا سے دو سال بڑا تھا۔ لیکن موروثی قد کاٹھ کی وجہ سے پندرہ سال کا لگتا تھا۔ یہی وراثت اسے دیگر زہنی و جسمانی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی منتقل ہوئی تھی۔ اسلئے اس کی پریشانی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔

گڑیا اور پپو کے ابو اپنا کاروبار کرتے تھے ۔ جب کہ امی ایک سکول ٹیچر تھیں۔ امی صبح نا شتہ بنا کر بچوں کو سکول بھجوا دیتی ۔ اور خود بھی سکول چلی جاتی ۔ سکول سے واپس آ کر امی تھوڑا آرام کرتی اور بچے موبائل یا کمییوٹر استعمال کرنے بیٹھ جاتے۔ اس کے بعد مدرسے کا ٹائم ہو جاتا ۔ واپس آ کر بچے کھیل کود کے لئے نکل جاتے۔ واپس آ کر ہوم ورک کرتے یا ٹی وی دیکھتے ۔ ابو دکان سے دن بھر کے تھکے ہارے رات کو گھر پہنچتے ۔ پپو ان کے قریب بیٹھتا یا سوال کرنے کی کوشش کرتا تو امی منع کرتی کہ باپ کو تنگ نہ کرو ۔ سارے دن کے تھکے ہارے آئے ہیں۔

پپو کا تجسس اور کچھ جاننے کا شوق وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہو رہا تھا۔ادھر ادھر کی ڈسکشن کے بعد اسے معلوم پڑا کہ اس ساری تبدیلی کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے اسے سیکس یا جنسی کہتے ہیں ۔ اس لفظ کی آگاہی کے بعد اس کے لئے تقریبا ناممکن تھا کہ وہ اتنے ’’گندے‘‘ اور ’’فحاشی‘‘ والے موضوع پر اپنے والدین سے بات کرے۔

اس کی معلومات کا پہلا ذریعہ اس کے وہ دوست تھے جو خود بھی اسی تناوٗ کا شکار تھے ۔ جب کہ دوسرے ذریعے کا آغاز تب ہوا ۔ جب اس نے انٹرنیٹ پر لفظ ’’سیکس‘‘ لکھ کر اپنی معلومات میں اضافے کی کوشش کی۔ جو بھی مواد اس کے ہاتھ لگتا گیا۔ اس نے ان کی معصومیت کو چاٹنا شروع کر دیا۔

اب چونکہ بھوک اور کسی طرح کا بھی جنسی عمل انسانی نیچر ہے ۔ اسلئے جو اس نے دیکھا ۔ اس سے جان لینے کا تجسس مزید بڑھا۔ اور اس جان لینے کے عمل نے پپو کو ایسی راہ پر لگا دیا ۔ کہ وہ غلطی کر بیٹھا۔ اور پھر اس غلطی کو چھپانے کے لئے غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا۔

گڑیا جس سکول میں تھی ۔ وہاں ایک استاد کلاس کے دوران اس کے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور اس کے جسم کے کچھ حصوں کو چھونے کی کوشش کرتا۔ گڑیا کو اس کا یہ عمل برا لگتا ۔ لیکن اس کی دل و دماغ میں کشمکش ہوتی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وہ ’’استاد‘‘ کے خوف کہ وجہ سے اسے کچھ کہہ نہ پاتی ۔ اور ماں باپ کی طرف سے رہنمائی نہ ہونے کے سبب یہی سوچتی کی میں ان سے یہ بات کہوں یا نہ کہوں۔

ایک دن اس کا استاد گڑیا کو اکیلا پا کر اس سے ایسی حرکت کر بیٹھا ۔ جو اس کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ ڈر اور خوف کی ایک اور لہر اس کے دماغ کو جھکڑلیا۔ وہ تکلیف میں بھی تھی اور ساتھ ساتھ اس کا دماغ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ کوئی غلط کام ہے اور اگر اس کا ذکر ماں باپ سے کیا تو وہ اس پر ڈانٹ ڈپٹ کریں گے۔ مکروہ استاد کا عمل گڑیا سمیت اور بچیوں کے ساتھ بھی جاری رہا۔ اور آخر ایک دن راز چھپا نہ رہا۔ جب والدین کو دونوں بچوں کے بارے میں معلوم پڑا- تو وہ پھر معاشرے سے منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے ۔ لیکن اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر بتایئے کہ کیا یہ ہمارے معاشرے کی کہانی نہیں ہے؟

گزشتہ ہفتے پشاور کے ایک سکول کا پرنسپل 80 کے قریب بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے فعل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ ادھر قصور میں گزشتہ ایک مہینے میں صرف دس کلومیٹر کے رقبے میں 5 سے لے کر 10 سال تک کی دس بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر کے پھینک دیا گیا۔ جب کہ اسی شہر میں گزشتہ سال 100 بچوں سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی عمل کے واقعات کا پتہ لگایا گیا۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق 2016 میں 4139 بچوں اور بچیوں کو مختلف طریقے سے جنسی زیادتی کا نشانہ بتایا۔ یہ تعداد 2015 سے زیادہ ہے۔ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تعداد بچوں سے زیادہ ہے۔

ان لوگوں کا عمل ایک طرف لیکن کیا والدین خود کو اس سارے عمل سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا آپ سب والدین نے اپنے بچوں کو اٗن کی عمر کے مطابق سیکس ایجوکیشن دی تھی؟ کیا آپ نے انہیں یہ اعتماد دیا تھا کہ اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہو تو وہ آ کر آپ کے ساتھ شئیر کریں؟

میرا یہی سوال ان لاکھوں پڑھے لکھے والدین سے ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے سکولوں میں داخل کروایا ہے اور دن رات ان کے لئے محنت کر رہے ہیں ۔ کیا آپ سب والدین نے اپنے بچوں کو جنسی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے؟ کیا آپ ان کی کونسلنگ کرتے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بچے سیکس کے بارے میں کس سے اور کیسی ڈسکشن کرتے ہیں؟

آخری سوال یہ کہ آپ خود بھی اس سارے عمل سے گزرے ہیں تو آپ نے سیکس کے حوالے سے معلومات کہاں سے حاصل کیں ؟ اور کیا وہ معلومات کا صحیح طریقہ تھا؟
میں جواب کا منتظر ہوں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے