سوات : ہوٹل ملکی اور غیر ملکی سیاحوں سے بھر گئے .

خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں سیاحوں کی آمد میں غیر معمولی اضافے سے سیاحتی مقامات میں موجود ہوٹل بھر گئے ہیں اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو کرائے کے مکانات میں رہائش کا انتظام کرنا پڑا ہے۔

[pullquote]کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر عبدالودود نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ سوات میں بڑی تعداد میں آنے والے سیاحوں میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں جس میں زیادہ تر خواتین ہیں اور وہ مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کالام میں 250 کے قریب چھوٹے بڑے ہوٹلز موجود ہیں جو تمام کے تمام بھرے ہوئے ہیں۔[/pullquote]

سوات میں اس برس آنے والے سیاحوں کی تعداد کے حوالے سے اگرچہ واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم اس بارے میں سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موسم گرما میں آٹھ لاکھ سے زائد سیاح سوات آئے ہیں جبکہ گذشتہ 10 دنوں کے دوران سوات میں سیاحوں کی دس ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہوئی ہیں جبکہ عید کے دنوں میں یہ تعداد بارہ سے پندرہ ہزار گاڑیاں یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔

سوات میں ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر الحاج زاہد خان نے بتایا کہ سوات سیاحوں کے لیے جنت ہے یہاں پر قائم ہوٹلز کے نرخ مری اور ملک کے دیگر سیاحتی مقامات سے پچاس فیصد کم ہیں جو کہ سیاحوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سوات میں 350 سے زائد ہوٹلز ہیں جن میں ایک رات میں تیس ہزار کے قریب سیاح قیام کر سکتے ہیں جبکہ 400 کے قریب ریسٹورانٹ ہیں جو دریائے سوات کے کنارے اور دیگر تفریحی مقامات پر قائم ہیں۔

وادی کالام کے ناظم حبیب اللہ ثاقب نے بتایا کہ امن کی بحالی کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ سیاحوں کی ایک کثیر تعداد نے سکیورٹی خدشات اور خوف کو پس پشت ڈال کر نہ صرف کرائے پر مکانات حاصل کیے ہیں بلکہ رہائشی مشکلات سے بچنے کے لیے دریائے کالام اور مہوڈنڈ کے مقام پر ٹینٹ ویلیج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جبکہ بیشتر سیاحوں نے جگہ نہ ملنے کے باعث رات کھلے آسمان تلے گزاری۔

مدین کے مقامی دکاندار احسان نے بتایا کہ علاقے میں ہوٹلوں کے علاوہ بیس سے تیس کے قریب فیملیز کرائے کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں جس سے نہ صرف ان کا روزگار بہتر ہوا ہے بلکہ سرِ شام بند ہونے والے بازار اور دکانیں اب دیر تک کھلی رہتی ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سوات میں موجود خوف کے سائے اب ختم ہوگئے ہیں۔

بحرین کے مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ دہشت گردی اور سیلاب سے متاثرہ معیشت کا پہیہ اب ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے اور علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں سے زندگی کی رونقیں بحال ہوئی ہیں۔ وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ بڑے شہروں کی طرح ان کے گاؤں کا بازار بھی رات دیر تک کھلا رہتا ہے اور سیاح بغیر کسی ڈر کے ان بازاروں کی رونقیں بڑھا رہے ہیں۔

خیال رہے کہ سوات چار سال تک طالبان کے زیر اثر رہا تھا اور پھر رہی سہی کسر قدرتی آفات اور سیلاب نے پوری کر دی تھی۔ اس دوران سیاحت کے شعبے کو بری طرح نقصان پہنچا تاہم طالبان کے زوال کے بعد یہ صنعت دوبارہ بحالی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے