“خان اور میاں”

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ خیبر پختونخواہ میں بالکل تبدیلی نہیں آئی اگر انصاف کیساتھ ماضی اور حال کا تجزیہ کیا جائے تو آپ یہ کہنے پرمجبور ہوجاوگے کہ بانسبت ماضی کی حکومتوں کے تحریک انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت نے قدر بہتر صوبہ کے نظام میں تبدیلی لائی ہے جو کسی بھی ملک و قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے واضح رہے میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمران خان اور انکی جماعت پر کڑی تنقید کرتے ہیں لیکن آج میں یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوا، اس کی اصل وجہ یہ ھے کہ بطور طالب علم صحافی مجھے کسی کی دوستی یا دشمنی اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں ذاتی پسند یا ناپسند کے سبب اچھائی کی تعریف کے بجائے تنقید برائے تنقید کرتا چلا جاٶں، پگڑیاں اچھالوں اور پھر ایسا وقت آجائے کہ اپنا غیرجانبداری کا صحافتی معیار کھو بیٹھوں؟

اس سے تو بہتر ہے کہ جو حقیقت ہے اس کے مطابق اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہا جائے خان صاحب اور انکی جماعت نے جس نعرے کی بنیاد پر 2013 میں کامیابی حاصل کی تھی اس پر پورا اترنے کی بھی کوشش کی اگرچہ وہ اس میں ناکام رہے لیکن صوبائی حکومت کو چند اچھے کاموں پر طالب علم خراج تحسین پیش کرتا ہے مگر کچھ شکوے بھی ہیں جن کا ذکرآگےچل کر ہوگا کیونکہ اب آپ وہ بہتری ملاحظہ فرمالیں جوخان صاحب اس صوبہ میں لائے،

قارائین آپ کو بتاتا چلوں کہ یقین مانیے “کےپی” کے جن سرکاری اسکولوں میں کچھ سال پہلے ویرانی ہی ویرانی نظر آتی تھی آج کل وہاں جاکر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے جنگل کو منگل میں بدل دیا گیا ہو جہاں پہلے اسکولوں میں بچے جانے سے خوف کھاتے تھے آج وہی خوشی بخوشی دوڑے چلے جاتے ہیں جن تعلیمی اداروں میں طالب علم کم تعداد میں نظر آجاتے تھے مگر اساتذہ کا نام و نشان تک نہ تھا لیکن اب وہاں اساتذہ کا وقت پر آنا و جانا معمول بن گیا ہے

سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے تمام اسکولوں میں شمسی نظام نصب کردیا گیا ہے تاکہ علم کی پیاس بجھانے کیلئے نا صرف اساتذہ بلکہ طالب بھی بنا کسی لوڈشیڈنگ کی جھنجھٹ کے تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں،جسطرح اساتذہ معمول کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں اسی طرح ہر ادارے سے وابستہ ملازم ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کیونکہ انکے اوپر منیٹرنگ ٹیموں کو لگادیا گیا تاکہ مسلسل چیک اینڈ بیلنس برقرار رہے

اسی طرز میں اسپتالوں میں بھی کافی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے تاہم اس سے قبل عام آدمی کو سرکاری اسپتالوں میں کوئی پوچھتا تک نہیں تھا جب تک مقامی وڈیرے، ایم پی اے، ایم این اے یا کسی بااثر شخصیت کی سفارش نہ ہوتی تھی لیکن اب حالات ویسے نہیں رہے اور عام آدمی کو قدر بہتر زندگی گزارنے کی نوید دیکھائی دینے لگی ہے۔ اور حال ہی میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے غریب اور مستحق خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیاگیا جس سے وہ اپنا مفت علاج کراسکیں گے.

دوسری طرف محمکہ پولیس میں بھی کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور دیکھنے کو ملی اور وہ یہ کہ ان کا رشوت لینے کا انداز بدل گیا حالانکہ اس سے پہلے ببانگ دہل بلاخوف و خطر صوبائی پولیس سرعام رشوت لیتی رہی لیکن اب وہ سلسلہ راشیہ مکمل بند تو نہ ہوسکا البتہ ماضی کی نسبت سرراہ رشوت نہیں لی جاتی بلکہ بہت ہی محتاط طریقہ کار اپنایا جاتاہے آخر میں ِذکر پٹواری برادری کا جو ماضی میں ہر فصل کے موقع پر علاقوں میں کٹے(بوریاں) بھیج دیا کرتے تھے تاکہ ہر ہر فصل پر انہیں دانہ پانی یعنی دوسری زبان میں بھتہ ملتا رہے مگر اب وہ دادا گیری بھی کچھ حدتک کم ہوگئی ہے.

اسکول سے لیکر اسپتال اور اسپتال سے لیکر تھانہ کلچر اور اس سے پٹوار خانے تک کے سفر کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں کچھ نہ کچھ نظام میں تبدیلی لائی ہے لیکن اس بڑی تبدیلی کے ھم ابھی تک منتظر ہیں جسکے بڑے بڑے دعوے کیئے گئے تھے لیکن اس تبدیلی سےعوام نے کچھ سکھ کاسانس تو لیا،اوربڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے سرکاری ملازمین آگ بگولا ہوئے ہیں،بے حدتنگ دکھائی دیتے ہیں اور اس ناراضگی کا اظہار وہ عمران خان اور انکی جماعت کو سفید گالیاں دے کر کرتے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے پہلے وہ گھروں میں آرام سے بیٹھ کر بناکوئی فرض نبھائے تنخواہیں لے رہے تھے مگر جب سے یہ حکومت آئی تو وہ حاضری کرنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ تو ہے تصویر کا ایک رخ جس میں آپ کو عمران خان کی صوبائی حکومت کی بہتر کارکردگی بتائی گئی لیکن اب ذرا انکی بدترین کارکرگی بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ ماضی قریب میں خان صاحب دعوی کیا کرتے تھے ھم خیبرپختونخواہ میں احتساب کا ایسا نظام متعارف کرائینگے جس سے کوئی بھی نہیں بچ پائے گا، پس وہ بھی آپ نے دیکھ لیا کہ جب اینٹی کرپشن کے ہیڈ جن کو پختونخوا حکومت کی جانب سے خود منتخب کیا گیا تھا جونہی اس نے حکومتی وزیروں کے خلاف بند فائلیں کھولنا چاہیں تو اسے فلفور ہٹا دیا گیا شائد وہ یہ نہیں چاپتے کہ اس صاف شفاف احتساب کے جال میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کے لوگ ہی کہیں نا پھنس جائیں؟

بات بالکل واضح ہے اگر “کےپی” میں کرپشن کے خاتمے کیلئے حقیقی احتساب کا عمل چل پڑتا تو خان صاحب کی صوبائی حکومت اسی وقت ٹوٹ جاتی اور اسی طرح وفاق میں بھی میاں صاحب نہیں چاہتے کے کوئی ایسا احتسابی عمل لایا جائے جس سے انکی ساکھ خطرے میں پڑجائے تبھی تو موصوف نے تمام تر درباریوں کو جے آئی ٹی کے خلاف متنازع بیانات اور اس کا فیصلہ نہ ماننے میں لگا دیا جو دراصل ناقص رائے میں اپنی کرپشن چھپانا ہے، ن لیگ کے کچھ لوگ کہتے ہیں ججز، جرنیل ہمارے خلاف سازش کررہے ہیں (لیکن دوسری طرف وفاقی وزیر خواجہ آصف کہتے ہیں فوج اور عدلیہ آئین کے تحت کام کررہے ہیں اور ہمارے خلاف کسی قسم کی سازش کا حصہ نہیں)

یوں محسوس ہوتا ہے شائد سازشی ڈرامہ رچاکر مسلم لیگ ن والے نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹوسےتشبیہہ دینا چاہتے ہیں،حالانکہ میاں صاحب کا مٶقف ماضی میں ان سے متعلق انتہائی حیران و افسوس کن رہا ہے اگر واقعی کہیں جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن ثبوت کے ذریعے یہ سب ثابت کیوں نہیں کرتی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، اور یہ بھی عیاں ہوجائے گا کے کون سے لوگ جمہوریت کے حامی ہیں اور کون لوگ میاں نواز شریف یا پاکستان کے دشمن؟

کبھی کبھی لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں ایک وقت تھا جب ہمارے دوست مولانافضل الرحمن صاحب اپنے بھائی کو وزیراعلی بنانے کیلئے میاں صاحب کی منتیں کرتے رہے تاہم انہوں نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی کو اس صوبہ میں حکومت بنانے دی کہ انہیں ایک صوبہ کی حکومت میں مائل کردیا جائے تاکہ انہیں وفاق کا ہوش ہی نہ رہے۔ اور وہاں بری طرح پٹ جائیں یقینا وہ بری طرح پٹ گئے مگر صرف اکیلے تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ تمام تر پارٹیاں جو 2013 کے بعد اقتدار میں آئیں اور بالخصوص میاں اور خان صاحب کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر عوامی مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ اب یوں لگتا ہے 2018 کا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا عجیب ترین الیکشن ہوگا جس میں شائد نہ مسلم لیگ ن اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے میدان مار سکے۔

مسلم لیگ ن کی پنجاب کی حکومت میں کارکردگی باقی تمام صوبوں سے کئی گنا بہتر ہے تحریک انصاف کی کےپی میں لیکن پھر ایسا کیوں کہ دونوں عوام کی نظر میں گرگئے اسکی اصل وجہ خان اور میاں کی آپسمیں لڑائی ہے دونوں نے اقتدار میں آنے سے قبل کافی دعوے کئے تھے جو ابھی تک وفا نہ ہوئے۔ اب قوم کو انتظار ہے ایک ایسے مسیحا کا جو آئے اور دعوے نہیں بلکہ خلوص نیت سے اپنی بہترکارکردگی بھی دیکھائے تاکہ خان اور میاں کو یہ معلوم ہوجائے اقتدار کی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بہتر کارکردگی میں سبقت لے جانے کی جنگ لڑنی چاہیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے