کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے خلاف فاضل عدالت کی نااہلی کے فیصلے اور اس نااہلی کی وجہ سامنے آنے کے بعد پاکستان کی تمام شادی شدہ خواتین کو میں برادرانہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ نکاح کے وقت انہوں نے جو حق مہر لکھوایا تھا، آئندہ اپنے انکم ٹیکس گوشوارے فِل کرتے ہوئے حق مہر کی وہ رقم لکھنا نہ بھولیں جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی تھی، بصورت دیگر آپ صادق اور امین نہیں رہیں گی۔

اسی طرح ایک عرصے سے مجھے اور لاکھوں دوسرے لوگوں کو فون پر یہ میسج آ رہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ منصوبے کے تحت آپ کو چالیس ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، آپ آ کر وصول کر لیں مگر میں نے اور دوسرے لوگوں نے بھی یہ رقم کبھی وصول نہیں کی۔ میں تمام دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ بھی اپنے گوشوارے بھرتے ہوئے ان چالیس ہزار روپوں کا ذکر ضرور کریں جو آپ نے وصول نہیں کئے۔ میں نے تو اپنے فاضل ماہر انکم ٹیکس دوست ربانی صاحب کو بتا دیا ہے کہ میرے گوشواروں میں وہ اس رقم کا ذکر کرنا نہ بھولیں! یہ سب کچھ کرنابہت ضروری ہے کیونکہ میں نے جے آئی ٹی کی جو رپورٹ پڑھی ہے اس کے بعد تو میں بے شمار سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہوں۔ اس رپورٹ کی مثال ان دو دوستوں جیسی ہے جو ایک نوکری کے لئے انٹرویو دینے گئے، ان میں سے ایک پاس ہو گیا اور دوسرے کو فیل کر دیا گیا۔ فیل ہونے والے سے پوچھا گیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں کتنے لوگ مرے تھے، اس نے کہیں پڑھا ہوا تھا، چنانچہ اس نے فوراً تعداد بتا دی۔ اس پر انٹرویو لینے والے نے کہا ’’ٹھیک ہے، اب ان سارے مرنے والوں کے نام پتے لکھوائو۔‘‘

نواز شریف فیملی سے بھی اسی طرح کے سوالات پوچھے گئے چنانچہ میاں صاحب کو یونہی تو نااہل قرار نہیں دیا گیا اور ان کی فیملی کے خلاف نیب میں ریفرنس بھی تو یونہی نہیں بھیجا گیا۔ ان دنوں ایک بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ بسا اوقات وکیلوں کو اپنا کلائنٹ بچانے کے لئے جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور جج حضرات سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہے کیونکہ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی!‘‘ تفنن برطرف، صورتحال یہ ہے کہ عوام اور خواص کی بہت بڑی تعداد نے نہ صرف یہ فیصلہ ہضم نہیں کیا بلکہ اس حوالےسے اور بھی بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ مثلاً لوگوں کو علم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کے جس بنچ نے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کیا ہے ان پانچ میں سے چار ججوں نے جنرل مشرف کے پی سی او پر حلف اٹھایا تھا، اس کا علم تو ان کا فیصلہ سنانے کے بعد ہوا۔

میں نہ قانون دان ہوں اور نہ سیاسی تجزیہ نگار، میں ادب کا ایک طالب علم ہوں چنانچہ بے ادبی میں بھی ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہوں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ فاضل ججوں نے فیصلہ نواز شریف کے خلاف دیا ہے حالانکہ یہ فیصلہ پاکستان کے واحد صادق اور امین رہنما عمران خان اور میڈیا کے ان فصلی بٹیروں کے خلاف گیا ہے جو گلا پھاڑ پھاڑ کر میاں نواز شریف کو کرپٹ قرار دے رہے تھے اور ان پر کھربوں روپے ہڑپ کرنے کے الزام عائد کر رہے تھے مگر ’’وچلی گل‘‘ صرف اقامہ کی نکلی۔ کھربوں روپوں کی کرپشن کی بجائے الزام یہ ثابت ہوا کہ میاں صاحب دبئی میں اپنے بیٹے کی فرم کے چیئرمین تھے اور کاغذوں میں ان کی تنخواہ پاکستانی ڈیڑھ دو لاکھ روپے دکھائی گئی تھی، جو میاں صاحب نے وصول ہی نہیں کئے چنانچہ انکم ٹیکس گوشوارے میں اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ فاضل عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ اگرچہ وزیراعظم نے رقم وصول نہیں کی تھی اس کے باوجود گوشوارے میں اس کا ذکر ہونا چاہئے تھا، چونکہ نہیں کیا لہٰذا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور یوں انہیں وزارتِ عظمیٰ کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔

اس فاضلانہ فیصلے پر صرف پاکستان نہیں، دنیا بھر کے قانون دان اور صف اول کے بین الاقوامی شہرت کے حامل اخبار نویس فاضل عدالت کے اس فاضلانہ فیصلے کی جس طرح ’’بے ادبی‘‘ کر رہے ہیں، اس کے بعد میری طرف سے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس فیصلے کے بعد کم از کم مجھ سے عمران خان کا اترا ہوا چہرہ دیکھا نہیں جاتا کیونکہ جب ان کا چہرہ اترتا ہے تو کچھ اور زیادہ اتر جاتا ہے۔ وہ تو انہیں ایک دوسرا زرداری ثابت کرنا چاہتے تھے اور یوں انہیں سیاست کے منظر نامے سے ہمیشہ کے لئے ہٹا کر، وہ جگہ خود لینے کے لئے سوچ رہے تھے، مگر افسوس وزارتِ عظمیٰ تو ان کے مقدر ہی میں نہیں۔ اب تو ’’عزتِ سادات‘‘ بھی جاتی رہی۔ ایک جگہ نیاز دینے کے لئے دیگ پک رہی تھی، بہت سے لوگ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے تھے اور کچھ تو مارے مسرت کے بھنگڑا بھی ڈالنے لگے۔ جب دیگ پک گئی، تو نیاز دینے والے نے انہیں مخاطب کیا اور کہا ’’تم جتنے چاہو بھنگڑے ڈالو میں یہ دیگ پتوکی تقسیم کرنے کے لئے جا رہا ہوں‘‘ میں اس افواہ کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ ان بھنگڑا ڈالنے والوں میں عمران خان بھی شامل تھے!

فاضل عدالت نے جب نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنایا تو پہلے تو پاکستانی عوام سکتے میں آ گئے اور پھر انہیں بہت غصے میں دیکھا۔ اس روز میں نے شہر کا چکر لگایا تو لوگوں کو سراپا احتجاج پایا۔ تین چار ٹی وی چینلز، جن میں میاں صاحب کے خلاف زہر اگلنے والے چینل بھی تھے، لوگوں کی رائے لی تو وہ سب کے سب بھرے بیٹھے تھے۔ مجھے فیصلہ کا دکھ تو تھا ہی، مجھے اس بات پر بھی دلی صدمہ ہوا کہ سپریم کورٹ ہمارا ایک مقدس ادارہ ہے، اس کی عزت و تکریم پر کبھی حرف نہیں آنا چاہئے مگر بدقسمتی سے ماضی میں مسلسل اس حوالےسے سوالیہ نشان سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان کی آئرن لیڈی عاصمہ جہانگیر نے جو کچھ کہا ہے فاضل عدالت کو اس پر ناراض ہونے اور اسے توہین عدالت سمجھنے کی بجائے سپریم کورٹ کی عزت و حرمت پر کبھی حرف نہ آنے کا عہد کرنا چاہئے۔ آخر میں نظیر صدیقی مرحوم کا ایک شعر ؎

ہے فیصلہ خود باعثِ توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے