فوج اور جمہوریت

ملک کے محافظوں کا یہ شکوہ درست ہے کہ سیاستدان کرپٹ اور نااہل ہیں لیکن سیاستدانوں کا یہ شکوہ بھی غلط نہیں کہ ان کو اقتدار تو مل جاتا ہے لیکن اختیار نہیں ملتا ۔ محافظوں کا یہ موقف حق بجانب ہے کہ سیاستدان احتساب کا کوئی نظام نہیں بناسکے لیکن سیاستدانوں کا یہ موقف بھی غلط نہیں کہ جب جرنیل اور جج اپنے آپ کو احتساب کے دائرے میں نہیں لانا چاہتے تو پھر صرف ایک یا دو طبقات کا احتساب کیسے ہو ۔ محافظوں کا یہ گلہ بجا ہے کہ سیاستدان قومی اداروں کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں لیکن سیاستدانوں کا یہ گلہ بھی بالکل بجا ہے کہ اس ملک میں آج انتہاپسندی ، دہشت گردی اور لسانیت کا جو زہر پھیل گیا ہے کہ وہ فوجی ڈکٹیٹروں یا پھر قومی سلامتی کے عسکری تصورات کا عطیہ ہے۔ محافظوں کی یہ شکایت بجا ہے کہ جن سیاستدانوں کی صفوں میں الطاف حسین جیسے لوگ موجود ہیں ، ان کی حب الوطنی پر شک کیا جاسکتا ہے لیکن سیاستدانوں کی یہ شکایت بھی غلط نہیں کہ الطاف حسین جیسے لوگوں کو ایک فوجی جرنیل نے متعارف کرایا اور دوسرے نے ان کو گلے لگایا ۔ غرض آج ملک جن مسائل سے دوچار ہے تو ان کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں بلکہ دونوں ہیں اور اگر یہ ملک بچارہا ہے اور اس نے کچھ نہ کچھ ترقی کی ہے تو اس میں بھی دونوں کا کردار ہے ۔

محافظین کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ اگر ملک میں ہر طرف کرپشن کا غلغلہ ہو تو ملکی سلامتی کے لئے جانوں کے نذرانے دینے والوں کے عزم پر اثر پڑتا ہے لیکن سیاستدانوں کا یہ عذر بھی کم وزنی نہیں کہ جس ملک میں وزیراعظم اپنی ایجنسیوں سے خوفزدہ ہو ، وہ اس ملک کی صحیح معنوں میں قیادت نہیں کرسکتا۔ موجودہ دور کی مثالیں لے لیں تو اس میں دو رائے نہیں کہ میاں نوازشریف نے اپنی ٹیم بنانے میں میرٹ کی پاسداری نہیں کی لیکن جواب میں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا سکتا کہ جمہوری حکومت کے داخلہ، دفاع اور خارجہ وزیروں کو نئے خطوط پر پالیسی بنانے نہیں دی گئی۔ میاں نوازشریف نے اگر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بنانے کی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا تو ان کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بچا بھی لیا گیا ۔ نوازشریف نے اگر یہ غلطی کی کہ ہندوستان کے ساتھ روایتی چینلز کی بجائے ذاتی بنیادوں پر معاملات آگے بڑھانے کی کوشش کی تو دوسرے فریق نے بھی ان کو اپنی سوچ کے مطابق ہندوستان کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے نہیں دئیے ۔ اگر نوازشریف کا رویہ فوج اور اس کے اداروں سے متعلق درست نہیں رہا تو اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف اپنے ہی اداروں کی بعض شخصیات نے عمران خان اور طاہرالقادری سے دھرنے دلوادئیے ۔ اگر سویلین خفیہ اداروں نے عسکری اداروں کی مخبری کی تو عسکری مخبر اداروں نے بھی وزیراعظم اور اس کے وزراء کی مخبری کی ۔

نوازشریف اگر عسکری اداروں سے شاکی رہے تو عسکری اداروں نے بھی کبھی ان پر اعتماد نہیں کیا۔میاں نوازشریف اگر جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل راحیل شریف اور اب جنرل قمر باجوہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہ رکھ سکے جس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کا رویہ غلط ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ محمد خان جونیجو سے لےکر میرظفراللہ جمالی تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نوازشریف تک کسی بھی منتخب وزیراعظم کو وقت پورا کرنے نہیں دیا گیا ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ دوسری جانب بھی ہے ۔اگر مسلم لیگ(ن) کے پاس سیاست میں فوج کی مداخلت کی مخالفت کا اس بنیاد پر جواز نہیں کہ ماضی میں وہ خود وہی کام کرتی رہی جو اس وقت تحریک انصاف کررہی ہے تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی، اے این پی ، بی این پی ، جماعت اسلامی ، جے یو آئی اور ایم کیوایم پاکستان بھی فوجی اداروں کے سیاسی رول کی ناقد ہیں۔ علیٰ ہذہ القیاس ۔ غلطی میاں نوازشریف کی تھی یا پھر دوسرے فریق کی طرف سے زیادتی ہوئی لیکن بہر حال یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کے پورے دور حکومت میں اداروں کے مابین تنائو کی کیفیت ہی رہی اور اب میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسٹیبلشمنٹ نے کیا یا پھر اس کی ایما پر ہوا ۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جیسے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کے حق میں نہیں لیکن میاں نوازشریف ، ان کی بیٹی مریم نوازشریف اور ان کے قریبی مشیر سخت موقف لے کر تصادم کے حق میں ہیں ۔

ایسے عالم میں جبکہ میاں نوازشریف خود کسی حلف کے پابند نہیں رہیں گے اور حکومت ان کے پنجے میں ہی رہے گی ، زیادہ خطرناک یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اب میاں صاحب اور ان کی پارٹی فوج اور ا س کے اداروں سے متعلق زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں ۔ جواب میں اگر فریق ثانی بھی سختی دکھائے تو حالات نوازشریف کے دور سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتے ہیں ۔ سردست پیپلز پارٹی مسلم لیگ(ن) سے ناراض ہے لیکن چونکہ پیپلز پارٹی اور قوم پرست جماعتو ں کی سوچ یہ ہے کہ فوج ان کا بھی راستہ روکنا چاہتی ہے اس لئے جلد یا بدیر ان جماعتوں کا بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ایکا ہوسکتا ہے ۔ یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ عدلیہ ثالث کا کردار ادا کرکے سول ملٹری تنائو کو تصادم کی طرف نہیں جانے دے گی لیکن بدقسمتی سے اب کئی حوالوں سے عدلیہ کا کردار بھی متنازع بنتا جارہا ہے اور شاید مزید وہ سیاسی تنازعات یا اداروں کے ٹکرائو کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے ۔ عدلیہ کے بعد نظریں میڈیا کی طرف اٹھتی تھیں لیکن شومئی قسمت گزشتہ چند سالوں میں میڈیا کو جس طرح تقسیم کیا گیا ، اس کی وجہ سے اب وہ قومی معاملات میں خیر کے کسی کام کے قابل ہی نہیں رہا۔ایک طرف میڈیا کی کریڈیبلیٹی خاک میں مل گئی ہے تو دوسری طرف وہ ہمہ وقت سول ملٹری تنائو کو تصادم میں بدلنے میں مگن رہتا ہے ۔ باقی عوامل نہ بھی ہوں تو صرف موجودہ میڈیا بھی سول ملٹری تعلقات کو خراب کرنے کے لئے کافی ہے ۔

یوں نوازشریف کی رخصتی کے بعد بھی سول ملٹری تعلقات میں ٹھہرائو نظر نہیں آتا بلکہ تنائو کاٹکرائو کی طرف جانا یقینی نظر آتا ہے ۔ ان حالات میں موجودہ عسکری قیادت کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کے باوجود مارشل لا کا خطرہ سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ لیکن اگر اس انتہائی اقدام کی نوبت نہیں بھی آتی تو بھی موجودہ صورت حال ملکی سلامتی کے لئے نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہے ۔ ایسے عالم میں جبکہ ملک شدید ترین اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے ، سول اور عسکری اداروں کے مابین ہم آہنگی کا ہونا ازحد ضروری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ آئینی اور انتظامی اسٹرکچر میں ہم آہنگی لائی جاسکتی ہے؟ ۔ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے ۔ یہ ہم آہنگی فوجی حکومتوں میں آسکی ، جمالی اور جونیجو کی طرح کنٹرولڈ جمہوری حکومتوں کے دور میں آسکی ، مارشل لائو ں میں آسکی ، پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں آسکی اور نہ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں ۔ یہ ہم آہنگی نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام سے لائی جاسکی اور نہ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے دفاع و قومی سلامتی کی تشکیل سے ۔ میرے نزدیک یہ نیک مقصد اب آئینی اسٹرکچر میںجوہری تبدیلی اور سول ملٹری تعلقات کے لئے نئے رولز آف گیم بنانے کے بغیر ممکن نہیں ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ تبدیلی کیا ہو؟۔ ایک رائے یہ ہے کہ فوج کو آئینی رول دینے سے مسئلہ حل ہوگا۔ ایک اور تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ جمہوری حکومتوں کا دورانیہ بھی چار سال کردیا جائے اور ہر آرمی چیف ریٹائرمنٹ کے بعد صدر مملکت بنے ۔ ایک اورتجویز یہ دی جاتی ہے کہ دفاع، خارجہ اور داخلہ کے محکمے فوج کے سپرد کردئیے جائیں ۔ میرے ذہن میں بھی کچھ تجاویز ہیں لیکن ان کی تفصیل سامنے لانے سے قبل میں آج اس تجویز پر اکتفا کرتا ہوں کہ فوری طور پر سول ملٹری قیادت کا ایک کمیشن بنادیا جائے جو نہ صرف سول اور عسکری اداروں کے باہمی معاملات کی نگرانی کرے بلکہ مستقل بنیادوں پر سول ملٹری تعلقات کے لئے نئے رولز آف گیم وضع کرنے کے لئے تجاویز دے ۔ اس کمیشن میں فوج کی طرف سے سابق آرمی چیفس اور سابق ڈی جیز آئی ایس آئی (جو زندہ ہیں ) کو ممبر بنایا جائے ۔ سول سائیڈ سے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹسز(جو زندہ ہیں ) کو ممبر بنادیا جائے۔ اسی طرح سابق اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ ممبر ہوں ۔ جبکہ سول سوسائٹی اور سیاستدانوں کے چند نمائندے بھی ممبر ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے