فاروق حیدر،اہل کشمیراورغدارسازفیکٹریاں

’’وہ ذلیل آدمی جو آزادکشمیر کا وزیراعظم ہے ‘‘۔۔۔۔۔۔۔یہ الفاظ ہیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راولپنڈی کے ایک سیاستدان شیخ رشید کہتے ہیں کہ اس فاروق حیدر کو سی ایم ہاؤس سے نکال کر جو تیاں مارو (آزادکشمیر میں سی ایم نہیں پی ایم ہاؤس ہے) ۔۔۔۔بول الیکٹرانک چینل کے ڈاکٹر عامر لیاقت فرماتے ہیں ، کون ہے یہ شخص؟ ۔۔۔۔۔۔کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہے کون؟ ۔۔۔۔۔۔۔غدار۔۔۔۔۔غدارہے ۔۔۔۔۔۔ عامر لیاقت نے مزید فرمایا میں’’ تُو‘‘ کر کے بات کر رہاہوں’’ُ تُو‘‘ کر کے۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری ( فاروق حیدر ) اوقات کیا ہے کہ تُو کہتا ہے الحاق کے بارے میں سو چیں گے ۔ ہم تیرے بارے میں کیوں نہ سوچیں ۔۔۔۔۔تجھے کالی کوٹھڑی میں کیوں نہ بند کریں ۔۔۔۔ تجھ پر غداری کا مقدمہ قائم کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عامر لیاقت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ لوگ نواز شریف کے پالتوکتے ہیں۔ جو نواز شریف کے کہنے پر بھونکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ آدمی ( فاروق حیدر )میرے نزدیک آدمی نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں وہ ہوش حواس میں نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دن کو بھی وہ ٹن حالت میں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پدی اور پدی کا شوربا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان(کشمیری )کی اوقات ان کی شکلیں ان کی کرتوتیں یہ والی کہ یہ باتیں کریں کہ ہم کس سے الحاق کریں ۔۔۔۔۔کان سے پکڑا کر ایک صوبیدار میجر ان کو اقتدار سے اتارنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ان کے اخلاق ان کے کردار ان کی مینٹلیٹی آپ دیکھیں یہ تو کونسلر بننے کے لائق نہیں ہوتے جو آج صدر اور وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں ۔ ۔۔۔۔ میں خبردار کروں گا انہیں کہ اپنی اوقات کے اندر رہو، اپنی حیثیت کے اندر رہو اپنے پاجامے کے اندر رہو یہ جو تمہارا پاجاما ہے نا اس کے اندر رہ کر بات کرو۔

یہ طوفان بدتمیزی یہ ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی تذلیل، بے عزتی یہ ریاست کے وزیراعظم کی توہین ۔۔۔۔۔کتے جیسے حقیر ترین لفظ کا استعمال ۔۔۔۔۔ یہ گالیاں ۔۔۔۔عمران خان کی طرف سے ذلیل کا لفظ اور وہ بھی اسطرح کہ یہ جو ذلیل شخص آزادکشمیر کا وزیراعظم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیوں ہوا؟ یہ مائنڈ سیٹ ہے کیا ؟ کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے فاروق حیدر اور ریاست کے لوگوں کو اپنے خاص لوگوں کے ذریعے اوقات اور حیثیت یاد دلائی ۔
30جولائی کو فاروق حیدر کا بیان الیکٹرانک چینل کی زینت بنا۔۔۔۔۔۔ فاروق حیدر کے الفاظ تھے ۔۔۔۔۔ مجھے سوچنا پڑے گاکہ بحیثیت کشمیری میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت جوڑوں۔

فارو ق حیدر پاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر کے وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے سربراہ ہیں۔انہوں نے پاکستان کے عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیاکہ کس طرح منتخب وزیراعظم کو تنخواہ نہ لینے کے جرم میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ غیر جمہوری قوتیں جمہوریت پر حملہ آور ہوتی ہیں عوام کے مینڈیٹ کو بلڈوزکرنے والوں کے نمائندے عمران خان۔۔۔۔۔۔۔علامہ اقبال کے پاکستان کی جو شکل سامنے لا رہے ہیں مجھے بتائیں کہ میں کس ملک کے ساتھ اپنی قسمت جوڑوں۔۔۔۔۔۔فاروق حیدر کا یہ جملہ شکوہ تھا ۔ غیر جمہوری عناصر اور ان کے نمائندوں سے ۔۔۔۔۔۔۔جسے غیر جمہوری قوتوں نے ناپسند کیا اور اگلے چند گھنٹوں میں فاروق حیدر غدار ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے ذلیل کہا گیا،کتا کہا گیا ۔جو جس کے منہ میں آ یا اُس نے کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔پھر غیر جمہوری عناصر کی ہدایت پر آزادکشمیر کے وزیراعظم اور یہاں کے لوگوں کی تذلیل کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے محترم فاروق حیدر کی ذات میں کوئی دلچسپی نہیں ان کی غیر متوازن گفتگو اکثر ان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔البتہ ان کا خاندان جتنا کشمیری ہے اتنا ہی پاکستانی ہے اُن پر شک کرنا نامناسب ہے۔

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایوب خان کے دور میں آزادکشمیر کو کے ایچ خورشید کے مطالبے پر بطور ریاست تسلیم کیا جارہا تھا تو فاروق حیدر کے والد گرامی راجہ حیدر خان ایک پاکستانی کی حیثیت سے سامنے آئے اور اس کی شدید مخالفت کی۔ مبینہ ذرائع کے مطابق انہوں نے 500سے زائد پیغامات بجھوائے کہ ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے بعد فیصلہ تبدیل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔اورآج اس حیدر خان کا بیٹا غدار ٹھہرایا جارہا ہے ؟؟؟؟ فاروق حیدر خان سے میرا نہ تو نظریاتی تعلق ہے نہ قبیلائی نہ سیاسی وہ تحریک آزادی کشمیر کی وکالت کرتے ہیں ہم قومی آزادی کی تحریک کے پلیٹ فارم سے قلمی اور سیاسی محاذ پر اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ فارو ق حیدر الحاق پاکستان کے بیس کیمپ کے وزیراعظم ہیں اُن کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اُن حقائق کاادراک بھی ضروری ہے جو کچھ 70سال میں ہمارے ساتھ ہوا۔ریاست جموں کشمیر کی ایک سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کی پاکستان سے بے لوث محبت کے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مسلم کانفرنس جماعت اسلامی آزادکشمیر اور بھارتی مقبوضہ کی پاکستان سے یک طرفہ محبت کا احترام 1947میں کیا گیا نہ آج کیا جارہا ہے ۔

اگر ریکارڈ دیکھا جائے ،حقائق کو تلاش کیا جائے تو جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے مصداق ایک طویل داستان سامنے آئے گی ۔ہمارے سامنے چند سوال ہیں ۔اگر فاروق حیدرکا مبینہ جملہ غداری کے زمرے میں آتاہے تو کیااس طرح کی باتیں بلکہ عملی طور پر ایسا کرنے والے دیگر لو گ اسی فہرست میں شمار ہوں گئے؟ جس میں فاروق حیدر کو شمار کیا جارہا ہے ۔پاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر کی بین الاقوامی اور پاکستان کے آئین کے مطابق کیا حیثیت ہے ؟ فاروق حیدر نے جس آئین کے تحت ایک سال قبل حلف اٹھایا اس کی روشنی میں فاروق حیدر کے بیان پر ان کی پوزیشن کا تعین ان تمام سوالات کا جواب جاننے کے لیے سب سے پہلے ہم تنازعہ کشمیر کو دیکھتے ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر 2لاکھ 22ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اس کا کچھ حصہ پاکستان کے پاس ہے کچھ ہندوستان کے پاس اورکچھ چین کے پاس۔ 1947سے تین دن قبل مہاراجہ ہری سنگھ (مہاراجہ ریاست جموں کشمیر)نے ہندوستان اور پاکستان کے سامنے معاہدہ جاریہ کی تجویز رکھی جسے پاکستان نے قبول کیا اورہندوستان نے اُس پر خاموشی اختیار کی۔ 15اگست 1947کو پاکستان اورریاست جموں کشمیر کے درمیان معاہدہ جاریہ ہوتا ہے ۔یہ معاہدہ 22اکتوبر قبائلی حملے کی جہ سے ٹوٹ گیا ۔ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ 26اکتوبر 1947کو ہری سنگھ نے اس سے معاہدہ کیا ؟اب میرا سوال ہے کہ معاہدہ جاریہ توڑ کر قبائلی حملے کے پشت بان اور اُن کے مدد گار کیا کہلائیں گئے؟

غدار یا محب وطن ؟جب پوری ریاست جموں وکشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہوگی ۔۔۔۔۔معاہدہ جاریہ (وہ معاہدہ جو ملک کشمیر اور برطانیہ کے درمیان تھا) پاکستان کے ساتھ ہوگیا ۔ 24اکتوبر کی حکومت پھر مسلح جدوجہد میں پہل ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم اور اس پر بھارت کے قبضے کا باعث بنی اس کے فرنٹ لائن قیادت قومی مجرم ہے یا ہیرو۔۔۔۔۔۔۔؟

5جنوری 1949ء کی قرار داد میں پاکستان کے اس وقت کے حکمران لکھ کردے آئے کہ کشمیر یوں کے پاس صرف پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کا آپشن ہے بلکہ پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ختم کر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا آپشن کو قبول کیا ۔۔۔۔۔۔وہ جو بھارت سے الحاق کے آپشن کے دستخطی ہیں وہ ہیرو ہیں اور فاروق حیدر غدار ۔۔۔۔۔۔؟ پھر 5جنوری 1949کی قرارداد میں پاکستان کے حکمرانوں نے تسلیم کیا کہ وہ اپنی ساری فوج اور لوگ کشمیر سے نکالے گا جبکہ بھارت اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر رائے شماری ہوگی ۔کیا عمران خان ، ڈاکٹر عامر لیاقت اور فیاض الحسن چوہان بتائیں گے کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ کیا ہے ؟ ہم کشمیر ی فریق اول ہو نے کے باوجود اس میں شامل نہیں ۔وہ پاکستانی حکمران جنہوں نے ریاست جموں کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگوں کی ملکیت پانی پر ہندوستان کی ملکیت تسلیم کی ۔۔۔۔۔وہ کون تھے ؟ شملہ معاہدہ ۔۔۔۔۔۔۔93ہزار گرفتار فوجیوں کی رہائی کے لیے کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔قیمت کشمیر کی لگی کیونکہ ہماری حیثیت ہی یہی تھی ۔

28اپریل 1949کو طاقت کے زور پر آزادکشمیر حکومت سے معاہد کراچی کر کے گلگت بلتستان لے لیا گیااوراس کے ساتھ ریاست کے لوگوں سے قومی آزادی کی تحریک بھی چھین لی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔1947سے 1974تک رولز آف بزنس وزارت امور کشمیر کی خواہش پر نافذ کیے جاتے رہے اور پھر انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے متصادم ایکٹ 1974مسلط کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔آج جدید دنیا میں غلاموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اس ایکٹ کے تحت آزادکشمیر کے لوگوں کے کوئی حقوق نہیں ۔۔۔۔۔۔

فاروق حیدر نے ایک سال قبل ایکٹ 1974کے تحت حلف اٹھایا تھا سواُن کا جملہ معترضہ ناپسند کیا گیا اور فاروق حیدر کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے لوگوں کو اُن کی اوقات یاد دلائی گی۔ پی ٹی آئی فیاض الحسن چوہان کی یہ بات درست ہے کیاپدی اور کیا پدی کا شور با ،پدی ایک چھوٹے سے پرندے کا نام ہے جس کا گوشت 20گرام سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے آزادکشمیر کے حکمرانوں کی پاکستان کے آئین کے تحت کوئی حیثیت نہیں کیونکہ آزادکشمیر پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان کا حصہ نہیں ۔پاکستان سے ہمارا انتظامی رشتہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے طے کیا گیا بعدازاں رولز آف بزنس اور پھر ایکٹ 1974میں ہم سے تمام حقوق لے لیے گئے۔ ہم شناخت سے محروم ہیں ۔وقتی شناخت اور سفری وستاویزات کے لیے پاکستانی یا سپورٹ اور شناختی کارڈ استعمال کرتے ہیں اُس پار لوگ ہندوستانی یاسپورٹ استعمال کرتے ہیں جب شناخت نہ ہو حیثیت نہ ہو۔۔۔۔۔۔تو اس طرح کے جملے استعمال ہوتے ہیں ۔ہم پاکستان کی کالونی ہیں یہ ہمیں کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے ۔غلاموں کے سردار کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے جتنی غلاموں کی ہوتی ہے ہم تو ایسے سلوک کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔اگر غیرت کا فقدان ہو عزت سے زیادہ جان پیاری ہو پیٹ کی ہوس ضمیر سے طاقتور ہو تو ایسا سلوک بُرا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔میں زعم میں مبتلا تھا خود کو مہذب سمجھنے لگا تھا اپنی کشمیر ی شناخت پر اتراتا تھا۔ اللہ بھلا کرئے عمران خان ،شیخ رشید ،ڈاکٹر عامر لیاقت اور فیاض الحسن چوہان اور اُن کی ہدایت کاروں کا کہ انہوں نے مجھے میری اوقات یا ددلائی ۔۔۔۔۔مجھے بتادیا کہ میرے پاجامے کا سائز کیا ہے۔

اگر میرا وزیر اعظم بھونکنے والا کتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں بھی بھونکنے والا کتاہوں وہ لاکھوں لوگ بھی جنہوں نے فاروق حیدر کوووٹ دیا اور جن کا فاروق حیدر وزیراعظم ہے وہ بھی اُسی فہرست میں شامل ہیں ۔میرابس چلے تو عمران خان کا ماتھا چوموں ،ڈاکٹر عامر لیاقت اور فیاض الحسن چوہان کے سرپرپَپی کروں انہوں نے مجھے اور میری قوم کو اُن کی حیثیت بتا دی ۔ایک ریاست جو اپنے مفاد کے لیے خود قائم کی گئی ہو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے وہاں ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ہو اُس کا جھنڈا ہو وہاں صدر اور وزیر اعظم کے عہدے موجود ہوں جس ریاست کا دنیا کا سب سے منفرد قومی ترانہ بھی ہو کہ ’’پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں عزت حرمت حکم قرآن ‘‘ہمیں اس سلسلہ میں آج تک حکم قرآن تو نہیں ملا البتہ عزت وحرمت کی اچھی طرح سمجھ آگئی ہے

پوری تحریک آزادی کشمیر آپ کے پاس ہے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان آپ کے پاس ہے ،اس خطہ میں حکومتیں آپ کی مرضی کے تحت بنتی اور ٹوٹتی ہیں اُس پار جاری تحریک میں بندوق آپ مرضی کی تابع ہے ،ہائیڈرل پراجیکٹ آپ کے پاس ہیں آزادکشمیر کا میڈیا آپ کے پاس ہے آپ کی وفاداری پر کوئی دستخط نہ کریے وہ آزادکشمیر میں الیکشن نہیں لڑ سکتا، ہمارے صدر وزیر اعظم وزراء آپ سے وفاداری کا حلف اُٹھاتے ہیں ، ہمارے تمام دریا آپ کی ملکیت ہیں۔تمام وسائل تمام حقوق تمام اختیارات آپ نے لے لیے مگر ہم نے اُف تک نہیں کی اور اب مجھے ،میرے وزیر اعظم اور میری قوم کو گالیاں دی جارہی ہیں . . .ایسا نہ کیا جائے

1947کے بعد مشتاق گورمانی کے پاس آزادکشمیر کے معاملات ہوتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے اپنی دھوتی اُٹھا کرکہا تھا یہ ہے مسئلہ کشمیر تب بھی ہمارے سیاست دان مشتاق گورمانی کی تعریف کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔سردار اعتیق صاحب جو مسلم کانفرنس کے صدر ہیں جس عہدے پر آج کل فاروق حیدر بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی دومرتبہ اس عہدے سے لطف اندوز ہو چکے ہیں انہیں بھی سے لاجواب انتخاب اور اُس پر فخر کرنے پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُن کے فیصلے کو سراہتا ہوں کہ وہ فاروق حیدر کے خلاف مقدمہ دائر کرنے جارہے ہیں لیکن ساتھ ایک گزار ش ہے کہ ایک ایسا ہی مقدمہ اُن پر بھی بنتا ہے کیونکہ محترم سردار عبدالقیوم صاحب بھی بعض اوقات فاروق حیدر کی طرح متبادل آپشن کی بات کردیا کرتے تھے

ایک مشورہ غیر جمہوری مائنڈ سیٹ کے لیے تاریخ سے سیکھیں 70سال پر مشتمل سفر کا جائز ہ لیں ،عقل کل کے جال کو توڑیں ۔۔۔۔۔۔حقائق کو تسلیم کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جبر نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔۔۔اب گولی سے لوگ یرغمال نہیں ہوتے ۔۔۔۔ختم کریں یہ نفرتوں کا کھیل ،شک کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غداری کا الزام لگانا ۔۔۔۔۔توہین کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماردینا ۔۔۔۔۔۔مروادینا ۔۔۔۔۔حق نہ دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب کچھ کنٹرول میں رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگوں کو لوگوں سے مذہب مسلک علاقے اور اقتدار کے لیے لڑانا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب کچھ اجتماعی خوشحالی اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے