نواز شریف کا جی روڈ مشن مکمل : گھر نہیں بیٹھوں گا ، نظام کو بدلنے کا پروگرام 14 اگست کو دوں گا.

سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے والے نواز شریف اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس سے قافلے کی شکل میں چار روز بعد اپنی منزل لاہور پہنچ گئے۔

ریلی کے پہلے دن (9 اگست کو) یہ قافلہ سست روی سے سفر کرتا ہوا دن بھر میں 15 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے رات کو راولپنڈی پہنچا جہاں کارکنوں سے پہلے خطاب کے بعد نواز شریف نے راولپنڈی کے پنجاب ہاؤس میں قیام کیا۔

بعد ازاں 10 اگست کو 12 بجے یہ ریلی راولپنڈی کے پنجاب ہاؤس سے روانہ ہوئی، پہلے روز کی نسبت دوسرے دن ریلی نے تیزی سے سفر کیا جبکہ اس دوران سابق وزیراعظم نے دینہ، سوہاوہ اور جہلم میں کارکنوں سے خطابات کیے اور بعدازاں جہلم کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔

دریائے جہلم کے کنارے قائم ایک ہوٹل میں رات بھر قیام کے بعد جمعہ (11 اگست) کو سابق وزیراعظم نے سفر کا دوبارہ آغاز کیا اور لالہ موسیٰ اور گجرات سے ہوتے ہوئے رات 8 بجے کے لگ بھگ گجرانوالہ پہنچے تھے۔

آج دوپہر (12 اگست کو) گجرانوالہ سے روانہ ہونے والا سابق وزیراعظم کا قافلہ کامونکی سے ہوتے ہوئے مرید کے پہنچا، جہاں نواز شریف نے کارکنوں سے خطاب کیا جس کے بعد لاہور کی جانب روانہ ہوئے جہاں پر آخر میں کارکنوں سے خطاب کیا جبکہ ریلی کا بھی اختتام ہوا۔

نواز شریف نے لاہور میں اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں آج لاہور میں کیا دیکھ رہا ہوں، لاہور میں ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا’۔

انھوں نے کہا کہ ‘ آپ نےمجھے وزیراعظم بنا کر اسلام آباد بھیجا تھا لیکن 5 افراد، 5 افراد نے واپس بھیج دیا، آپ نے مجھے ووٹ دے کر بھیجا تھا لیکن آپ کے وزیراعظم کو بھیج دیا گیا یہ اس ملک میں وزیراعظم کے ساتھ ہوتا رہا ہے، 1947 سے اب تک پاکستان میں وزیراعظم کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے اور اوسطاً ڈیڑھ سال ایک وزیراعظم کو دیا گیا جبکہ ایک آمر کو دس سال ملے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف کو کرپشن پر نااہل قرار نہیں دیا گیا خدا کےفضل سےنواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی لیکن انھوں نے مجھے بیٹے سےتنخوا نہ لینے پر نااہل کردیا’۔

انھوں نے کہا کہ ‘راولپنڈی سے چلا تھا اور ہر جگہ پاکستان کابچہ بچہ سراپا احتجاج ہے کہ نوازشریف کو کیوں نااہل کیاگیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے مجھے 2013 میں کہا گیا کہ بجلی نہیں ہے، نواز شریف امن قائم کرو۔

نواز شریف نے کہا کہ ‘اب یہ نہیں چلے گا، میں پنڈی سے چلا تھا اور اب یہ جذبہ انقلاب ہے اور یہ انقلاب نہ آیا تو غریب کا چولہا نہیں چلے اور ہماری قوم پست ہی رہے گی، خطے میں پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں ہے جہاں ووٹ کو روندا جا رہا ہو’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لاہور والو آپ نے ہمیشہ سچ بولا ہے، آپ جانتے ہیں 70 برسوں سے یہ کھیل کھیلا گیا، کیا ان کا احتساب ہونا چاہیے یا نہیں، جس پر حاضرین بلند آواز میں ہاں کا جواب دیا’۔

سابق وزیراعظم نے 1971 کے پاکستان کے دولخت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے ساتھ بڑے کھیل کھیلے گئے اور بنگلہ دیش کو الگ کردیا گیا۔

انھوں نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ‘یہ کون سا سال ہے، 2017 اور ہم کب آئے تھے 2013 میں کیا اب کوئی فرق ہے، 2017 کے پاکستان میں کوئی فرق ہے یا نہیں اگر ہے تو پھر نواز شریف کو شاباش ملنی چاہیے تھی یا نہیں یا پھر نااہل ہونا چاہیے تھا’۔

کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ‘انھوں نے پوچھا کیا چند لوگوں کی اجارہ داری 20 کروڑ پر حاوی ہونی چاہیے یا ختم ہونی چاہیے’۔

اس موقع پر کارکنوں نے مخالفین کو نشانہ بناتے ہوئے شدید نعرے بازی کی جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت دیکھ رہے ہوں گے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ یہاں بڑے دھوکا دینے والے آتے رہے ہیں اور آپ بتائیں کیا نواز شریف نے کوئی دھوکا دیا ہے حالانکہ پچھلے ایک سال سے مقدمہ چل رہا تھا اس کے باوجود اس ملک میں میٹرو آئے، بجلی آئے، خوشحالی آئے تو اس سے اور کیا ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے کہا کہ میں یہاں اپنے لیے نہیں آیا بلکہ ملک کے نظام کو بدلنے کے لیے آیا ہوں جہاں سب کو روزگار ملنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری ایک خواہش ہے کہ اس ملک کی ترقی ہو اور میں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی، جب پاکستان کی تقدیر بدلے گی تو آپ کی قسمت بدلے گی۔

انھوں نے کہا کہ 30 سال سے مقدمےزیر التوا ہیں کیا انصاف ملتا ہے دادا کا مقدمہ پوتا لڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ سماجی انصاف ہے اور نہ ہی عدالتی انصاف ہے لیکن ہم ایسا نظام لائیں گے کہ 90 روز میں انصاف ملے گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘نظام کو وائرس لگ گیا ہے، ہمیں نئے قوانین بنانے ہوں گے جس کے لیے ہمیں آئین اور نظام بدلنا ہوگا تاکہ غریب کی زندگی بدلے گی اور یہ میرا وعدہ ہے کہ ہم ایسا نظام لائیں گے کیونکہ نواز شریف جھوٹ نہیں بولتا’۔

انھوں نے پوچھا کہ کیا ایک ایسا پاکستان نہیں ہونا چاہیے جہاں آپ کے ووٹ کی قدر ہو، جہاں آپ کی عزت محفوظ ہو۔

انھوں نے عوام سے ساتھ دینے کا وعدہ لیتے ہوئے کہا کہ ‘دو دن کے بعد 14 اگست ہے جب ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر اس ملک کو بنایا تھا لیکن آج پاکستان لڑھک رہا ہے جبکہ ہمارے ہمسائیوں کو دیکھو کیا وہ بھی اسی طرح کے مسائل کا شکار ہیں جن کا آج ہمیں سامنا ہے لیکن اب ہم پاکستان کو بنائیں گے’۔

انھوں نے کہا کہ ‘کیا آپ میرا ساتھ دیں گے، میں کل تک وزیراعظم تھا آج نہیں ہوں لیکن آج میں آپ یعنی عوام کی حکمرانی کےلیے نکلا ہوں مجھے اپنی حکمرانی کی پروا نہیں ہے’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘دل سے پوچھ کر عہد کرنا اور پوچھا کیا جو وعدہ کروگے وہ نبھاؤ گے، عوام نے کہا بلند آواز میں کہا، ہاں، پھر انھوں نے کہا کہ انقلاب کے لیے وزیراعظم کا ساتھ دو گے کل نہیں پرسوں 14 اگست ہے اور اس دن میں پروگرام دوں گا’۔

انھوں نے کہا کہ 1971 میں پاکستان دولخت ہوا جس کے بعد ہم نے بلوچستان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور دیگر صوبوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جس پر دل روتا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ سرزمین پاکستان کے مالک 20 کروڑ عوام ہیں اس لیے ان کو حق ملنا چاہیے اور انھیں ان کے حقوق ملنے چاہیے اور آج وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ریاست آسان شرطوں پر گھر بنا کر دے گی اور اس سلسلہ کو مزید تیز کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین نے دو دن پہلے ایک تجویز دی ہے اور میں یہ اعلان کررہا ہوں کہ میں اس کا بھرپور ساتھ دوں گا اور پاکستان مسلم لیگ نواز اس کا ساتھ دے گی اور اس تجویز پر فی الفور عمل کرا دیا جائے گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘یہاں آزاد کشمیر کے وزیراعظم بیٹھے ہوئے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اس کو بھی نااہل قرار نہ دیں کیونکہ جہاں تیز ترقی ہوتی ہے ان کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے اور یہ تیزی سے ترقیاتی کام کررہے ہیں’۔

نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ بلو چستان کے وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری اور وزیرداخلہ احسن اقبال یہاں بیٹھے تھے لیکن کوئٹہ میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے جس پر ہمیں بہت دکھ ہوا مجھے فوجی افسران کی شہادتوں پر افسوس ہے۔

انھوں نے کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں شہید ہونے والے افراد کے دکھ میں شریک ہیں۔

سابق وزیراعظم نے آخر میں کہا کہ ‘جو پیار آپ نے دیا ہے اس کو میں کبھی نہیں بھولوں گا، د14 اگست کو میں اپنا پروگرام دوں گا اور وعدہ کرو کہ ساتھ دو گے’۔

وزیر اعظم نواز شریف رائے ونڈ اپنے گھر پہنچے تو سیدھے اپنی والدہ کے پاس گئے جو ان کا انتظار کر رہی تھیں .

[pullquote]سابق وزیر اعظم کا مشن جی ٹی روڈ کیسا رہا ؟[/pullquote]

[pullquote]مریدکے میں کارکنوں سے خطاب[/pullquote]

نواز شریف نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘اداس اور غمگین مت ہوں، آپ کی فتح ہو رہی ہے، عوام جیت رہی ہے، ہار ان کی ہے جنہوں نے 70 سالوں سے ملک کو یرغمال بنایا ہوا تھا’۔

سابق وزیراعظم کا پرجوش انداز میں کہنا تھا کہ ‘پاکستان کی 20 کروڑ عوام ہی ملک کے اصلی مالک ہیں، چند لوگ پاکستان کے مالک نہیں ہوسکتے’۔

انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ ‘کیا انہیں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ منظور ہے؟ آپ کی ووٹ کی پرچی پھاڑ کر چند لوگ آپ کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں کیا آپ کو یہ منظور ہے؟’۔

اپنے دورِ حکومت سے قبل کی صورتحال بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ 2013 میں نہ چولہا جلتا تھا نہ پنکھا چلتا تھا، نہ کارخانے چلتے تھے میں ملک کی دن رات خدمت کررہا تھا، سڑکیں بن رہی تھیں موٹر ووے بن رہے تھے، پاکستان میں سی پیک بن رہا تھا نوجوانوں کو روزگار مل رہا تھا’۔

اپنی نااہلی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ‘یہ فیصلہ دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی اور بدنامی کا باعث بنا ہے کیا آپ کو یہ بدنامی منظور ہے؟’۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘دنیا میں پاکستان کی عزت پر آنچ آرہی ہے مجھ کو یہ منظور نہیں’۔

انہوں نے عوام کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ‘نواز شریف آپ کو دھوکا نہیں دے گا، کیا آپ انقلاب لانے میں میرا ساتھ دیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ مریدکے کے عوام کا جذبہ انقلاب اور تبدیلی کا پیش خیمہ ہے اور عوام ان کے ساتھ انقلاب لانے کے وعدے کو یاد رکھیں۔

واضح رہے کہ شیخوپورہ سے ہوتے ہوئے یہ قافلہ سیالکوٹ پہنچے گا جہاں وزیر خارجہ خواجہ آصف کی سربراہی میں موجود ریلی بھی اس قافلے کا حصہ بن جائے گی۔

[pullquote]’پاکستان کو ہم سب مل کر تبدیل کریں گے‘[/pullquote]

شاہدرہ میں جلسے سے مختصر خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ’اسلام آباد سے شاہدرہ تک کے راستے میں کسی نے بھی عدالت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا، کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کرتے ہیں؟ کہتے ہیں نواز شریف نے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی، اس پر نااہل کردیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ شاہدرہ نے ہمیشہ نواز شریف کا ساتھ دیا ہے، شاہدرہ کے لوگ وعدہ کریں کہ آگے بھی میرا ساتھ دیں گے، پاکستان کو ہم سب مل کر تبدیل کریں گے، یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔‘

[pullquote]لاہور میں شاندار استقبال کے انتظامات[/pullquote]

دوسری جانب لاہور میں شاہدرہ چوک اور داتا دربار کے مقامات پر لیگی کارکنان کی جانب سے اپنے قائد کے شاندار استقبال کی تیاریاں کی گئی تھیں۔

امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا قافلہ شام 6 بجے تک لاہور پہنچ جائے گا لیکن عوام کی بڑی تعداد کے باعث انھیں وہاں پہنچنے میں زیادہ دیر لگی۔

شاہدرہ چوک میں نواز شریف کے خطاب کے لیے اسٹیج سجایا گیا تھا جبکہ ایل سی ڈی اسکرینز اور فلڈ لائٹس بھی نصب کردی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ جی ٹی روڈ ریلی کے ابتدائی تین دنوں کی نسبت ریلی کے آخری روز عوام کی بڑی تعداد ن لیگ کے قائد کے ہمراہ تھی۔

لاہور کی سڑکیں بند کی گئی تھیں اور ٹریفک صرف ایک سمت میں رواں تھی، کاروباری مراکز اور دکانیں بھی بند کردی گئی تھیں۔

لاہور میں سیکیورٹی کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے 8 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جبکہ 2 ہزار ٹریفک پولیس اہلکار ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کے لیے موجود تھے۔

خیال رہے کہ پولیس نے داتا دربار کو صبح سویرے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں بھی لیا تھا۔

[pullquote]جی ٹی روڈ ریلی کا تیسرا دن[/pullquote]

گذشتہ روز (11 اگست کو) گجرانوالہ میں جلسے سے خطاب کے دوران نواز شریف نے پرتپاک استقبال کرنے پر عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نااہلی پر بات کی اور کہا کہ ’عوام نے مجھے منتخب کر کے وزیر اعظم بنایا، دوسروں نے نکال دیا، مجھے اقتدار سے تو نکال دیا گیا لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکے، پاکستان کے مالک 20 کروڑ عوام ہیں، کل پھر مجھے لوگ وزیراعظم بنا دیں گے لیکن میرا مقصد وزیراعظم بننا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں جب سے پیدا ہوا ہوں پاکستان کا وفادار ہوں، دو بار میری حکومت توڑی گئی، تیسری بار مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، پچھلے 70 سال سے پاکستان کی یہی تاریخ رہی ہے، اب عوام کو حساب لینا ہوگا، عوام عہد کریں کہ پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونے دیں گے۔‘

نواز شریف نے گجرات میں ریلی میں شامل ایلیٹ فورس کی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے9 سالہ بچے کے جاں بحق ہونے کے واقعے پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے اس کارکن کے گھر خود تعزیت کرنے جاؤں گا اور اس کے خاندان کی ہرممکن مدد کریں گے۔‘

[pullquote]ریلی کا دوسرا دن[/pullquote]

10 اگست کو جہلم میں کارکنوں سے خطاب کے دوران نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’5 ججز نے کروڑوں عوام کے منتخب وزیراعظم کو ایک منٹ میں فارغ کردیا، کروڑوں عوام کے ووٹوں کی توہین کی گئی’۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا دامن صاف ہے، مجھ پر کرپشن کا ایک بھی دھبہ نہیں، ججز نے بھی تسلیم کیا کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی’.

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ ‘مجھے کیوں نکالا گیا، کیا اس لیے کہ ملک ترقی کی منازل طے کر رہا تھا؟ کیا یہ سلوک آپ کو برداشت ہے؟‘

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’2013 میں جب میں جہلم آیا تھا تو پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی، ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا اور بدحالی کا شکار تھا، بے روزگاری عروج پر تھی، میں نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کو ترقی کی طرف لے کر جائیں گے اور آج وہ وعدہ پورا ہورہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے دن رات کام کر کے ملک کے حالات کو سنبھالا، آج لوڈشیڈنگ بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے آئندہ سال مکمل طور پر ختم ہوجائے گی، ملک میں امن قائم ہوچکا ہے اور کراچی کی روشیاں واپس آچکی ہے، ہم نے بلوچستان میں امن کے لیے مخلوط حکومت بنائی اور کئی پارٹیوں کو قومی دھارے میں لائے، جبکہ آج ملک میں کراچی سے پشاور تک موٹرویز بن رہی ہیں۔‘

[pullquote]جی ٹی روڈ ریلی کا پہلا دن[/pullquote]

9 اگست کی شب راولپنڈی کے کمیٹی چوک آمد پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ‘کروڑوں لوگ وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور چند لوگ ختم کردیتے ہیں، مجھے تیسری بار حکومت سے نکالا گیا، میں سوال کرتا ہوں کہ کیا نواز شریف نے قومی خزانہ لوٹا، اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے فارغ کر دیا گیا، ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا یہ آپ کے ووٹ کی توہین نہیں؟ عوام نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ قبول نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ملک میں کبھی ووٹوں کی عزت کی جائے گی؟ نواز شریف نے کبھی کک بیک اور کمیشن نہیں لیا لیکن اس کے باوجود پہلی بار گھر بھیجا گیا اور دوسری مرتبہ ہتھکڑی لگادی گئیں، ملک میں 70 برسوں سے کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی، مجھے حکومت کا لالچ نہیں لیکن عوام کی مینڈیٹ کی توہین نہیں ہونے دینی۔‘

[pullquote]ریلی کی سیکیورٹی اور انتظامات[/pullquote]

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم کی ریلی کے پیش نظر گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

ریلی کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری مختلف مقامات پر تعینات ہے۔

ہنگامی صورتحال میں ریلی کے شرکاء کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کا موبائل ہیلتھ یونٹ بھی خصوصی طور پر قائم کیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم موجود رہے گی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وارننگ نظرانداز، نواز شریف بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جائیں گے

نااہلی کے فیصلے کے بعد نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اور بعدازاں وزیراعظم ہاؤس خالی کرکے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ 30 جولائی کو سیاحتی مقام مری روانہ ہوگئے تھے۔

مری میں ایک ہفتہ قیام کے بعد وہ 6 اگست کو اسلام آباد پہنچے جہاں سے اب وہ ریلی کی صورت لاہور کی جانب رواں دواں ہیں۔

انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اس ریلی کو اسلام آباد سے لاہور پہنچنے میں 4 سے 6 دن لگ سکتے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے