نیلم کے عوام بھی سیکورٹی رسک ہیں؟

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا (اور یقیناً آخری بار بھی نہیں) کہ آزاد کشمیر کے معروف صحافی اور راقم الحروف کے بڑے بھائی اور صحافتی استاد امیر الدین مغل کو اپنے ہی آبائی علاقے وادی نیلم میں اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے روکا گیا ہو۔ اس کے پیچھے واقعات کا ایک تسلسل ہے اور قبل ازیں بھی متعدد بار سیکورٹی اہلکاروں نے نہ صرف امیر الدین مغل بلکہ راقم سمیت ان کے متعدد پیش رؤں کو بھی چیک پوسٹوں پر روک کر ہتک آمیز اور دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ۔ چیک پوسٹوں پر شناختی پریڈ سے گزارنے،کیمرے، لیپ ٹاپ، فون اورشناختی دستاویزات ضبط کرنے اورگھنٹوں غیر اعلانیہ حراست میں رکھنے کے علاوہ اپنے ہی آبائی علاقے میں این او سی لیکر آنے کو کہا گیا۔

اس سے قبل تو یہ کاروائیاں اہلکاروں کی تربیت کی کمی کا نتیجہ لگتی تھیں مگر اس بار یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ کسی اہلکار کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک ادارہ جاتی پالیسی ہے کہ نیلم ویلی کے عوام کو بالعموم اور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمایاں لوگوں کو بالخصوص یہ احساس مسلسل دلائے رکھا جائے کہ وہ یہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہوں، اس علاقے میں نقل و حرکت کے لئے بہرحال ان اداروں سے اجازت لینا ضروری ہے۔

پچھلے کئی سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ نیلم ویلی کے لوگوں کو چلیہانہ سے تاو بٹ تک لگ بھگ ایک درجن مقامات پر شناختی کارڈ دکھاکر اپنے گھر جانے کی وجہ تک بتانی پڑتی ہے کہ آپ اپنے گھر کیوں جا رہے ہیں۔باہر سے آنے والے صحافیوں کا تو معاملہ ہی الگ ہے، نیلم ویلی میں پیدا ہونے والے اور ایک عرصے سے یہاں کام کرنے والے صحافیوں کو اپنی نقل و حرکت کی اجازت لینا پڑتی ہے۔اپنے ساز و سامان اور پیشہ ورانہ آلات کی وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور کس مقصدکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال شائد پاکستان کے شورش ذدہ علاقوں فاٹا،اور بلوچستان میں بھی نہ رہی ہو۔

راقم سمیت نیلم ویلی کی سول سو سائٹی کے دیگرنمایاں لوگوں نے مقتدر اداروں کو متعدد بار تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ یہ صورتحال نیلم ویلی کے عوام خصوصاً نوجوانوں میں ایک احساس کو جنم دے رہی ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں ان کی حبب الوطنی ہمیشہ مشکوک رہے گی اور ان کے ہر کام کو شک کی نگاہ سے دیکھ کراس میں ہر قدم پر رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں گی۔

گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران سیکورٹی اہلکاروں کے غیر مہذب اور غیر شائستہ رویے کی وجہ سے سیاحوں، صحافیوں اور مقامی لوگوں کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ براہ راست تصادم کی صورت حال بھی پیدا ہو چکی ہے۔ مگر قومی سلامتی کے ضامنوں نے اس صورت حال کی کسی بھی طور پر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیلم ویلی میں سول انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں دیگر سیکورٹی اداروں کے پاس کیا جوازیت باقی رہتی ہے کہ وہ سیاحوں اور مقامی لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کریں اور ان سے اپنے گھر جانے کی وجہ دریافت کریں اور ان سے اپنے ہی گھروں میں جانے کے لئے این او سی طلب کریں۔اور نیلم ویلی میں ایسا کیا ہے جس کو میڈیا اور سول سوسائٹی کی آنکھ سے بچا کر رکھنا ضروری ہے۔ آخر دریائے نیلم اور رتی گلی کی جھیل میں ایسا کون سا قومی راز دفن ہے جس کے افشاء ہونے سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

راقم نے لگ بھگ پانچ سال قبل ایک اخباری مضمون میں یہ نشاندہی کی تھی کہ سیکورٹی اہلکاروں کا رویہ خواہ وہ ان کی اخلاقی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہو یا کسی ادارے کی پالیسی کا حصہ، یہ نیلم ویلی کے عوام اور خصوصاً نوجوان طبقے کے دلوں میں نفرتیں پیدا کر رہا ہے۔ فی الوقت شائد ان نفرتوں کا دائرہ کسی اہلکار یا ادارے تک محدود ہو لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مستقبل میں یہاں کے نوجوانوں کے دلوں میں پاکستان کی ریاست کے ساتھ جذباتی وابستگی اور محبت میں کمی آ سکتی ہے اور یہ پیشن گوئی بتدریج درست ثابت ہو رہی ہے۔

سیکورٹی اہلکاروں کے اس رویے اور طرز عمل کونیلم ویلی کے لوگوں نے کئی سالوں تک خاموشی سے برداشت کیا ہے مگر اب شائد لوگوں کا حوصلہ جواب دے چکا ہے اور یہی وجہ ہے کے گزشتہ کچھ عرصے سے لوگوں نے اس رویے اور طرز عمل کے خلاف احتجاج کا راستہ اختیار کرنا شروع کر لیا ہے۔ یہ احتجاج سوشل میڈیا کے علاو ہ اب مظاہروں کی شکل میں بھی سامنے آنے لگا ہے جو کہ باعث تشویش ہے۔ یقیناً یہ صورتحال ان اداروں کے مقتدرین کے بھی علم میں ہو گی مگر یہ نہیں معلوم کے وہ اس صورتحال کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ سیکورٹی ادارے سیاحوں، مقامی لوگوں اور صحافیوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ ترک کر کے یہاں اندرونی امن و امان کے قیام کی ذمہ داری سول انتظامیہ اور پولیس کے حوالے کر کے خود کنٹرول لائن پر سیکورٹی معاملات کو سنبھالتے ہیں یا ان کی نظرمیں اب بھی نیلم ویلی کے لوگوں کو اپنے گھر آنے کے لئے اجازت نامہ لینا ضروری ہے اور انہیں اپنی مٹی سے محبت اور وفاداری ثابت کرنے کے لئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کسی وردی پوش کا سرٹیفکیٹ لینا لازمی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے