سر رہ گزر… قانون اور میرٹ کی بالادستی

صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ صدر ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جشن آزادی مبارک ہو، انہوں نے یک زبان ہو کر قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا مژدہ قوم کو سنایا ہے، یہ جملہ کسی عام آدمی کا نہیں ملک کے دو اہم ترین عہدے داران کا قول ہے اور قول جب دیا جاتا ہے تو پورا کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں ہر تقریب کے لئے مخصوص جملے ہوتے ہیں جو 30کم ایک صدی سے ہم سنتے آ رہے ہیں، اگر دیکھا جائے تو قانون کی پامالی اور میرٹ کا فقدان ہی ہمارا اصل مسئلہ ہے، میرٹ اور قانون کو بالادستی حاصل ہو جائے تو ہر پاکستانی کو سب کچھ حاصل ہو جائے، جسے جس کام کے لئے منتخب، بھرتی کیا جاتا ہے وہ وہی کام نہیں جانتا البتہ کام دکھانا خوب جانتا ہے، اب تک تو جو آیا ہاتھ کر گیا، اور اسے لانے والے ووٹرز جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار کر اس کے سیاسی شوز کو کامیاب بناتے ہیں، صرف ہجوم برائے جلسہ جلوس ہو کر رہ جاتے ہیں، ان کی خوشحالی ملتی تو آج حکمرانوں کی بھی وہ حالت نہ ہوتی جو انہوں نے بنا لی، یہ درست ہے کہ ہمارے سربراہان حکومت اچھا آغاز کرتے ہیں، مگر وہ خوشامد وائرس سے خود کو بچاتے نہیں، اور نتائج ایک زمانے سے ہمارے سامنے ہیں، ہمارا ہر حکمران اچھی فعال لائق ٹیم نہیں بنانا جانتا یا پھر وہ دانستہ ہوس کے ماروں اقتدار کی غلام گردش میں انٹری مارنے والوں کا شوقین ہوتا ہے، تاکہ وہ شاہانہ دھوکے انجوائے کر سکے، یہی لوگ اس کے عبرتناک انجام کا باعث بنتے اور پھُر سے اڑ کر کسی دوسری شاخ پر بیٹھ نئے ترانے گانے لگتا ہے، احتساب ہی قوموں کو راہ پر ڈالتا ہے، اگر یہ نہ ہو تو صرف چند لوگوں کے پاس دولت بے حساب اور احتساب نایاب ہو جاتا ہے، احتساب کا شفاف عمل جاری رہنا چاہئے۔
٭٭٭٭
بے لگام خوشی
13اگست کی رات 12بجتے ہی منچلے سڑکوں پر نکل آئے، ون ویلنگ سے ایک نوجوان یوم آزادی سے پہلے قید حیات سے آزاد ہو گیا، خوشی کا اظہار بھی پابند اخلاقیات ہوتا ہے، کوئی خوشی میں آ کر چھت سے چھلانگ لگا دے تو اس پر خوشی بھی روئے گی، قوموں کی زندگی میں غم، خوشی کے مواقع آتے رہتے ہیں، مگر ضبط اور اعتدال کا دامن جونہی ہاتھ سے چھوٹتا شادی، غم ہو جاتی ہے، جذبہ رکھنا زندہ قوموں کا شعار ہے، لیکن جذباتی ہونا موت کو دعوت دینا ہے، اور یہ نفسیاتی بیماری ہے، جس نے ہمیں جگ ہنسائی سے دوچار کر دیا ہے۔ خوشی یا غم اگر اسے اعصاب پر سوار کر لیا جائے تو وہ جواب دے جاتے ہیں اور انسان راہ اعتدال کھو بیٹھتا ہے، سرمستی و سرشاری اور طیش و غضب کا صحرا تو بہت وسیع ہے، اور بے آب و گیاہ بھی، جو قوم اس میں بھٹک جائے کبھی منزل آشنا نہ ہو سکی، ایک خوشی ہی نہیں ہمارے تمام ’’اوصاف حمیدہ‘‘ ہی بے لگام ہو چکے ہیں، کیا اعتدال ہر عمل کو عبادت نہیں بنا دیتا، خدا کے لئے اس نکتے پر غور کریں، پاکستان اب بھی خیریت سے ہے، کیونکہ اس کو ہم نے نہیں کسی اور نے تھام رکھا ہے، جو لہو اس کی بنیادوں میں بہا ہے ہم انہی پر تو اپنی خوشیوں کے محل تعمیر کر کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، پیسے کی دوڑ میں ضرور شامل ہوں یہ شجر ممنوعہ نہیں لیکن پیسے کو مائی باپ نہ بنائو، اور اس کے پیچھے دوڑو مگر اس طرح کہ سانس اکھڑ نہ جائے، کہ دولت کی پرستش اس کی ہوس دوڑا دوڑا کر مار دیتی ہے۔ اگست کا پورا مہینہ جشن آزادی ہماری رہے گا مگر بے لگام ہو کر نہیں، قومی تربیت کا اہتمام ہی اصل جشن آزادی ہے۔
٭٭٭٭
زیر مرمت، متبادل راستہ اختیار کریں
اکثر محکمہ شاہرات کی جانب سے سڑکوں پر لکھا ہوتا ہے سڑک زیر مرمت ہے متبادل راستہ اختیار کریں، 70 برس ہو گئے، ہم زیر مرمت ہیں متبادل راستہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ راستہ بدلنے سے شاید رسوائے زمانہ تبدیلی نہیں حقیقی تبدیلی آ جائے، ہماری بات کی تصدیق وزیر اعلیٰ پنجاب کی اس بات سے بھی ہوتی ہے ’’لاہور میں لوگوں کے سمندر نے گواہی دے دی کہ ملک میں انصاف نہیں، ہم میں سے ہر بندہ حاکم ہے اور اپنی رعیت بارے پوچھا جائے گا، مثلاً ایک آسامی کا اشتہار سرکار دیتی ہے، اور بڑے بڑے لائق زور شور سے انٹرویو دے دیتے ہیں، مگر اسامی تو امیدوار کے انٹرویو سے پہلے پُر ہو چکی ہوتی ہے، ہمارے ساتھ اکثر نا انصافیاں، سفارش کرتی ہے، یہ جو ہر جگہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے آبادی کنٹرول کرنے کے ساتھ انصاف نہیں کیا، جب سیاست کے اندر کوئی متبادل راستہ نہیں تو پارٹیوں میں موروثیت جنم لیتی ہے، اور تازہ ہوا نہ آنے کی صورت میں بڑی بڑی پارٹیاں باسی ہانڈی کی طرح بو دے جاتی ہیں، جمہوریت ایسے ہی موڑ پر آ کر حادثے کا شکار ہو جاتی ہے ہمیں غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہو گا، اور اب بھی اگر ہمارا کوئی بھی لیڈر قائداعظم کی طرح قوم سے ملک سے انصاف کرے توبہ تائب ہو جائے تو قبولیت کے دروازے کھلے ہیں، یہ پاک سرزمین ہے، تطہیر ہو جائے گی، ہر ناپاک چیز پاک ہو جائے گی، کسی کے بارے غصے میں آنا دلیل ہے کہ کوئی غلط بات آنے کو ہے، اس لئے تحمل برداشت اور ٹھنڈے دل سے بات کرنی چاہئے، یکدم آپے سے باہر ہو جانا، لال بھبھوکا ہو جانا مہذب قوموں کا شیوہ نہیں، یہ درست ہے کہ بزرگوں نے وطن کو پائوں پر کھڑا کیا، اور جوانوں کو کس نے یہ تربیت اور موقع نہ دیا کہ وہ پائوں پر کھڑے پاکستان کو شاہراہ ترقی پر گامزن کرتے، ہماری جوانیاں ضائع جا رہی ہیں، انہیں سوئے منزل رواں ہونے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔
٭٭٭٭
71واں یوم آزادی مبارک
….Oآرمی چیف نے 3بار کہا جمہوریت کیساتھ ہیں،
اگر اب بھی نہیں سمجھے تو پھر تم سے خدا سمجھے!
62-63….Oختم کرنے کی سازش کے خلاف لاکھوں جمع کروں گا۔ عمران خان
خدا کے لئے اپنا ہوم ورک مکمل کریں،
….Oبلاول زرداری:نواز شریف حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں،
جب وہ حکومت ہی میں نہیں رہے تو یہ جلی کٹی سنانے کا فائدہ؟
….Oجاوید ہاشمی:نواز شریف ناقابل برداشت، عمران، قادری مہرے ہیں۔
اپنے بارے نہیں بتایا کہ آپ کیا ہیں؟
….Oپاکستان 70سال کا ہو گیا۔
مگر ہم ہنوز دور طفولیت سے نہیں نکلے، ذہنی بلوغت سکھانے کے معلم کہاں ہیں۔
….Oشہباز شریف کا ٹویٹ:چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔
کونسی منزل ؟ کیا ہم کسی پلازہ کی لفٹ میں بیٹھے ہیں، دراصل منزل تو چلنے والوں کی ہوا ہی نہیں کرتی بس چلنا چلنا خرام چلنا جو قافلہ ٹھہر گیا، تو رونق حیات بھی نہیں رہے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے