نوجوان انتہاپسند کیسے بن رہے ہیں؟

انتہا کا لفظ ابتدا کا الٹ ہے جیسے کچھ کاموں کی ابتداء ہوتی ہے ایسے ہے انکی انتہا بھی ہوتی ہے اور کسی بھی کام کی انتہا اچھی نہیں ہوتی ۔ اسی لئے اعتدال پسندی کو سب سے بہتر سمجھا جاتاہے۔ملک عزیز پاکستان اس وقت بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرات سے درپیش ہے جس کا نام انتہا پسندی ہے ۔ فرقہ واریت اورمسلکی اختلاف کی وجہ سے اس انتہا پسندی میں مذہبی رنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے وطن عزیز زیادہ تر مذہبی دہشت گردی کا شکار ہے اور پھر جب دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہو اور دہشت گردی کے واقعات دنیا کے کونے کونے بالخصوص مسلم دنیا میں بڑھتے جا رہے ہوں داعش اور آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی شمولیت نے دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ملاقوام کو بھی نوجوانوں کی انتہا پسندتنظیموں میں دلچسپی پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یقنیا اسی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کو انتہا پسندی  سے ڈرایا ۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم دین سے غلو کرنے سے بچو کیونکہ اگلی امتوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کردیا تھا (نسائی) ۔ اس حقیقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا ہے کہ نفرت سے آج تک کسی بھی معاشرے کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملا جبکہ انسان کی تخلیق محبت کے واسطے ہوئی کیونکہ نفرت اور انتقام محض شیطانی کام ہے جس سے باز رہنے کی ہر مذہب اور ہر مسلک میں بار بار تلقین کی گئی۔ 

نوجوان نسل کو کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا نشان سمجھا جاتا ہے ۔ اور اگر پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا بغور جائز ہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے اور امن کے لئے ہونیوالی کوششوں میں آج کی نوجوان نسل کوکلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ مگر پھر بھی ہر سال انتہا پسند قوتیں اپنے پراپیگنڈے کی بدولت ملک میں بے شمار ہونہار اور معصوم طالبعلوموں کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔ یہ انتہا پسند تنظیمیں ان معصوموں کی برین واشنگ کرکے نہ صرف انکو اپنے مذموم عزائم میں استعمال کرتی  ہیں بلکہ ان کو موت اور تباہی کی وادی میں بھی دھکیلتی ہیں ۔

میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری کا واقعہ کوئی زیادہ پرانا نہیں جو ایک دہشت گرد تنظیم کے شکنجے میں جکڑی گئی۔ اسی طرح کی کچھ اور مثالیں جن میں سعد عزیز ، ازفر عشرت، حافظ ناصر قابل ذکر ہیں۔ سعد عزیزانسٹیوٹ آف بزنس  ایڈمنسٹریشن کا طالبعلم رہا اور اس نے وہاں سے بی بی اے کیا مگر دہشت گردی کے بھیانک جالے میں پھنس گیا ۔ سعاد بیکن ہاؤس سکول سسٹم سے فارغ التحصیل تھا۔ اسی طرح ازفر عشرت ایک پروفیشنل انجینئر تھا جو سر سید یونیورسٹی آ ف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا گریجوایٹ تھا۔ حافظ ناصر نے اگرچہ یونیورسٹی  آف کراچی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی مگراس کے باوجود بھی وہ خود کو دہشت گرد دانہ سوچ کی حامل تنظیموں سے محفوظ نہ رکھ سکا۔

اب بات کرتے ہیں ان عوامل کی جو نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرتی ہیں ۔ ایک پش فیکٹر ہیں جو کہ وہ نفسیاتی اور ہیجانی مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں ، گھر والوں اور معاشرے سے دور ہو جاتا ہے یہ مسائل والدین کی مناسب تربیت نہ ہونے ، امتحانی سسٹم میں خود کہ ان فٹ محسوس کرنے ، دوستوں اور معاشرے کی طرف سے حوصلہ شکنی ملنے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں جبکہ دوسرے فیکٹر پل فیکٹر ہیں جس میں سماجی ناہمواریاں، معاشی مسائل، بے روزگاری، اور فرقہ واریت سے مبنی لٹریچر ہے ۔ ان عوامل کا فائدہ انتہا پسند تنظیمیں اٹھا تی ہیں جو نوجوانوں کی ان کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے اپنے پراپیگنڈے مشینری خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں متبادل بیانیہ اس قدر دلچسپ انداز میں کرتی ہیں کہ وہ معصوم ذہن خود کو ان کے طلسم میں گرفتار کر بیٹھتے ہیں اور یوں زندگی بھر کے لئے اپنی اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لئے تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔

اگر ہم بات کریں کہ ان مسائل کے تدارک میں نوجوانوں کا کیا کردار ہو سکتا ہے تو ایک واقعہ کو مثال بناتے ہوئے استعمال کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جب امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تو ہر طرف تباہی نے ڈیرے ڈال دیا ۔ امریکی فوج نے جاپان پر قبضہ کر لیا۔ جس کے باعث جاپانی نوجوانوں پر انتقام کا جنون بری طرح سے سوار ہو گیا ۔ جاپانی نوجوانوں نے اپنامقصد حیات صرف اور صرف امریکی فوج سے انتقام بنا لیا ۔ روزانہ امریکی فوج پر حملے ہونے لگے یوں جاپانی نوجوانوں کی بڑی تعداد انہی لڑائیوں میں ماری جانے لگی۔ تب جاپانی اور امریکی اکابرین نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ جاپانی نوجوانوں کو علم کی طرف مائل کیا جائے ۔

نوجوانوں کے لئے خصوصی تعلیمی مراعات کا اعلان کیا گیا اور یوں جاپانی نوجوان بندوق چھوڑ کا کاغذ اور قلم سے دوستی کرلی ۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج جاپان ترقی یافتہ ملکوں کی دوڑ میں ہراول دستے کا کام کر رہا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ضروری ہے کہ سب سے پہلے نوجوان اپنی اصل منزل اور مقصد کو پہچانیں۔ نوجوانوں میں احساس ذمہ داری ہو اور انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ اگر وہ کچھ بہتر کریں گے تو اس کے نتائج یقینی طور پر مثبت ملنے کے قومی امکان ہوگا ۔سب سے پہلے نوجوانوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ انکی الگگ الگ رہنمائی ہو سکے ۔ ایک طبقہ وہ جو سرکاری کالجز اور سکولز میں زیر تعلیم ہے کیونکہ ان کے مسائل مختلف ہیں انکی تربیت کا اہتمام انکے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔

ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جس میں انکے حقیقی مسائل کو عملی حل موجود ہو اور یہ حل انکی صلاحیتوں اور انکی رائے پر مبنی ہو۔ دوسرا طبقہ وہ جو پرائیویٹ کالجز اور مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔ چونکہ انکے مسائل معاشی نہیں بلکہ زیادہ تر انفراد ی ہیں جس میں والدین ار معاشرے کی طرف سے حوصلہ شکنی اور تنہائی جیسے عوامل کی وجہ سے وہ ہیجانی کیفیت کا شکار ہیں لہذا انکے لئے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن میں انکے مسائل کا بغور جائزہ لے کر انکی ذہنی صلاحیتوں کو مثبت کاموں کی طرف راغب کیا جائے۔ تیسرا طبقہ ان نوجوانوں کو ہے جو کم پڑھے لکھے یا بے روزگار ہیں ۔ نوجوانوں کا یہ طبقہ خاص کر دہشت گرد تنظیموں کے لئے کشش کا باعث ہے کیونکہ ان نوجوانوں کی ذہنی حالت مالی مسائل اور معاشرتی اور سماجی رویوں کی وجہ سے بغاوت اور انتقام کے لئے ہمہ وقت تیاری ہوتی ہے لہذا یہ نوجوان انتہا پسندتنظیموں کی جانب سے ملنے والی پر کشش مراعات کی وجہ سے ایسی تنظیموں میں شمولیت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو کہ آہستہ آہستہ انہیں تباہی کی دلدل میں جکڑ لیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے