دِل اُداس ہے ۔ کل سہہ پہر میں نے یہ خبر سنی اور اس کے بعد سے طبیعت بوجھل سی ہے۔آزادجموں کشمیر کے ضلع راولاکوٹ سے شائع ہونے والا ایک اخبار”روزنامہ مجادلہ” طاقت ور سمجھے جانے والے حلقوں کی ایما پر بند کر دیا گیا ۔ ”مجادلہ” کا دفتر سیل کر دیا گیا۔
طاقت ور حلقوں نے کونسل سیکریٹریٹ کے ذریعے جو حکم نامہ جاری کروایا ، اس میں اخبار کو غیر قانونی قرار دے کر ایک ڈیوٹی مجسٹریٹ مقرر کر کے اسے سیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور’مجادلہ’ کا دفتر سیل ہو چکا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر کاشف میر جبکہ چیف ایڈیٹر حارث قدیر ہیں ۔ ‘مجادلہ’ کا جرم کیا تھا ؟ بادی النظر میں ‘مجادلہ’ کو تین دن قبل(23 اگست 2017 ءکو) ایک خبر شائع کرنے کی بنیاد پر بند کیا گیا ہے ۔ خبر میں تنویر احمد نامی ایک کشمیری ریسرچر کے مختلف طبقہ ہائے زندگی کے 10 ہزار افراد سے کیے گئے ایک سروے کو رپورٹ کیا گیا تھا۔
اس سروے میں تنویر احمد نے 5 سال سے زائد عرصہ صرف کیا اور وہ آزادکشمیر کے سبھی شہری ودیہی علاقوں میں گھومتے رہے ۔ انہیں اس دوران ماورائے قانون ‘اٹھایا’ بھی جاتا رہا ۔ معاملات عدالتوں میں بھی چلتے رہے لیکن وہ ہر بار بے گناہ ثابت ہو کر رہا ہوتے رہے۔ ان کی بار بار گرفتاری اور رہائی کی تفصیل ان کے پرسنل بلاگ پر موجود ہے ۔ اس سروے میں ریاست کے باشندوں سے ان کی رائے لی گئی تھی کہ وہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
‘مجادلہ’ کی جانب سے شائع کیے گئے اس سروے کے نتائج بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ۔ اور کشمیریوں کی بڑی تعداد نے اس پر تبصرے کیے ۔ یہ بات ‘طاقت ور’ لوگوں کو پسند نہ آئی ۔ انہوں نے پہلے اپنے کسی ہرکارے کے ذریعے چیف ایڈیٹر ‘مجادلہ’ حارث قدیر کو اپنے دفتر طلب کیا کہ ‘صاحب’ بلا رہے ہیں لیکن جب انہوں نے بارگاہ میں حاضری نہ دی تو ‘طاقت ور’ سیخ پا ہوگئے اور اخبار کی اشاعت بذریعہ کونسل سیکریٹریٹ غیر قانونی قرار دے کر روک دی ۔ حالانکہ یہ اخبار باقاعدہ ڈیکلیریشن کے ساتھ شائع ہو رہا تھا۔
کشمیر کے بارے میں کشمیریوں کی رائے کیا اہمیت رکھتی ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پے در پے پیش آنے والے واقعات سے اس سوال کا جواب بخوبی سمجھ میں آ جاتا ہے ۔ دوسری جانب اطلاعات یہ ہیں کہ ”وسیع ترین” قومی مفاد میں آزادکشمیر میں انٹرنیٹ صارفین کی مانیٹرنگ بھی شروع کر دی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک خبر بھی شائع کروائی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ کہ سائبر ٹاسک فورس بنائی گئی ہے ، جو سوشل میڈیا پر نگاہ رکھے گی او مختصر وقفوں کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کورپورٹ کرے گی ۔
اطلاعات اس سے آگے کی بھی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آزادکشمیر کے تقریباً تمام نمایاں شہروں کے پبلک انٹرنیٹ کیفے بھی مسلسل مانیٹرنگ کے عمل کا حصہ بن چکے ہیں یا بنائے جارہے ہیں ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے ملک دشمن عناصر کے ‘عزائم’ کو ناکام بنایا جائے گا ۔ یہ سوال اپنی جگہ البتہ قائم ہے کہ آزادکشمیر میں ‘ملک دشمن عناصر’ کہاں پائے جاتے ہیں؟ یا پھر نئے حالات میں ‘ملک دشمن’ کی تعریف بدل چکی ہے؟
ہم پچاس کی دہائی کی آخراورساٹھ کی دہائی کے شروع کی ریاستی سنسر شپ کو یاد کرتے ہیں ۔ سترکے عشرے میں حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے گئے انتقامی سلوک کے بارے میں سنتے ہیں ۔ ضیاء الحق کی آمریت کے تحت صحافیوں کو کوڑے مارے جانے کی کہانیاں بھی پڑھتے ہیں ۔ لیکن مجھے لگتا ہے اب ہم ماضی کی نسبت سنسر شپ کے زیادہ بدتر دور میں جی رہے ہیں ۔ یہاں وطن سے محبت کے مثبت جذبے کی نئے ٹکسال میں تعریف گھڑی گئی ہے ۔ جو بھی اس تعریف پر پورا نہیں اترتا ، لائق عتاب قرارپاتا ہے۔
اب سیلف سنسر شپ کا دور ہے ۔ ایک ایسی گھٹن جس نے لکھنے یا بولنے والے سے اعتماد چھین لیا ہے ۔ حد سے بڑھی ہوئی حساسیت نے اس کے ذہن کو جھکڑ لیا ہے ۔ وہ ”غداری” یا ”ملک دشمنی ” کے الزام سے بچنے کے لیے استعارے کی آڑ لیتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے ۔ ایک ایسے سماج میں جہاں سوال کا گلا گھونٹ دیا جائے اورفرد کی رائے محبوس کر دی جائے، مثبت مکالمہ کیوں کر فروغ پا سکے گا ۔ اس صورت حال پر مجھے سخت تشویش ہے۔
یہاں اپنی بات کھل کر کہنے کا یارا نہیں ، سو اس عظیم انسان اور شاعر فیض احمد فیضؔ کی زبان مستعار لیتے ہیں:؎
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں