یہ بیچارے قربانی کے بکرے

آج صبح اپنے گھر سے دفتر جاتے ہوئے میں نے سڑک کے کنارے ایک بڑا بینر لگا دیکھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’فخر پاکستان بکرے‘‘ اور اس کے نیچے راجن پور کے دس بارہ سرداروں کے نام لکھے تھے۔ اس بینر کے سائے میں بلند قدوقامت کے بیسیوں بکرے رسیوں کےساتھ بندھے تھے۔ یہ بکرے اتنے صحت مند اور خوبصورت تھے کہ کوئی بھی بکری ان کو پہلی نظر میں دل دے بیٹھے۔ تاہم مجھے بینر پر لکھے سرداروں کے نام اور اس بینر کے نیچے بندھے بکروں میں کوئی باہمی ربط سمجھ نہ آیا۔ ظاہر ہے سرداروں والے لاحقہ کے یہ نام بکروں کے قلمی نام تو ہو نہیں سکتے۔

چنانچہ میں نے سوچا کہ بکروں کے مالکوں کے نام ہوںگے لیکن جب بکروں کے ’’مالکوں‘‘ کو دیکھا تو ان میں ’’سرداروں‘‘ والی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ غریب تو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ لہٰذا میرا دھیان اس طرف گیا کہ یہ سرداروں کے ایجنٹ ہیں جو ان کا مال لاہورکی منڈی میں فروخت کرنے آئے ہیں۔ ایک خیال میرے ذہن میں یہ بھی در آیا کہ ممکن ہے کہ سرداروں کا حال رفتہ رفتہ اتنا پتلا ہوگیا ہو۔ بہرحال صورتحال جو بھی تھی۔ ان ’’فخر پاکستان‘‘ بکروں کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ اس ہجوم نے اتنے قد کاٹھ کے بکرے غالباً پہلی دفعہ دیکھے تھے!

عید قربان میں اب چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان بکروں کے دن بھی اب قریب آگئے ہیں؟ آج یا کل کوئی شخص اپنی گاڑی سے اترے گا۔ دلالوں سے ان کا سودا کرے گا اور پھر انہیں گھسیٹتا ہوا پک اپ کے قریب لے جائے گا۔ روز عید تک یہ بکرے اس کے کھونٹے کے ساتھ بندھے رہیں گے۔ پھر وہ قصائی کوبلائے گا اور ان فخر پاکستان بکروں کو ان کے سپرد کر کے خود اس جنت کے خواب دیکھنا شروع کردے گا جس میں اس نے اور اس کے اہل و عیال نے زندگی سے رخصت کے بعد باقی تمام عرصہ گزارنا ہے۔

میں بھی اپنی گاڑی سے اترا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان بکروں کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے ریشم ایسی کھال والے بکرے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو مجھے اس کی آنکھوں میں رحم طلبی نظر آئی غالباً وہ جانتا تھا کہ یہ پیار ایک عارضی چیز ہے۔ آخر اس کے مالکوں نے بھی تو اسے بہت پیار سے پال پوس کر اتنا بڑا کیا تھا مگر اب وہ اسے قصائیوں کےسپرد کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔ صرف اپنی زندگیاں زیادہ بہتر بنانے کے لئے! یہ فخر پاکستان بکرا صحیح لائنوں پر سوچ رہا تھا کیونکہ میں نے ایک ہاتھ اس کے سر پر پھیرتے ہوئے دوسرا ہاتھ راجن پور کےایک سردار یا اس کے ایجنٹ کے کاندھے پر رکھا اور پوچھا ’’اس فخر پاکستان بکرے کا کیا لو گے؟‘‘ بولا ’’صاحب ایک بکرا آپ کے شایان شان نہیں یہ جوڑی لے لیں، سستی مل جائے گی‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک اور گھوڑے کے قد جتنا بکرا رسی سے کھینچتے ہوئے پہلے بکرے کے برابر میں کھڑا کردیا۔

میں نے ایک نظر اس جوڑی پر ڈالی، دونوں بہت خوبصورت تھے مجھے ان کی جوانی اور حسن پر ترس آیا لیکن قربانی کے بکرے پر ترس کرنا اپنا ثواب کم کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے دل کڑا کر کے بیوپاری سے پوچھا ’’اس جوڑی کا کیا لو گے؟‘‘ بولا
’’ایک ہی بات کروں؟‘‘

میں نے جواب دیا’’ہاں کیونکہ مول تول میں وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں!‘‘
بولا ’’کم نہ زیادہ ….. پورے 6لاکھ روپے!‘‘

یہ سن کر اس بیوپاری سے کوئی بات کرنے کی بجائے میں واپس اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا میں سمجھ گیا کہ اس کا بکرے بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کا کوئی جذباتی شہری ہے اسے ملکی حالات کا دکھ ہے اور اپنے دکھ کے اظہار کے لئے اس نے یہ سارا ڈھونگ رچایا ہے۔ ورنہ قربانی کے بکرے بھی کبھی فخر پاکستان ہوئے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے