قربان لالے دی جان

عید ِ قربان سے پہلے اور عید والے دن بھی کئی لوگوں نے سوال کیا قربانی کا مقصد کیا ہے۔ سب سے پہلے وہی جواب ذہن میں آتا ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بتایا۔ ترجمہ: اللہ کو گوشت اور خون سے کوئی غرض نہیں۔ لیکن وہ تم سے پرہیزگاری کا تقاضا کرتا ہے ۔

عید کی رات اور عید کی صبح میں اہتمام سے اماں جی کی خدمت میں گزارتا ہوں۔ اگلے دن واجد بخاری صاحب کے گھر چائے پہ گیا۔کافی احباب گپ شپ کے لیے جمع تھے۔ ایک نے شکایت کی بیٹا لندن میں ہو تو زیادہ رابطہ رہتا ہے۔ گھر آ جائے تو مجھے نہیں ملتا۔ یوں لگتا ہے جیسے ڈالروں نے میرا بیٹا اغوا کر لیا ۔ وہ ماں باپ جنہوں نے کوہلو کے بیل کی طرح زندگی گزاری ۔ بچوں کو خون پسینے کی کمائی سے تعلیم دلوائی۔ انہیں پائوں پر کھڑا کیا۔وہ زندگی کی رعنائیوں میں ایسے کھوئے کہ جنم دینے والے جیتے جی اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ ایسے سینئر سیٹزن یا بزرگوں کی بھاری تعداد عید جیسے موقع پر خوش ہونے کی بجائے غم نا ک ہو جا تی ہے ۔

بزر گوں کے لیے اصل بیماری بُڑھاپے کی نہیں بلکہ اکلاپے کی ہو تی ہے ۔ مغربی دُنیا میں اکثر سینئر سیٹزن ایسے ہوتے ہیں جن کا پاٹنر یا جیون ساتھی چل بسا ہو۔ورنہ سماجی زندگی سے وہ کٹ نہیں سکتے ۔سماج ،سینئر سیٹزن اور معذوروں کے لیے ائیر پورٹ سے لیکر شاپنگ سنٹر تک ۔سٹاپ اور گھر سے لیکر کمیونٹی سینٹر اور پبلک پا رکس تک پا ر کنگ ،خصو صی را ستے ،بیٹری پہ چلنے والی گاڑیاں،سکوٹر نہ جا نے اور کیا کیا سہولتیں دیتا ہے ۔مغرب کی فلا حی ریاستیں اپنے آپ کو سما ج کا حصہ سمجھتی ہیں۔اسی لیے وہاں سب سے بڑی طاقت سماج ہی ہے ۔قر با نی کا یہ پہلوہما رے سما ج سے غائب نہیں ہوا ۔لیکن بدلتی قدروں میں سینئر سیٹزن سما ج کے عضو معطل بن جا تے ہیں۔مفید شہری نہیں رہتے ۔کاش کوئی پلانِنگ کمشن،کوئی مذہبی ادارہ،کوئی سما جی جا دو گر لوگو ں کو ایک سادہ سے راستے پر لگائے۔یہ راستہ ایک لُوک گیت کا مُکھڑا ہے ۔ جو پو ٹھو ہار ،پہاڑ ،ہزارہ،اور ہندکو شا عری میں یکساں طور پر مقبول ہے ۔ مصرعہ ہے ”قربان لا لے دی جان ‘‘۔لالہ ان ساری زُبا نوں میں بڑے بھا ئی ،والد، چچا ،تایا۔بزرگ رشتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔

اس ایک مصرعے میں درجنوں قبائل کی روایات پوشیدہ ہیں۔یہ روایت صدیوں پر محیط ہے ۔اس روایت کی جڑیں حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیلؑ سے جا ملتی ہیں۔قصص القرآن میںایثار اور خد اکی رضا کے رو برو سرجھکانے کے علا وہ اس قصے میں باپ بیٹے کی لا زوال محبت چھائی ہو ئی ہے ۔بیٹے نے وا لدِ محترم کے حکم پر اپنا سر تیز دھار خنجر کی نوک کے سامنے جُھکا دیا ۔باپ بیٹے کے رشتے کے تناظر میں ایک مضبوط قانونی اصول بھی وضح ہوا۔ جسے (influence of elder)کا نظر یہ ِ قانون کہا گیا ہے ۔جس کا مطلب یہ ہوا ،عمر اور مر تبے میں بڑے۔ خو ن کے رشتہ دار کے کہنے پرچھوٹا کسی پر حملہ کرے جس سے مضروب کی موت واقع ہو جائے تو ملزم کوسزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ کے فُل بینچ کے روبرو ایک سینئر پو لیس آفیسر کے 2 بیٹوں کے مقدمہ ِقتل کی سماعت میں،میں خود طویل بحث کا حصہ رہا۔فاضل بینچ نے اسی اصول پر فیصلہ صادر کیا ۔

قر با نی کا مقصد ہی اپنی عزیز ترین شے کو اللہ کے راستے میں پیش کردینا ہے۔لیکن فریج اور ڈیپ فریزر میں جمع شدہ گوشت کو نکا ل کر تقسیم کرنا کیوں مشکل ہو تا جا رہا ہے ؟ اس سوال پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔سنتِ ابراہیمی ؑ اور پیٹ کے درمیان فریج اور ڈیپ فریزر کی خلیج دور کر نے کی ا شد ضرورت ہے ۔یونانی طب،حکمت،ڈاکٹر اور سیانے سب کہتے ہیں۔ بیما ریاں کم کھا نے سے پیدا نہیں ہوتیں۔بلکہ زیادہ کھانا یعنی بسیار خوری بیماریوں کی نر سری ہے ۔حال ہی میں کنٹریکٹ پر وفاقی سر کا ر کے مُلازم2 عدد با بے بسیار خوری کی مہنگی ترین تا ریخ بنا نے میں کا میاب ہو گئے۔کون نہیں جا نتا ایک طرف دل کی شر یا نیں اور دوسری طرف گوڈے کھڑکا نے کا سب سے بڑا سبب گوشت خوری ہے ۔دل کے علاج پہ 87 لا کھ اور گوڈوں کی تبدیلی پر 70 لا کھ ۔یہ خرچ پاکستان کے اُن لوگوں نے برداشت کیا ۔جو ماچس کی تیلی اور جنازے کے کفن کے لیے بھی ٹیکس دیتے ہیں۔مگر قربانی نہیںدے سکتے ۔غریب اور بے آسرا لوگ۔
ایسے میںدل سے ہوک سی اُٹھتی ہے ۔

قربانی صرف عید کا نام نہیں بلکہ ایک رواج اور کردار کا نام بھی ہے ۔ یتیموں کو اُ ن کا حق دینا۔گوشت ناداروں تک پہنچانا۔ کھال بیچ کر غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا۔اور پورا سال قربا نی کے اس جذبے کو زندہ رکھناہی پرہیز گاری ہے ۔ ورنہ رب اُلعزت کو قربانی کے گوشت سے غرض ہے اور نہ ہی بہائے گئے خون سے۔عیدِقُربان پر ہماری خواہشوں کو ان دُعاؤں میں ڈھال دینا چاہیے۔

اس دَورِ پُر آشوب میں اے عید نہ آ تو
آئی ہے تو اسلوبِ براہیم سکھا تُو
کشمیر کی جنّت سے شہیدوں کا لہو ما نگ
طا غوت کو اسلا م کی طا قت سے ہرا تُو
کونین کے آقا کی رسالت کے عَلم کھول
توحید پرستو ں کو سکھا صبرو رضا تُو
در ماندگی ٔ شرعِ پیغمبر ؐ کی خبر لے!
خیبر کی سرحدیں سلہٹ سے مِلا تُو
اک نغمہ ٔ جاں سوزبہ عنوان ِ وفا چھیڑ
کونین کو دے اس کے تأثّر سے جِلا تُو
آفاق سے پیما نۂ مہتاب طلب کر !
شاعر کے دل آویز خیالوں میں سما تُو

بزر گوں کے لیے اصل بیماری بُڑھاپے کی نہیں بلکہ اکلاپے کی ہو تی ہے ۔ مغربی دُنیا میں اکثر سینئر سیٹزن ایسے ہوتے ہیں جن کا پاٹنر یا جیون ساتھی چل بسا ہو۔ورنہ سماجی زندگی سے وہ کٹ نہیں سکتے۔ سماج،سینئر سیٹزن اور معذوروں کے لیے ائیر پورٹ سے لیکر شاپنگ سنٹر تک ۔سٹاپ اور گھر سے لیکر کمیونٹی سینٹر اور پبلک پا رکس تک پا ر کنگ ،خصو صی را ستے ، بیٹری پہ چلنے والی گاڑیاں،سکوٹر نہ جا نے اور کیا کیا سہولتیں دیتا ہے ۔مغرب کی فلا حی ریاستیں اپنے آپ کو سما ج کا حصہ سمجھتی ہیں۔اسی لیے وہاں سب سے بڑی طاقت سماج ہی ہے ۔ قربانی کا یہ پہلوہما رے سما ج سے غائب نہیں ہوا ۔ لیکن بدلتی قدروں میں سینئر سیٹزن سما ج کے عضو معطل بن جاتے ہیں۔مفید شہری نہیں رہتے۔کاش کوئی پلانِنگ کمشن،کوئی مذہبی ادارہ،کوئی سما جی جا دو گر لوگو ں کو ایک سادہ سے راستے پر لگائے۔یہ راستہ ایک لُوک گیت کا مُکھڑا ہے ۔ جو پو ٹھو ہار ، پہاڑ،ہزارہ،اور ہندکو شا عری میں یکساں طور پر مقبول ہے ۔ مصرعہ ہے ”قربان لا لے دی جان ‘‘۔ لالہ ان ساری زُبا نوں میں بڑے بھا ئی ،والد، چچا، تایا۔بزرگ رشتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے