پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہیپا ٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ہیپاٹائٹس جیسے تیزی سے بڑھتے ہوئے مرض کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا سات فیصد ہیپا ٹائٹس کی مختلف اقسام میں مبتلا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے 1.4ملین، ہیپاٹائٹس بی کے 2بلین اور ہیپاٹائٹس سی کے 150ملین سے زائد لوگ شکار ہیں اور اس مرض سے سالانہ ایک ملین سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ جن کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ پاکستان میںبھی 10ملین سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔
ہیپاٹائٹس کے مرض میں مریض کا جگر ایک خاص قسم کے وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے اس مرض کے پھیلاﺅ میں سب سے بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر افراد میں منتقل کر دیتے ہیں-
ہیپاٹائٹس کا وائرس جسے عام طور پر (یرقان )بھی کہا جاتا ہے اس کی تین اقسام ہیں۔ا۔ ہیپاٹائٹس A۔۲۔ہیپاٹائٹس B۔اور ۳۔ ہیپاٹائٹس C۔طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس اے ذیادہ خطرناک بیماری نہیں اور اس یرقان کا مریض اکثر بغیر کسی علاج معالجے کے ہی صحت یاب ہو جاتا ہے اگر وہ بہتر خوراک اور پرہیز سے کام لے۔لیکن ہیپاٹائٹس بی اور سی کا مرض نسبتاً ذیادہ مہلک ہوتا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق اگر ہیپاٹائٹس بی کے مرض کا علاج نہ کیا جا سکے تو اس سے نہ صرف جگرکا کینسر ہو سکتا ہے بلکہ یہ ہلاکت کا سبب بھی بن سکتا ہے
خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں بیوٹی پارلر کا کردار اہمیت کا حامل ہے جبکہ مردوں میں غیرمعیاری ہئیرڈریسر یاحجام ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔
ہیپاٹائٹس کی بیماری خون یا اس کی مصنوعات کے تبادلے’استعمال شدہ سرنج یا منشیات میںمشترکہ انجیکشن’شیونگ بلیڈ’ناک یا کان چھیدنے والے آلودہ اوزار’بیوٹی و ڈینٹل اور دیگرسرجری آلات کا سٹریلائزڈ کئے بغیر استعمال’ آلودہ پانی اور کھانے پینے کی بازاری اشیا ءسے پھیلتی ہے۔
واٹر ریسرچ کونسل کی رپورٹ کی مطابق ملک کے 23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹیریا، آرسینک، مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے ۔پاکستان میڈیکل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی ہے جس کے باعث سالانہ 11 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے لاعلاج مرض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی ہے ۔ایک رپورٹ اس سے قبل بھی آئی تھی جس میں ملک میں پانی کے معیار پر تحقیق کرنے والے سب سے بڑے ادارے پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی جانب سے بوتل کے پانی پر کی گئی ایک تحقیق میں مارکیٹ میں منرل واٹر کے نام پر فروخت ہونے والے 63 مختلف برانڈز کے نمونے حاصل کئے جن میں سے 52 فیصد پینے کے لئے غیرمحفوظ پائے گئے۔
پاکستان میں وزارت صحت کی طرف سے سال 2008ء میں ہیپا ٹائٹس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس کے تحت 119 ملین ڈالر کی رقم کو ابتدائی طور پر ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں اس رقم کو اس موذی مرض کے اسباب کے خاتمے پر صرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاتعداد پاکستانی اب بھی اپنے مرض کے مفت علاج کے منتظر ہیں، جو اس کے علاج پر آنے والے اخراجات خود برداشت کرنے کی ہرگز صلاحیت نہیں رکھتے۔