میانمر کی رخائن ریاست میں پچیس اگست کو سکیورٹی فورسز کے متعدد چیک پوسٹوں پر حملوں کے بعد سے شروع ہونے والی ملٹری کاروائی میں بہت بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل کیا گیا ہے، آرمی کی طرف سے کریک ڈان میں جلاؤ گھیراؤ کے باعث روہنگیا کے ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، آپریشن کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اس لیے اعداد و شمار مسلسل بدلتی جارہی ہے۔ روہنگیا کے خلاف بڑے پیمانے پر ملٹری آپریشن کے باعث صورت حال بہت ہی انسانی المیے کی شکل اختیار کر گئی ہے. روہنگیا کو ایک طرح کی منظم نسل کشی کا سامنا ہے جو اپنی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے.
رخائن یا اراکان میں کئی نسلوں آباد اور گزشتہ کئی دہائیوں سے شہریت کے انسانی حق سے محروم روہنگیا کو میانمر اپنا شہری تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش، دنیا کا کوئی ملک اپنا شہری بنانے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اسے شہریت و تحفظ دلانے میں کامیاب ہوئی یے.
عالمی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث سب سے بڑا موضوع قرار نہ پانے کے باعث روہنگیا کا حالیہ انسانی المیہ ابھی تک عالمی برادری کی توجہ حاصل نہیں کر سکا، روہنگیا مسلم آج عالمی برادری کی طرف سے ایک طرح کے لاتعلقی و بے اعتنائی کے رویے کا شکار ہے جوکہ دشمنی سے بھی خطرناک رویہ ہے۔ اس لیے ہم نے یہ سوچا کہ ہم اپنی بساط کے مطابق سوشل میڈیا کی طاقت کو مظلوم کی داد رسی اور اس پر جاری مظالم کے انسداد کے لیے آواز بلند کرنے میں استعمال کریں۔ اس ڈیجیٹل دنیا میں عالمی معیشت، سیاست، سکیورٹی اور صحافت سے لے کر انسان کے انفرادی رویوں تک میں سوشل میڈیا بڑی بڑی تبدیلیاں لا رہا ہے، تمام شعبہ ہائے حیات میں مقاصد و ترجیحات کے بدلاؤ اور عالمی رائے عامہ کو کسی ایشو پر مرتکز کرنے میں اس کی اہمیت کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو ابھی پتھر کے زمانے سے باہر نہ نکلا ہو۔
جس مظلوم کے لیے کوئی بھی آواز نہ اٹھا رہا ہو وہ سب سے بڑا مظلوم ہے۔ چنانچہ ہم نے اس انسانی المیے کے دوران تجزیوں سے زیادہ مظالم کے فوری انسداد کے لیے آواز بلند کرنے کو اہم سمجھا۔ ہم نے روہنگیا کے لیے ایک عالمی مہم کے شروع کرنے کے لیے دوستوں کی رائے لی جس پر کافی دوستوں نے اسے بہت ضروری قرار دیا چنانچہ چند درد مند دل رکھنے والے دوستوں کی باہمی مشاورت سے روہنگیا کے لیے سوشل میڈیا کے توسط سے عالمی بیدار مہم بعنوان #International_Campaign_for_Rohingya a شروع کر دیا، یہ مہم انتیس اگست کو فیس بک سے شروع ہو گئی، مہم میں سوشل میڈیا کے ہزاروں صارفین شامل ہوتے گئے جس میں سماجی روابط کے ان ذرائع کی بدولت اور مہم میںشامل احباب کی جانب سے اپنے اپنے بین الاقوامی دوستوں کو مہم کا حصہ بننے کی دعوت دینی شرور کی، جس جس شخص تک اچھے انداز میںپیغام پہنچ رہا ہے وہ مہم کا حصہ بنتا گیا. دنیا کے مختلف ممالک و مذاہب اور اقوام سے لوگ ہمنوا بن رہے ہیں اور یوں اب یہ مہم بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ مہم میں دنیا کے مختلف ممالک کے سپورٹرز نے انگریزی زبان اپنے پیغام ہم سے شیئر کیے۔ انہیں ہم ایک الگ مضمون میں قارئین تک پہنچائیں گے۔ مہم کے لیے ایک ٹیگ بنائی گئی جبکہ حالیہ مظالم کے دوران سمندر میں جان بحق ہونے والی ایک بچی کی تصویر پر اردو اور انگریزی زبانوںمیں یہ جملہ لکھا ’’مجھے کسی نے نہیں بچایا‘‘ یہ تصاویر بہت زیادہ وائرل ہو چکی ہیں۔ جبکہ برما میں قتل و غارت کے سلسلے کو رکوانے کی اپیل کے ساتھ یعنی Stop Killing in Burma” “ کے نام جاری ایک ڈی پی ٹیگ کو بھی استعمال کیا گیا۔ مہم کے لیے جن اصولوں اور دائرہ کار کا خیال رکھا گیا اور جو چیلنجز درپیش آ رہے ہیں وہ الگ سے مضمون کا متقاضی ہے.
[pullquote]دنیا کی مختلف زبانوں میںانسداد ظلم کا پیغام
دنیا کی مختلف زبانوں میں ’’برما میں تشدد بند کرو‘‘ کی اپیل کو بھی مہم میں استعمال کی گئی جس میں زبانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، ابھی تک مندرجہ ذیل تیس سے زائد زبانوں میں ان کے باشندہ سپورٹرز کی جانب سے یہ پیغام لکھا گیا ہے۔
မြန်မာနိုင်ငံမှာအကြမ်းဖက်မှုတွေကိုရပ်တန့် (#Burmese)
Stop violence in Burma (#English)
阻止緬甸的暴力 (#Chinese)
버마의 폭력 사태를 중단하십시오. (#Korean)
ビルマの暴力を止める (#Japanese)
Прекратить насилие в Бирме (#Russian)
Stop geweld in Birma (#Dutch)
Stoppen Sie Gewalt in Burma (#German)
Arrêtez la violence en Birmanie(#French)
Zastavte násilí v Barmě (#Czech)
बर्मा में हिंसा को रोको (#Hindi)
बर्मामा हिंसा रोक्नुहोस् (#Nepali)
Ĉesu perforto en Birmo(#Esperanto)
Hentikan kekerasan di Burma (#Indonesian)
หยุดความรุนแรงในพม่า (#Thai)
Hentikan keganasan di Burma (#Malay)
Stop la violenza in Birmania (#Italian)
נא לעצור אלימות בבורמא (Hebrew#)
Ku daina kisan gilla a burma (#hausa/Nigerian)
Stopp vold i Myanmar (#Norwegian )
burma’da soykırımını durdurun (#Turkish)
བྷར་མའི་ནང་དྲག་སྤྱོད་མཚམས་འཇོག་དགོས། (#Tibetan)
Stop przemocy w Birmie #Polski #Polish
برما میں تشدد بند کرو (#Urdu)
توقف خشونت در برمه (#Persian)
وقف العنف في بورما (#Arabic)
په برما کې تاوتریخوالی ودروي (#Pashto)
ਬਰਮਾ ਵਿਚ ਹਿੰਸਾ ਰੋਕੋ (#Punjabi)
برما ۾ تشدد بند ڪريو (#Sindhi)
برمائنگ ظلم بیا ژھود (#Balti)
Burma lo manas zulm ban ateeen. (#Brushashki)
برما مہ ظلم بندکروں (#Gujri)f
برما بچ ظلم بند کرو #Hindco)
برما اِچ ظلم مکاو (#Siraiki)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[pullquote]روہنگیا کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں؟
اس انسانی المیے کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آپ سوشل میڈیا کے صارف ہیں تو اس ایشیو کو اجاگر کرنے کے لیے موثر پوسٹیں لکھیں/شیئر کریں (مگر سچی اور مثبت ہوں کسی نئے فتنے کا باعث بننے والی پوسٹیں نہ ہوں)۔
اگر آپ رپورٹر ہیں تو اس کی جامع رپورٹنگ کریں
آگر اینکر پرسن ہیں تو اس پر پروگرام کریں
اگر آپ کالم نگار ہیں تو اس پر کالم لکھیں
اگر آپ سوشل میڈیا بلاگر ہیں اس پر بلاگ لکھیں
اگر آپ انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں تو اسے مزید اجاگر کرنے کے لیے کردار ادا کریں
اگر آپ سیاست دان یا اراکین پارلیمان ہیں تو اس ایشیو کو ایوانوں میں قومی سطح پر اٹھانے کی کوشش کریں اور میانمر حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالیں اور ان کو روہنگیا مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے میں عملی طور ساتھ دیں۔ اس حوالے سے فوری طور پر پارلیمان کے اجلاسوں اور اقوام متحدہ میں قرار داد لا کر دینا کے دیگر ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سفارتی سرگرمیوں کو تیز کریں۔
اگر آپ انسانیت کے لیے کام کرنے والے ادارے چلاتے ہیں تو حکومتی سطح پر عالمی امدادی اداروں کے ذریعے متاثرین کی فوری مدد کے لیے قانونی و ریاستی سطح پر کوششیں تیز کریں۔
اگر آپ سفارت کار ہیں تو اسے سفارتی سطح پر اجاگر کریں
اگر آپ لابسٹ ہیں تو انسانی بنیادوں پر پالیسی سازوں کو میانمر میں ظلم کے انسداد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں۔
امختلف ممالک اور شہروں میں میانمر سفارت خانوں کے سامنے صدائے احتجاج بلند کریں۔ جہاں کہیں اس حوالے کوئی مثبت اقدام کیا جا رہا ہو اس کے ساتھ دیں۔
اس وقت تشدد و بربریت کے سلسلے کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہما سب کا اخلاقی، مذہبی اور انسانی فریضہ ہے۔
اگر عالمی برادری کچھ نہیں کرے گی تو پرائیوٹ عسکریت پسند تنظیمیں میدان میں اتریں گی پھر آگ و خون کا یہ کھیل برما کی سرحدوں سے نکل بھی سکتی ہے اور روہنگیا پر مزید قیامت ٹوٹے گی۔ مظالم کا نشانہ کوئی بھی بن رہا ہو، ظلم کا سلسلہ رک جانا چاہیے۔
الحمد للہ روہنگیا کے لیے عالمی مہم میں تمام بر اعظموں کے سو کے قریب ممالک سے مختلف رنگ و نسل,، زبان و مذہب کے انسان دوست لوگ شامل ہو چکے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان دوستی کے اعلی وصف سے سرشار احباب اپنے اپنے انداز میں آواز اٹھا رہے ہیں اور مظلوم روہنگیا کی داد رسی اور ظلم کے انسداد کے لیے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہم کی بڑے پیمانے پر پذائی میں کسی کا کمال نہیں بلکہ المیہ اتنا دردناک ہے کہ اس کے بارے میں جان کر انسان چیخے بغیر نہیں رہ سکتا بس ہمارا کام مظلوموں کے آہ و فغان کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ ہم اس چڑیے کی مانند ہیں جو نار نمرود میں خلیل اللہ کو دیکھ کر تڑپ رہی ہے اور اپنے چونچوں سے آسمان تک پہنچے آگ کے شعلوں کو بجھانے کی اس امید پر کوشش کر رہی ہے کہ ہم نار نمرود کو سلگانے میں شامل تھے نہ تماشائیوں میں اور نہ نے اعتنائی برتنے والوں میں، ہمیں اپنی اس بے بسی کا ادراک ہے کہ عالمی مفادات اور ریاستی طاقتوں کے سامنے ہم کچھ نہ کر سکیں، یہ بات طے ہے شاید ہم ظلم کے سلسلے کو روکنے کے لیے کوئی عملی کوشش کر سکیں یا نہ سکیں مگرٹھہرے پانی کی طرح سکوت چھائے ہوئے ماحول میںہم کچھ نہ کچھ ارتعاش پیدا کر سکیںگے. اپنی بساط کے مطابق ہم یہ معمولی سی کوشش کسی پر احسان نہیںبلکہ محض انسانی ہمدردی کا اخلاقی تقاضا سمجھ کر کر رہے ہیں جس میں درد مند دل رکھنے والے لوگ ساتھ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی گاؤں کی شکل اختیار کرنے والی اس دنیا میں کسی ایک کونے پر کوئی چیختا ہے تو اس کی آواز پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ اور دنیا کے مختلف شہروں، ملکوں اور خطوں سے جب ہزاروں اور لاکھوں لوگ روہنگیا کے لیے آواز بلند کریں گے تو ظلم کی شب دیجور امید کی روشن سحر میں بدل سکتی ہے۔
چنانچہ اب دنیا کے مختلف ممالک میں میانمر حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس شروع ہو چکے ہیں ، مختلف عالمی رہنماؤں نے روہنگیا کی داد رسی کرتے ہوئے میانمر حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ا، س سلسلے میں مسیحی روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا روہنگیا مسلم کی فریاد رسی کے لیے میانمر کے دورے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ترکی و ایران نے سرکاری سطح پر میانمر پر دباؤ اور ظلم کے شکار روہنگیا کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے۔ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ نے میانمر جا کر آنگ سان سوچی سے ملاقات کر کے رخائن ریاست کے حالات کو فور طور پر معمول پر لانے پر زور دیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس ایشیو پر بحث زور پکڑتی جارہی ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں حالات کی نزاکت اور شدت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی بدستور کوششیں کر رہی ہیں۔