پیپلزپارٹی کا گورباچوف

پیپلزپارٹی 2018میں حکومت بنائے گی ۔ یہ دعویٰ آصف علی زرداری نے عید کے تیسرے روز زرداری ہاوس نواب شاہ میں جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ عین ممکن ہے ۔ کیوں کہ سیاست کی طر ح بدل گئی ہے۔ آج حکومتیں عوام کی طاقت یا ووٹ سے نہیں بلکہ خفیہ ہاتھ کام دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ کہ آصف زرداری عوامی سیاست کی بجائے جوڑ توڑ کو ترجیح دیتے ہیں اور بلاول کو بھی اپنے سایے سے نکلنے نہیں دے رہے ہیں ۔جبکہ بلاول عوامی سیاست کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس امر سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بلاول کی سیاست کو پنپنے نہیں دیا جا رہا ہے۔

پارٹی کے اندر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری بلاول کو کسی خطرے سے دوچار نہیں کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسرا خیال یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنی سیاست کو بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلاول کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پارٹی میں آصف علی زرداری کی قیادت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا عام کارکن بلاول میں بینظیر بھٹو اور چیئرمین بھٹو کا عکس تلاش کرتے ہیں۔ بالخصوص پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کارکن آصف زرداری پر بلاول کو ترجیح دیتے ہیں جس کا برملا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں آصف علی زرداری اور بلاول کے دوروں کا موازیانہ کیا جا سکتا ہے۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کی رونمائی اچھی رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں پیپلزپارٹی کے اندر عمومی تاثر یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی کو چیئرمین شہید بھٹو کی طرز پر تعمیر کریں گے اور شوشلسٹ بنیادوں پر پارٹی کو لیکر چلیں گے ۔

فتح جنگ جلسے میں پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکرٹری جنرل ندیم افضل چن نے تقریر کرتے ہوئے مطالبہ بھی کیا کہ چیئرمین بلاول محنت کشوں اور کسانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے جامع پالیسی کا اعلان کریں ۔ پیپلزپارٹی عوامی مطالبات کو پورا کرنے کیلئے روڈمیپ دے ۔دوسری جانب پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے پنجابی میں تقریر کرکے پنجاب کو زبان دی ۔ دونوں رہنماوں کی تقاریر عوامی امنگوں کی عکاس تھیں ۔ دونوں نے پنجاب کے عوام کی حقیقی ترجمانی کا حق ادا کردیا۔ جلسے سے خورشید شاہ نے بھی خطاب کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا خطاب حسب سابق محض پارٹی چیئرمین کی انٹری تک محدود رہا ۔ پارٹی کارکن اور عمومی سطح پر لوگ بلاول کے خطاب کو سنجیدگی سے اس لئے نہیں لیتے ہیں کہ زیادہ تر کا خیال ہے کہ بلاول کی تقریر لکھی ہوتی ہے ۔بلاول کے اپنے وچار نہیں ہوتے ہیں۔ بات بھی سچ ہے۔ جو کسی نے لکھ دیا بلاول نے وہی بولنا ہے۔ ندیم چن یا کائرہ جو مرضی کہتے رہیں۔ بلاول میں وہ بات نہیں ہے جس کی توقع کی جا رہی ہے۔ ہاں اگر پیپلزپارٹی کو مزدروں ۔ کسانوں اور ہاریوں کی آواز بنانا ہے تو پارٹی کی مکمل تنظیم نو کرنا پڑے گی۔

پیپلزپارٹی پر پی ٹی آئی کے اثرات کو نظریاتی بحثوں کے ذریعے زائل کرنے کیلئے شعوری کوشش کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں پارٹی کی تنظیم سازی کی ذمہ داری قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن کی ہے۔ پنجاب کے یہ دونوں رہنما پارٹی کے اندر فیورٹ ہیں۔ عوام میں بھی دونوں کو پسند کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں اگر پیپلزپارٹی توانا نہیں ہے تو اس کی وجہ بھی مذکورہ بالا رہنما ہیں ۔جنہوں نے پارٹی کی تنظیم سازی پر وہ توجہ نہیں دی ہے پارٹی حالات جس کا تقاضا کر رہے تھے۔پارٹی میں تحرک پیدا کرنے کیلئے تنظیمی دوروں کی اشد ضرورت ہے جو نہیں کیے جا رہے ہیں۔ اس کے پچھے کیا وجوہات ہیں اس امر سے تو پارٹی قیادت ہی واقف ہو گی مگر نچلی سطح پر پارٹی میں تنظیم اور نظم کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ پارٹی کی یہ صورتحال صرف پنجاب میں ہی نہیں ہے بلکہ لاڑکانہ جو کبھی پیپلزپارٹی کا حب ہوا کرتا تھا وہاں بھی پیپلزپارٹی اگر آج جلسہ کرے تو فتح جنگ سے زیادہ لوگ جمع نہیں کر پائے گی۔ تنظیمی طور پر پاکستان بھر میں پیپلزپارٹی کمزور ہے اور کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ وجوہات قیادت کی تنظیمی امور میں عدم دلچسپی ہے۔ آصف علی زرداری پیپلزپارٹی کیلئے گورباچوف ثابت ہو رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے