سرزمین برما۔۔۔۔ارزاں ہے خون مسلم!

ماں روتے ہوئے بڑی مشکل سے بات کر رہی تھی ۔آواز اس کے گلے سے نکلتی ہی نہ تھی ۔وہ بے چاری اور کیا کرتی ،گھر بار تو سب لٹ گیا تھا،اپنا آشیانہ ،خوابوں کا مسکن،من کا درپن اپنی آنکھوں کے سامنے خاک ہوتے دیکھا تھا ،تھکے پاﺅں ،مضمحل بدن ،مستقبل کی بے یقینی ،ٹھکانہ ملنے سے مایوس ایک عورت اگر بلک بلک کر نہ روئے تو اور کیا کرے لیکن یہ دکھ بھی شاید جھیل جاتی لیکن اپنے لخت جگر کی جدائی کا دکھ کیسے برداشت کرتی۔وہ لعل جو منتوں سے ملا ہو ،جس کی مِسیں بھی نہ بھیگی ہوں ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے برمی فوجیوں کی چیرہ دستی اور ظلم نے اس کا جگر گوشہ اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا تھا ۔وہ اپنے ارد گرد کس سے مدد مانگے سب ہی تو اس جیسے تھے ۔سب جاں بلب تھے ،سب ہی بے وطنی کے آسیب کے مارے ہوئے تھے ۔سب ہی تو بے وطن تھے ۔فطرت یہ المیہ روز دیکھتی ہے ۔

ایسی ہزاروں مائیں ہیں جن کے لعل روز ان سے بچھڑ جاتے ہیں اور وہ اپنی بے بسی کا ماتم کرتی ہوئی خود بھی کہیں برما یا بنگلہ دیش کی کسی سرحد پر شہریت کی درخواست بنے مر جائیں گئیں۔ برماگزشتہ صرف چند سالوں سےہی مسلمانوں کی قتل گاہ نہیں بنا ہوا بل کہ اس سرزمین پر یہ خون کئی صدیوں سے ارزاں ہے۔برما کا سب سے بڑا شہر رنگون جہاں آخری مغل تاجدار مدفون ہے جس کے گیارہ بیٹوں کے سر رنگون کی جیل میں ناشتے کے دسترخوان میں سجا کر اس کے سامنے پیش کیے گئے ۔برما ہی تھا جہاں برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں شکست دینے کے بعدجاپان نے برطانوی وفاداری کا انعام مسلمانوں کی خون میں رنگی ہوئی لاشوں کے طور پر دیا تھا ۔مسلمان برما کی کل آبادی کا چار فیصد ہیں ۔1785 میں یہ برما سے بے داخل کر دیے گئے تھے پھر انھیں 1820 کے بعد برطانیہ(ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری میں ) نے دوبارہ لا کر برما میں آباد کیا ۔اسی لیے برمی ایک طرف تو ان مسلمانوں کو برمی نہیں مانتے اور کیوں کہ یہ برطانیہ کے حلیف رہے ہیں اس لیے برما میں روہنگیا مسلمان نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہیں ہیں ۔یہ قتل عام کوئی فوری حادثہ نہیں ہے اس کے پیچھے مکمل منصوبے موجود ہیں ۔17 ، اکتوبر کو فیتھ موومنٹ آف اراکان نے مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر میانمار کی فوج پر حملوں کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر اپ لوڈ کرکے ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول کی۔برما میں مسلمان متشدد گروہ موجود ہیں اور وہ کاروائیاں بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا تعلق عام روہنگیا مسلمانوں سے نہیں ہے ۔برما کے مسلمان ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی آزاد ہوئے اور ان کی خواہش تھی کہ انھیں مشرقی پاکستان میں شامل کر لیا جائے لیکن اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی اس پیش کش کو قبول نہیں کیا اور ”ارکان“ کا حصہ برما میں شامل ہو گیا۔آزادی کے لیے روہنگیا مسلمانوں نے ایک جہادی تنظیم بھی بنائی لیکن آزادی انھیں نصیب نہ ہو سکی۔اس لیے برمی حکومت ہر دور میں ان مسلمانوں سے متنفر ہی رہی اور روہنگیا مسلمانوں کا وجود ایک سوال ہی بنا رہا۔

برما میں اقتدار میں آنے والی ہر بدھسٹ حکومت نے ان سے متعصبانہ رویہ رکھا۔ ۱۹۸۲ میں برمی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو یہ کہِ کر غیر ملکی قرار دے دیاکہ یہ بنگلہ دیشی ہیں اور بنگلہ دیش نے انھیں برمی کہِ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔برما خود ایک طویل عرصے تک فوجی عمل داری میں رہا ہے لیکن اس فوجی عمل داری میں اس طرح کا قتلِ عام نہیں ہوا ۔برما دس بڑے اضلاع اور ہزاروں دیہات پر مشتمل ملک ہے ۔اس میں کئی مذاہب کے لوگ آباد ہیں لیکن سب سے بڑا مذہب بدھ مت ہے جو کہ کل آبادی کا 84 فیصد ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ ترقی کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ یہ ملک دنیا میں پیدا ہونے والی ہیروئیں کا25 فیصد حصہ کاشت کرتا ہے ۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نشیلی ادویات کے اعتبار سے برما کا دنیا میں بڑا حصہ ہے ۔ہیروئین کی پیداوار کے لیے دنیا میں کاشت کی جانے والی ”اوپیئم“برما میں صرف بڑی مقدار میں نہیں بل کہ بہت بڑی مقدار میں کاشت کی جاتی ہے ۔برما سارک مملک کے اتحاد کا حصہ نہیں ہے جب کہ اس کے آس پاس کے تمام ممالک سارک اتحاد میں شامل ہیں ۔برما میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں اس وقت ”نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی “ اقتدار میں ہے جس کی سربراہ”اینگ سانگ سوچی“ہیں ۔یہ خاتو ن نوبل انعام یافتہ ہے ،بارک اوباما سے اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں ،اور عیسائیوں کی مذہبی ریاست کے سر براہ ” پوپ فرانسک “کے ساتھ بھی بہت اچھے مراسم ہیں ۔حتی کہ وہ ”اینگ سانگ سوچی“کی خواہش پر برما بھی آئے اور جس کی وجہ سے برمی عسائیوں کے ووٹ اسے حاصل ہوا ۔

اس وقت برما میں ہونے والا قتل عام کوئی متشدد گروہ نہیں کر رہے بل کہ برمی حکومت خود کر رہی ہے اور جواز کے طور پر ”ارکان“کے متشدد گروہوں کی کاروائیوں کو پیش کرتی ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں اور برمی فوج پر حملہ آوار ہو رہے ہیں ۔کیوں کہ یہ متشدد گروہ مسلمان ہیں اور روہنگیا مسلمان ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اس لیے انتقام کا نشانہ بھی یہی مسلمان بن رہے ہیں جو اپنے دیس میں بھی پردیسی ہیں اور پردیس میں خارجی ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ :یہ سب کچھ وہاں کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سب قتل و غارت گری صرف کسی مذہبی منافرت کی بھٹی کی وجہ سے نہیں ہے بل کہ اس کے پیچھے بین الاقوامی محرکات موجود ہیں ۔میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اس وقت دنیا میں کہیں بھی بارود کو لگنے والی ہر چنگاری” واشنگٹن ڈی سی“کے بھٹیار سے نکلی ہوتی ہے ۔جنوبی ایشیا سے سرمایا درانہ نظام کی لپٹتی ہوئی بساط اور چین کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے خوف زدہ امریکی حکومت ایک نیا محاذچاہتی ہے (جسے جنرل مشرف نے زخمی ریچھ سے تعبیر کیا تھا )اور سارک ممالک کے علاوہ اس وقت یہ جنگ برما کے جغرافیے ہی میں لڑی جا سکتی ہے اور برمی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اصل میں مسلم دنیا کے جنگجوں کے لیے میدان فراہم کریں گے ۔لیکن اب یہ کارڈ اتنی کامیابی سے استعمال نہیں ہو سکتا جس قدر شددت کے ساتھ افغانستان میں استعمال ہوا تھا۔برما کی جمہوری حکومت کی حیثیت اس وقت ایک کٹ پتلی سے زیادہ نہیں ہے ۔افغانستان امریکہ بہادر کے ہاتھ سے ریت کی طرح نکل رہا ہے ،پاکستان کی بیورو کریسی اب امریکہ نواز پالیسی سے گریز کر رہی ہے بھارت داخلی لحاظ سے با لکل جدا پالیسی رکھتا ہے ۔بنگلہ دیش کے ساتھ چین کے مراسم مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں ،بھوٹان میں چین سرمایا کاری کر رہا ہے(اس کی تفصیلات کسی اور کالم میں پیش کریں گے)۔گویا جنوبی ایشیا میں سے سرمایا دری کا اثر نفوذ الوداع الوداع کے مراحل میں ہے ایسی صورت میں برما ہی ایک تر نوالہ ہو سکتا ہے ۔یہ جنگ خام مال ،صارفین ،سستی لیبر اور منڈیوں کی جنگ ہے۔سادہ لفظوں میں معاشی مفادات کی جنگ ہے جس کا اب تک ایندھن مسلمان ہی رہے ہیں چاہے وہ افغانستان ہو ،عراق ہو ،فلسطین ہو،لیبیا ہو یا اب برما ہے ۔

دنیا کے دیگر ممالک اس حوالے سے کیا کریں گے یہ تو ان کا معاملہ ہے لیکن پاکستان میں ان واقعات کو جس شددت سے بیان کیا جا رہا ہے یہ تیور بتاتے ہیں کہ یہاں ایک نیا محاذ کھولنے کی پوری تیاری کی جا رہی ہے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے حکومت پر زور ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔ان میں سے کچھ تو صرف سیاسی ریٹنگ کے لیے یہ بیانات دے رہے ہیں جب کے کچھ کے پاس سابقہ عسکری تجربہ بھی ہے اور اگر ڈالر کی گردش پاکستانی معاشرے میں غیر فطری انداز سے بڑھتی یا گھٹتی ہے تو اس کامطلب یہ ہو گا کہ ہمارے نوجوانوں کا کندھا ایک بار پھر آزمایا جانا ہے ۔یہاں ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے رہیں لیکن یہ کوئی مذہبی جنگ نہیں ہے ۔قصور بدھ مت کا نہیں ، قصور ہے انتہا پسندی کا۔ چاہے یہ انتہا پسندی بدھوں میں ہو، ہندووں میں، یہودیوں میں، عیسائیوں میں یا مسلمانوں میں ،یہ اجتماعی طور پر انسانیت کا کینسر ہے۔

مسلم ممالک کو یہاں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس مذہبی انتہا پسندی کو کہاں سے ہو ا دی جا رہی ہے ۔اس کے لیے بہترین حل تو یہ ہو گا کہ ”سارک فورم“ کو استعمال کیا جائے کیوں کہ برما کے سارک ممالک سے معاہدات بھی ہیں اور تجارت بھی اگر صرف بنگلہ دیش ہی برما سے اپنی تجارت بند کر دے تو برما کو ایک ماہ کے اندر اندر ہی اس مسئلے کا تصفیہ کرنا پڑے گا ۔پھر‘‘او۔آئی۔سی ’’کس مرض کی دوا ہے پاکستان اس کا مضبوط ممبر ہے ۔اس فورم کے ذریعے ہفتوں میں یہ معاملہ نپٹایا جا سکتا ہے ۔پھر ہر ملک انفرادی طور پر اگر دباو بڑھائے تو کب تک تاب لائی جا سکے گی ۔اس وقت تو فوری ضرورت یہ ہے کہ ان مہاجرین کے کھانے کے لیے کھانا ،رہنے کے لیے ٹینٹ اور دوائیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔کیوں کہ صرف بنگلہ دیش اتنی بڑی تعداد کو اکیلے نہیں سنبھال سکتا ۔بین الاقوامی اداروں اور‘‘این۔جی۔اوز’’کو برما میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔

تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ باقی ہے کہ اس میں میانمار کا محل وقوع ، مذہبی تنوع اور تاریخی پیچ و خم بہت خطرناک میدان فراہم کررہا ہے۔جہاں تک بات مسلم ممالک کی ہے تو وہ خواب غفلت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں کوئی آواز،کسی مظلوم کی کوئی چیخ،کسی بے کس کی کوئی سسکی نہیں پہنچ سکتی ۔ترکی نے جن اقدامت کی بات کی ہے کاش کہ وہ اس میں مخلص ہوں اگر وہ اقدامات ایک مہرے کی حیثیت سے ہوئے تو پھر برمی مسلمانوں کے گھر تا دیر جلیں گے اور ہم فیس بک کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر کے ان کا دکھ بانٹنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکیں گے۔۔ میانمار کی جغرافیائی اہمیت،یہاں کے بے پناہ وسائل میں سامراج کی تاریخی دلچسپی کچھ اور ہی منظر نامہ چاہتی ہے ۔

اگر ہماری یہی تمنا ہے کہ کوئی آہنی ہاتھ ان ظالموں کے ہاتھ روکے تو پھر ہمیں یہ یقین بھی کرنا ہو گا کہ وہ آہنی ہاتھ اپنی پوری قیمت وصول کر ے گا اور اصل سے کئی سو گنا زیادہ کرے گا ۔یہاں سفارتی ،سیاسی اور معاشی دباو کے ذریعے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اگر دانش اجتماعی سے کام نہ لیا گیا تو پھر زخمی ریچھ کو خون میسر آئے گا اور ہمیں گہرے اور دردناک زخم ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے