امہ کہاں گئی؟؟ کب جاگے گی؟؟

پچاس سے زائد اسلامی ممالک۔ وسائل اور پیسہ بے انتہا۔ اکثر ممالک کی اپنی اپنی فوج۔ پاکستان ، ترکی، مصروغیرہ کی افواج کا تو دنیا کی بیس بہترین افواج میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ایک اسلامی ملک پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں کیوں کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں۔ یہاں تو سفارتی اور سیاسی لیحاظ سے بھی مسلمانوں میں کوئی ایکا نہیں۔

گزشتہ پندرہ ،بیس سال کے دوران ہی لاکھوں مسلمانوں کو مارا گیا۔ اس عرصہ کے دوران صرف افغانستان اور عراق میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کو شہید کیا گیا۔ کہیں اقوام متحدہ کو ساتھ ملا کر اس قتل و غارت کا کھیل کھیلا گیا تو کہیں مہلک ہتھیار بنانے کے جھوٹے الزام پر پورے ملک کو تہس نہس کر دیا گیا۔ کہیں جمہوریت کے نام پر کسی مسلمان ریاست میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی تو کہیں جمہوریت کو ختم کرنے کے لیے خون خرابہ کرایا گیا۔ پاکستان کو ایک سازش کے تحت دہشتگردی کے اندر دھکیلا گیا جس کے نتیجے میں ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود الزام آج بھی یہی لگایا جا رہا کہ دہشتگردی کی نرسریاں اور پناہگاہیں پاکستان میں ہی موجود ہیں ۔

مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جارہا ہے اور اسلامی امہ کو یکجا کرنے کی کوشش کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کو ختم کروا دیا گیا تاکہ کوئی مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہی نہ کرے۔ اب سب مسلم ممالک کی یہ حالت ہے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے۔قوم پرستی (nationalism) نے امہ کے اسلامی تصور کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف آپس کی لڑائیوںنے مسلمانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہر قسم کے ظلم و ستم کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔

ویسے تو گزشتہ چند دہائیوں سے برما (میانمار) میں روہنگیا مسلمانوں پر بھی زمین تنگ کی جا رہی تھی لیکن 2012سے برمی فوج اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت اور ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس دوران بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر ہونا پڑا ۔ اکثریت نے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کیا۔ حالیہ برسوں میں سیکڑوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ایک بار پھر برمی فوج اور پولیس بدھ مت شدت پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کئی سو مسلمانوں کو درندگی کے ساتھ مارا گیا۔ تقریباً دو سو سال سے برما میں بسنے والے روہنگیامسلمانوں جن کو برما کی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، کی کئی بستیوں کو آگ بھی لگادی گئی۔ ان دہشتگردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ایک بار پھر بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے لیکن حسینہ واجد کا دل ابھی تک نرم نہیں ہوا۔

روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق سوشل میڈیا کے ذیعے جو معلومات فراہم کی جا رہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ ان مظالم کی تصویر کشی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کئی غیر مسلموں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا لیکن دنیا کے طاقت کے مراکز کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ اس موقع پر قوم پرستی میں بٹے مسلمان گمشدہ امہ کو یاد کر رہے ہیں لیکن کوئی امید نہیں کہ یمن کے خلاف یک جا عرب ممالک کی فوج برما کے خلاف بھی کھڑی ہو گی۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا جنرل (ر) راحیل شریف کی زیر قیادت 34 ممالک کی اسلامی فوج برما جیسے معاملات میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے استعمال ہو گی یااس کا مقصد بھی مسلمانوں کی تقسیم کو مزید گہرا کرنا ہو گا؟ مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے برما کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دیئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان برما کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات کو وہاں مسلمانوں کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے جائزہ لے گا؟ ترکی کے طیب اردگان نے ہمیشہ کی طرح ایک مسلمان کا کردار ادا کرتے ہوئے برما کی حکومت کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

اس کے ساتھ ساتھ اردگان نے برما کی رہنما آنگ سان سوچی کے علاوہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد سے بھی بات کی تاکہ اس قتل و غارت کو روکا جا سکے اور مہاجرین کو بنگلہ دیش میں امن کے ساتھ منتقل کیا جا سکے۔ لیکن نوبل امن ایوارڈ حاصل کرنے والی سوچی اب بھی بضد ہیںکہ دنیا کو برما کے بارے میں غلط اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ سوچی روہنگیا مسلمانوں پر شدت پسندی اور دہشتگردی کے الزامات لگا رہی ہے لیکن اس بات کے لیے تیار نہیں کہ کوئی بین الاقوامی ٹیم برما آ کر تحقیقات کرے کہ مسلمانوں پر وہاں کس حد تک ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ قومیتوں میں بٹی امہ کی مسلمان حکومتیں اس معاملہ میں اپنا الگ الگ درعمل دے رہی ہیں جس کا نہ کوئی اثر ہے نہ اہمیت ۔ تقسیم شدہ امہ اقوام متحدہ کی طرف تو دیکھ رہی ہے، اُس کی نظریں واشنگٹن پر تو مرکوز ہیں لیکن وہ اپنی اُس قوت سے آگاہ نہیں جو اُس کے اپنے پاس ہے اور نہ ہی اُسے اُس ذمہ داری کا احساس ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر ڈالی ہے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ (مفہوم) اور تمھیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مدد گار دے دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے