چلو بیانیہ بدل دیتے ہیں

ہم نے اپنی عادتیں تو بدلنی نہیں چلو بیانیہ بدل دیتے ہیں

ہمارے تجزیہ نگار بعض دفعہ ایسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جن کا یا تو کوئی مطلب نہیں ہوتا یا کم از کم راقم کو سمجھ نہیں آتا۔

دو سال ہونے کو آئے ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ ٹی وی پر لفظ ‘بیانیہ’ سنا تھا۔ پہلے کان کھٹکے پھر دل خوش ہوا کہ یہ ایک ادبی اصطلاح ہے جو حلقۂ اربابِ ذوق میں کسی افسانے یا ناول کے محاسن یا جھول واضح کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

سچی بات یہ ہے کہ لفظ بیانیہ کا پورا مطلب مجھے تب نہیں معلوم تھا لیکن دل خوش ہوا کہ ہمارے تجزیہ نگار بھی صاحبِ ذوق ہوتے جا رہے ہیں۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے کالموں میں، مضامین میں، فوج کے حق میں اور فوج کے مخالف تقریروں میں، منبروں سے وزارتِ خارجہ کے بیانات میں، سجّے کھبے اور درمیانے دانشور سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ بس ہمیں بیانہ بدلنا ہوگا۔

ابھی بدلو، فوراً بدلو، بیانیہ بدلو۔ بعض دفعہ تو بیانیے کے بارے میں ان بیانات میں اتنی بےقراری ہوتی کہ لگتا کہ جیسے پوری قوم کے ماضی و حال کی کہانی نہیں کسی منّے کا پوتڑا ہے جو گندا ہو گیا ہے اور فوراً نہ بدلا تو منّا رو دے گا۔

ہمارے تجزیہ نگار بعض دفعہ ایسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جن کا یا تو کوئی مطلب نہیں ہوتا یا کم از کم راقم کو سمجھ نہیں آتا۔ آدھی زندگی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے سپیلنگ یاد کرتے گزری اور پھر کسی ستم ظریف نے اس کا ترجمہ کر کے اسے تضویراتی گہرائی بنا دیا۔ دل کیا کہ فیروز الغات اٹھاؤں اور اپنے ہی منہ پر دے ماروں۔

لیکن اس ہفتے مجھے لفظ ‘بیانیہ’ کی فوراً سمجھ آ گئی۔ ایک پنجابی چینل پر ایک تجزیہ نگار بیٹھے تھے۔ پہلے تو دل سے آہ نکلی کہ میریا ربّا تجزیہ نگار پنجابی میں بھی تجزیہ نگار ہی رہتا ہے۔ پھر وہ بولے کہ ‘سب توں پہلے سانوں لوڑ اے کہ اسی اپنا بیانیہ بدلیے’; مجھے پوری بات سمجھ آگئی۔ یہ بھی احساس ہوا کہ انسان جتنی بھی فارسیاں سیکھ لے کام کی بات اپنی ماں بولی میں ہی سمجھ آتی ہے۔

جو بات سمجھ آئی وہ یہ کہ ہم میں اب ایک اتفاقِ رائے ہے کہ ہم نے اپنی عادتیں تو بدلنی نہیں بس کہانی بدلنی ہے۔ فعل وہی ہوں گے بس قول میں ذرا رنگ آمیزی کرنی ہے۔ ان شادی شدہ مردوں کی طرح جو روزانہ رات کو گھر سے باہر رہ کر کام وہی کرتے ہیں لیکن گھر آ کر بیوی کے سامنے بیانیہ روز بدلتے ہیں۔

مجھے لگا کہ بیانیہ بدلو، بیانیہ بدلو کی رٹ لگانے والے وہی لوگ ہیں جو چند سال پہلے پاکستان کے امیج کی فکر میں مرے جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ گھریلو اور بیرونی جنگوں کی وجہ سے ہمارا جسم زخم زخم ہے بلکہ ہمارے چہرے پر کچھ کیل مہاسے نکل آئے ہیں جنھیں فائزہ بیوٹی کریم لگا کر دور کیا جا سکتا ہے، کالے کو گورا بنایا جا سکتا ہے اور گورے کو چن ورگا۔

دنیا کی غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں سمجھایا جائے کہ ہم تو کھادی کے کرتے پہننے والے کوک سٹوڈیو پر سر دھننے والے لوگ ہیں۔ دنیا کو فیشن شو دکھا کر قائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی نہ مانیں تو ہمارے ٹرک آرٹ میں بنے رنگ برنگے کبوتر اور پھولوں کی جھالریں ہی دکھاؤ۔

اگر کوئی ہماری مسجدوں، بازاروں اور چھاؤنیوں پر فدائی حملے کرنے والوں یا پولیس چوکیوں پر پھٹنے والوں کا ذکر کرے تو کہہ دو کہ ناراض نوجوان ہر قوم میں ہوتے ہیں، کوک سٹوڈیو کا نیا سیزن آنے تک حالات قابو میں آ جائیں گے۔

اگر کوئی ہماری مسجدوں، بازاروں اور چھاؤنیوں پر فدائی حملے کرنے والوں یا پولیس چوکیوں پر پھٹنے والوں کا ذکر کرے تو کہہ دو کہ ناراض نوجوان ہر قوم میں ہوتے ہیں، کوک سٹوڈیو کا نیا سیزن آنے تک حالات قابو میں آ جائیں گے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے ملک میں جن قوتوں نے بیانیہ بدلنا تھا انھوں نے اتنی تیزی سے اور اتنی مرتبہ بدلا کہ بڑے بڑے ادبی نقاد بھی چکرا جائیں۔ ایک انجمن شروع ہوئی پھر سپاہ بنی اور اب العالمی قسم کی کوئی چیز ہے۔
جو محلے کی مسجد پر قبضے کے لیے جھگڑتے تھے انھوں نے لبیک کا ایسا نعرہ لگایا کہ میرے جیسے گناہ گار بھی گردن کٹوانے کو پھرتے ہیں۔ جو کشمیر آزاد کروانے نکلے تھے وہ پہلے اپنے ہی ملک میں ایدھی بننے کی کوشش میں لگے رہے، پھر فیصلہ کیا کہ لال قلعے کو آزاد کروانے سے پہلے ضروری ہے کہ لاہور کو آزاد کروایا جائے۔
حلقہ 120 کے انتخابی پوسٹرز میں قائداعظم اور ملی پارٹی کے امیدوار کی تصاویر ساتھ ساتھ دیکھ کر کیا آج کل کے بچوں کو یہ تاثر نہیں ملتا کہ دو بھائی تھے جو تقسیم کے وقت بچھڑ گئے تھے اور اب لاہور کی گلیوں میں دوبارہ ملے ہیں۔

یہ ہوتا ہے بیانیہ بدلنا۔

ہم پوری دنیا میں پھیلے اپنے دشمنوں اور بچے کھچے دوستوں کی بات نہیں مانتے نہ مانیں، اپنے بھائیوں سے تو کچھ سیکھ لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے