صا لحین کے ’ غریب محترم

سراج الحق صاحب یقیناً بہت سادہ ہوں گے، مسئلہ مگر یہ ہے کہ عوام اب اتنے سادہ نہیں رہے۔ پروین شاکر کے عہد کے وہ چالاک بچے ، جو دن کے وقت جگنوؤں کو پرکھنے کی ضد کیا کرتے تھے ، اب بڑے ہو چکے ہیں ۔ عمر کے ساتھ ان کا ذوقِ ستم بھی بدل گیا ہے۔ چالاک ہی نہیں اب وہ گستاخ بھی ہو چکے ہیں ۔ جگنوؤں کو نہیں اب وہ قائدین انقلاب کو پرکھتے ہیں ۔ حُبِ امیر کے غنچے میں چہچہانے والی بلبلوں کی خیر کہ لطفِ گویائی میں ان کی ہم سری ممکن نہیں ۔ پرانے وقتوں میں قصہ چہار درویش ہوا کرتا تھا ، اب ’ قصہ یک درویش‘ہے اور بلبلوں کے گائے ہوئے دیوان ۔

سراج الحق ایک سادہ آدمی ہیں ۔ اس سادگی نے شروع میں لوگوں کو متاثر بھی کیا ۔ پھر ایک وقت آیا محسوس ہونے لگا کہ ان کی سادگی اور درویشی کی کہانیوں میں کچھ مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ گزرا تو یہ احساس بھی پیدا ہونے لگا کہ سوشل میڈیا پر یہ مبالغہ آمیزی ایک منظم طریقے سے کی جا رہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی اس مہم کے روح رواں وہ غیر تربیت یافتہ لوگ نہیں جو سراج صاحب کی محبت میں جماعت اسلا می میں آ گئے ہوں اور امیر محترم کی محبت میں مبالغہ کر رہے ہوں بلکہ اس کار خیر میں وہ ’ تربیت یافتہ ‘ حضرات شامل ہیں جو ایک عرصے سے جمعیت اور جماعت سے وابستہ ہیں ۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جماعت اسلامی کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے کہ امیر جماعت کی سادگی اور درویشی کو ایک پرچم بنا کر معاشرے میں لہرا دیا جائے؟

اس داستان ہوشربا کا آغاز پشاور سے لاہور کے ایک سفر سے ہوتا ہے۔ چند سال تو عزیز ہم وطنوں کو یہی بتایا جاتا رہا کہ باقی وزراء لاہور گئے تو ان کا ٹی اے ڈی اے اتنا زیادہ بنا لیکن ہمارے صوبائی وزیر سراج الحق کی سادگی اور ایمانداری دیکھیے کہ چند سو روپوں میں دورہ لاہور کر کے آ گئے۔ جو رقم بتائی گئی وہ اتنی کم تھی کہ اس میں کوئی گاڑی تو کیا بیل گاڑی بھی کسی مسافر کو لاہور نہ لے جا سکے ۔ لیکن ہم طالب علموں نے Willing suspension of disbelief کے اصول کے تحت یقین کر لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا ۔

اس کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ سراج الحق اتنے درویش اور سادہ آدمی ہیں کہ ان کے صاحبزادے صبح کی نماز میں شریک ہونے آئے تو ان کی بنیان میں سوراخ تھااور وہ پھٹی ہوئی تھی ۔ ہم طالب علموں کو یہ بات کچھ عجیب سی تو لگی لیکن اسے رد کرنے کی ہمت نہ ہو سکی ۔ ہم نے راوی کی قوت مشاہدہ پر رشک کرتے ہوئے نہ صرف اس بات کا یقین کر لیاکہ بنیان پھٹی ہوئی تھی بلکہ یہ بھی مان لیا کہ اس کی وجہ صاحبزادے کی سستی یا جوانوں میں پائی جانے والی عمومی بے نیازی نہیں بلکہ سراج الحق صاحب کی دیانت اور درویشی ہے کہ وہ ایک صوبے کے وزیر خزانہ رہے مگر آج بھی اپنے بچے کو ایک بنیان خرید کر نہیں دے سکتے۔

بلبل ہزار داستان اب کی بار ایک نیا قصہ لے کر آگئی کہ سراج الحق قربانی کے لیے بیل لینے گئے لیکن مہنگائی کی وجہ سے بیل نہ خرید سکے اور بکرے پر ہی اکتفا کرنا پڑا ۔ ہم نے مروت میں اسے بھی ان کی سادگی کی دلیل سمجھ کر قبول کر لیا اور یہ تک نہ پوچھا کہ بیل اتنا ہی پسند تھا تو الخدمت کی اجتماعی قربانی میں شریک ہو جاتے۔ حد ادب میں لوگوں نے اس سوال کو بھی لب پر نہ آنے دیا کہ پورا بیل انہیں چاہیے ہی کیوں تھا؟ کسی بیل میں حصہ ڈال کر بھی قربانی ہو سکتی تھی اور جتنے کا انہوں نے بکرا خریدا اتنے میں دو حصے ڈالے جا سکتے تھے ۔

عید والے دن تو مگر حد ہی ہو گئی ۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے ایک ایسا قصہ کہہ ڈالا کہ الامان و الحفیظ ۔ یہ صاحب بھی صالحین میں سے ہیں ۔ ایک دوست سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ آج کل ’مربی‘ کے منصب پر فائز ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ آج عید والے دن سراج صاحب کے گھر قریبی گھروں سے گوشت آیا تب پکایا گیا ۔ یہی نہیں ان صاحب نے یہ بھی بتایا کہ سراج صاحب حقیقی غربت میں جی رہے ہیں اور ان کے کپڑے بنوانے میں ان کے دوست ان کی مدد کر دیتے ہیں ۔ ان کے گھر میں گھریلو ملازمین نہیں ہیں اور ان کی اہلیہ سات بچوں کا سارا کام خود کرتی ہیں ۔ دیر سے آئے مہمان ہر وقت موجود رہتے ہیں اور وہ ان مہمانوں کی خود روٹیاں پکا پکا کر خدمت کرتی ہیں ۔ اب فطری طور پر اس داستان گوئی کا حاصل چند سوالات ہیں؟ مثلاجو بندہ قربانی نہیں کر سکتا ، جس کے گھرگوشت تب پکتا ہے جب پڑوس کے گھروں سے آئے، جس کے کپڑے دوست مدد کر کے بنواتے ہوں ، اس کے گھر سارا سال مہمانوں کے لیے روٹیاں کیسے پک سکتی ہیں؟ اور کیا اتنے غریب آدمی کو سات بچے پیدا کرنے چاہیے تھے؟

سراج الحق صاحب ایک سینیٹر ہیں اور ایک سینیٹر کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ ہے۔ سمپچوئری الاؤنس کی مد میں اسے پانچ ہزار ماہانہ ملتے ہیں ۔ آفس مینٹی نینس الاؤنس کے نام پر اسے آٹھ ہزار ماہانہ ملتے ہیں ۔ دس ہزار ماہانہ اسے ٹیلی فون الاؤنس کے نام پر ادا کیے جاتے ہیں ۔ اگر وہ کسی کمیٹی کا چیئر مین ہو تو بارہ ہزار سات سو روپے مزید اسے ادا کیے جاتے ہیں ۔ یہ ملا کر1لاکھ 85ہزار 7 سو روپے بنتے ہیں ۔ ہر سال ایک سینیٹر کو تین لاکھ کے سفری ووچر دیے جاتے ہیں ۔ ہر سال ایک سینیٹر کو اندرون ملک 20 ریٹرن ٹکٹ ملتے ہیں ۔ ذراممبرز آف پارلیمنٹ سیلری اینڈ الاؤنس ایکٹ 1974 کو کھول کر دیکھیے آپ کو معلوم ہو جائے گا سراج الحق صاحب کتنے غریب ہیں ۔ یہ معلوم انسانی تاریخ کی عجیب و غریب قسم کی غربت ہے کہ اتنی تنخواہ اور مراعات لینے کے باوجود ایک شخص کو غربت اور درویشی کا عنوان بنا کر پیش کیا جائے۔

سراج الحق جس جماعت کے امیر ہیں اس کی پہچان متانت اور سنجیدگی ہی رہی ہے ۔ سید مودودی سے سید منور حسن تک، جماعت اسلامی کے تمام امراء سادگی اور متانت کا نمونہ تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ہائی ٹی کرنے شانزے لزا نہیں جایا کرتا تھا۔ سراج الحق اگر سادہ ہیں تو یہ کوئی ایسی انہونی نہیں جس کی مثال اس سے پہلے جماعت اسلامی میں کہیں نہ ملتی ہو اور گلی گلی جس کی منادی کرانا غلبہ اسلام کے لئے ضروری ہو۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ وقت نے انہیں جس مسند پر لا بٹھایا ہے وہ کسی معمولی آدمی کی مسند نہیں ہے۔ وہ سید ابولاعلی مودودی جیسے جلیل القدر شخص کی مسند کے وارث بنائے گئے ہیں۔ اس منصب کو تفنن طبع کا عنوان نہیں بننا چاہیے۔ یہ منصب امیرِ جماعت کا ہے ، غریبِ جماعت کا نہیں ۔ یہ داستان گوئی سراج الحق کے چاہنے والوں کی انفرادی واردات ہے یا باقاعدہ پالیسی ، ہر دو صورتوں میں اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ ووٹر لے یا نہ لے ، کم از کم جماعت کو تو اپنے امیر کو سنجیدہ لینا چاہیے۔

(میرے علم کیمطابق بطور امیر بهی انهیں ماہانہ تنخواہ جماعت اسلامی کی طرف سے ملتی ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے