یہ نمازِ عصر کا وقت ہے

تخت کسی کا نہیں… فرمایا: ملک اللہ کا ہے‘ جسے وہ چاہے عطا کرے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ اکثر بادشاہوں کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔ دائم بادشاہی بس ایک پروردگار کی ہے۔
شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انہی کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں

نون لیگ کی وفاتِ حسرت آیات کا وقت غالباً آ پہنچا ہے۔ لازم نہیں کہ سانحہ 17 ستمبر ہی کو رونما ہو؛ اگرچہ تاریخ لکھی جائے گی تو این اے 120 کا ذکر بھی جلی انداز میں ہو گا۔
سیاسی قوتیں اندازِ فکر کی بنا پہ مرتی ہیں۔ وہی لوگ اپنے طرزِ احساس کی خامیوں کا جو ادراک نہیں کرتے۔ بقا کی جدوجہد میں پہلی اور آخری متاع آدمی کی دانش ہوتی ہے۔ اگر وہ دھندلا جائے‘ فریب نظر کا شکار ہو کر تجزیے پر قادر نہ رہے۔ ضد اور تعصب میں مبتلا ہو تو زوال مقدر ہو جاتا ہے۔

یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔ سبق سیکھنے سے نون لیگ نے انکار کر دیا ہے۔ عدلیہ اور فوج کے خلاف مسلسل محاذ آرائی اور نفرت پھیلانے سے فائدہ نہیں‘ اسے نقصان پہنچے گا۔ شریف خاندان کی اب بھی پذیرائی ہے۔ مقبولیت میں کمی آئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ کوئی طوفان اس کے خلاف نہیں اٹھا ہے۔ بہت سے ووٹروں کے لیے‘ اب بھی وہ قابلِ قبول ہیں مگر عدلیہ اور فوج کی مقبولیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔

عدلیہ سے شکایات رہی ہیں اور عسکری قیادت سے بھی۔ اب مگر شریف خاندان کے مقابلے میں کہیں زیادہ صبر‘ تحمل اور انصاف پسندی کا وہ مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اشتعال میں مبتلا ہونے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ بہت مشکل صورتحال میں بڑی حد تک اپنے دائرہِ کار کو ملحوظ رکھا ہے۔ فوج نے براہِ راست سیاسی مداخلت سے گریز کیا ہے‘ ماضی میں ہر دس بارہ برس کے بعد جو دیکھنے میں آتی رہی۔ چھ سے سات درجن تک‘ ایسے لیگی ارکان موجود ہیں‘ اپنی قیادت کے طرزِ عمل سے جو متفق نہیں۔ ان کی پشت پر اگر ہاتھ رکھا جاتا تو اولاً چند ایک اور پھر ایک پورا لشکر‘ شریف خاندان کو خیرباد کہہ دیتا۔ اب تک یہ فصل اجڑ چکی ہوتی۔

فی الحال وہ سب کے سب اپنے مرکز سے وابستہ ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ لج پال ہیں۔ ایسے ہی اگر وہ وفادار ہوتے تو 1999ء اور پھر 2002ء میں ریوڑ کا ریوڑ الوداع نہ کہتا۔ بنیادی سبب یہی ہے کہ عسکری قیادت نے اپنی محدودات کو سمجھ لیا ہے۔ آئین کے دائرہ کار میں وہ بروئے کار آنا چاہتی ہے۔ اسی لیے ایک طرف تو آبپارہ سے پیغام رسانی کا آغاز نہیں ہوا۔ دوسری طرف خود شریف خاندان کے تجویز کردہ وزیر اعظم کو راولپنڈی کا تعاون حاصل ہے۔ اتنا اور اس قدر ہی جتنا کہ ہونا چاہیے۔ کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں کھڑی نہیں کی گئی۔ قطر کے ساتھ ایل این جی کے معاہدے پر‘ جس میں بڑے پیمانے کی گڑبڑ ہے‘ سیاسی حریفوں نے لب کشائی ضرور کی‘ راولپنڈی والوں نے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ اسی طرح ایک متنازعہ مشیر کے تقرّر پر بھی‘ لاتعلقی اور بیزاری کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔ سیاست کی دنیا میں‘ اس کا نام بھی سننے میں کبھی نہ آیا تھا۔ اپنی خاص ترجیحات رکھنے والا ایک میڈیا گروپ‘ جس کا پشتیبان ہے۔

کچھ کریڈٹ خود شاہد خاقان عباسی کو بھی جاتا ہے۔ وہ ایک عملی آدمی ہیں۔ اعتدال کی راہ چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صبح نو بجے دفتر آتے اور رات گئے تک کام میں جتے رہتے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر کو آٹھ ماہ میاں محمد نواز شریف نے انتظار میں رکھا۔ عباسی نے دوسرے ہفتے ملاقات کے لئے مدعو کر لیا۔
شخصی تصادم سے شاہد خاقان عباسی گریز کرتے ہیں۔ کسی چلبلے موٹر سائیکل سوار کی طرح‘ کہیں بھی ٹپک پڑنے والے شیخ رشید سے بھی صرفِ نظر کرتے ہیں۔

کسی کا خیال اگر یہ ہے کہ کالے دھن کے الزام سے شریف خاندان بچ نکلے گا تو معاف کیجئے‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ حدیبیہ پیپر مل کے معاملے میں‘ لندن کی جائیدادوں کو وابستہ کرنے کا کیا ہو گا؟ محترمہ مریم نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش کردہ جعلی دستاویزات کو کیسے حذف کیا جا سکے گا؟ فرش پر پڑے کوڑا کرکٹ کو قالین تلے چھپایا جا سکتا ہے‘ ایک پہاڑ کو نہیں۔

شریف خاندان کی بے بہا مشکوک دولت اور جوڑ توڑ سے تخلیق کیا گیا ملک گیر جال‘ اس کے سب سے بڑے اثاثے تھے‘ اسی کو جسٹس کھوسہ نے ”مافیا‘‘ کہا تھا۔ وہی اب اس کے لیے سب سے بڑے بوجھ بن گئے ہیں۔ اب کالے دھن کا جواز پیش کرنا ہے۔ سیاہ کو سفید کون ثابت کر سکتا ہے‘ وہ بھی ایسی عدالت کے سامنے‘ جس کی طرف سے مہلت دینے اور نرمی برتنے کا طعنہ زنی کے ساتھ تمسخر اڑایا گیا۔ بدترین حکمت عملیوں میں سے ایک یہ ہوتی ہے کہ رعایت دینے والوں کو کمزور سمجھ کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی جائے۔ شریف خاندان کے لیے بہترین تدبیر یہ ہوتی کہ فوج سے بالکل نہ الجھتے۔ اس لیے کہ پاناما سے کوئی تعلق اس کا نہیں تھا۔ عدالت کو حریف قرار دیتے اور نہ جے آئی ٹی کے تفتیشی افسروں کو۔ کم از کم چند غلطیوں کا اعتراف کر لیتے۔ یہ تاثر دیتے کہ یہ بشری کمزوریاں ہیں اور نادانستہ سرزد ہوئی ہیں۔ مثلاً گلف سٹیل مل اور عزیزیہ سٹیل مل کا پورا ریکارڈ اگر موجود نہیں تو یہ ایک غلطی ہے۔ قطری شہزادے کا خط‘ عدالت کو دھوکہ دینے سے زیادہ‘ خود فریبی کا المیہ ہے۔ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی روش‘ مکمل تباہی کا نسخہ ہوتا ہے‘ میاں محمد نواز شریف‘ کئی برس سے جس کا شکار ہیں۔ کسی بھی چیلنج کو ماتھے کے بالوں سے پکڑنا ہوتا ہے۔ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جاتا ہے۔

موصوف کی ہمّت ٹوٹ چکی‘ اعصاب جواب دے چکے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد تین چار ماہ تک قوم سے خطاب نہ کر سکے۔ صدر اوباما سے ملنے گئے تو اس قدر بوکھلائے ہوئے کہ پاکستان کے دورے کی دعوت بھی کاغذ پر لکھ کر پڑھی۔ مسٹر اوباما کو مسز اوباما کہہ ڈالا۔ چین تشریف لے گئے تو اس کی قیادت اور ٹی وی کیمروں کے سامنے پوچھتے پائے گئے کہ پاک چین دوستی کے سلسلے میں ”وہ کیا تشبیہ ہے‘ سمندروں سے گہری‘ شہد سے میٹھی اور…‘‘۔

شاہی خاندانوں میں ویسے ہی اختلافات ہوا کرتے ہیں‘ جیسے کہ کسی اور گھرانے میں۔ بھٹو خاندان میں کیا نہیں تھے؟ حمزہ شہباز نے تو یہی کیا کہ بنتِ عم کی قیادت قبول نہ کی‘ تائی جان کی حمایت سے انکار کیا اور لندن چلے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو تو علی الاعلان اپنی بہن بے نظیر بھٹو کی مذمت کیا کرتے۔ اس کے باوجود کہ جواب میں مستقل طور پر وہ خاموش رہتیں۔ شریف خاندان میں تنازعات شدید اور بنیادی نوعیت کے نہیں تھے۔ حادثہ یہ ہوا کہ میاں محمد نواز شریف انہیں سلجھا نہ سکے۔ معاف کیجئے گا‘ اس کی بنیادی وجہ ان کی خود پسندی ہے۔ ان کا اندازِ فکر یہ ہے کہ کسی کو اختلاف کرنا ہے تو تنہائی میں کرے۔ وہ بھی عاجزی اور انکسار کے ساتھ۔ ایسا نہیں ہوتا۔ گھر میں کوئی دیوتا نہیں ہوتا۔ ہوتے تو سیاست میں بھی نہیں۔ ملوکیت اور غلامی کے معاشرے‘ لیڈروں کو ”سپرمین‘‘ ضرور مان لیتے ہیں؛ اگرچہ آخرکار ہر ایک کا رنگ و روغن دھلتا ہے۔ وہی آدمی کی شکل نکل آتی ہے۔

کل دھوپ کے میلے سے خریدے تھے کھلونے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا

چوہدری نثار علی خان اور میاں محمد شہباز شریف کو وہ قائل نہ کر سکے۔ رائے عامہ کو کیسے کریں گے؟
”یہ نمازِ عصر کا وقت ہے‘ یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی‘‘
تخت کسی کا نہیں… فرمایا: ملک اللہ کا ہے‘ جسے وہ چاہے عطا کرے۔ ابدیت سفر کو ہے‘ مسافر کو نہیں۔ اکثر بادشاہوں کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔ دائم بادشاہی بس ایک پروردگار کی ہے۔
شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی
انہی کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں
پس تحریر: شاہی خاندان کی نسلِ نو کے بارے میں‘ چودھری نثار علی خان نے جو کچھ کہا‘ میاں محمد شہباز شریف کے احساسات‘ اس سے مختلف نہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ اظہار نہیں کر سکتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے